• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب جس ملک میں ایدھی جیسا فرشتہ لٹ جائے اس ملک کے بنانے والے سے واقعی کوئی بھول ہو گئی تھی۔ لیکن آج کے شہر قائد کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ملک کا بانی بھی ہوتا تو شاید لٹ جاتا۔ یہ کوئی چھوٹے موٹے اخلاقی مجرموں اور ڈاکوئوں کا کام نہیں یہ بڑے قومی ڈاکوئوں کا کام لگتا ہے۔ ایدھی اور ادیب رضوی جیسے لوگ اس ملک میں بغیر پروں والے فرشتے ہیں۔ مرتی دم توڑتی، دکھی انسانیت، کو نئی زندگیاں دینے والے لوگ،بچانے والے لوگ۔ اب ایسے لوگوں کو بھی دھمکیوں کا سامنا ہے، پھر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا دہشت گردوں کے آماج گاہ کیوں کہتی ہے۔
انیس سو نوے کی بات ہے جب آج کی طرح سندھ پر ڈاکو راج تھا (تب بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی) کراچی سے ایدھی سینٹرکی ایمولینس کسی کی میت کو لیکر اس کے لواحقین کے ساتھ میرپور خاص کی طرف سائرن بجاتی چیختی چنگھاڑتی جا رہی تھی کہ اس پر ٹنڈو اللہ یار کے قریب ڈاکوئوں نے فائرنگ کی جس میں میت کو لیکر آنیوالے لواحقین بھی یاشاید ڈرائیور بھی فوت ہوگیا تھا۔ بلاشک یہ وحشیانہ عمل تھا۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد عبدالستار ایدھی کو ڈاک میں ایک خط ملا جس میں لکھنے والوں نے انہیں بتایا تھا کہ یہ وہی ڈاکو ہیں جنہوں نے ان کی ایمبولینس پر فائرنگ کی تھی جس پروہ سخت شرمندہ ہيں اور اپنے رب اور ایدھی صاحب سے معافی کے طلب گار ہیں۔ ڈاکوئوں نے لکھا تھا کہ انہیں دور سے سائرن بجاتی اور بتی جلاتی گاڑی کا پتہ نہیں تھا کہ ایدھی کی ایبمولینس ہے انہوں نے کہا کہ انہوں نے انکی گاڑی کو پولیس کی گاڑی سمجھ کرغلط فہمی میں اندھادھندہ فائرنگ کی تھی۔ سندھ کے ان ڈاکوئوں نے ایدھی سے اپیل کی تھی کہ وہ ان کو اور مرنے والوں کے لواحقین کو اور تمام نقصانات کا معاوضہ اور جرمانہ بھرنے کو تیار ہیں۔
یہ تھا ملک کا سب سے بڑ سماجی خدمت گار جسے میرے ایک دوست نے پاکستان کے ’’فادر ٹریسا‘‘ کا نام دیا تھا۔ انہی دنوں میں ایدھی نے کہا تھا کہ وہ کراچی شہر سے زیادہ اندرون سندھ ڈاکوئوں کے ہوتے ہوئے بھی خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ ایدھی نے ہمیشہ کہا تھا کہ ڈاکو بھی ملک کے بڑے قومی ڈاکوئوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ایدھی سندھ کے ڈاکوئوں میں تب بڑا مشہور ہوا ہوگا جب اس نے ڈاکوئوں کو عام معافی ملنی چاہئے کی بات کی تھی۔ ایدھی کو عام ڈاکو نہیں لوٹ سکتا کہ وہ ہمیشہ بڑے قومی ڈاکوئوں کے نشانے پررہے ہیں۔ وہ قومی ڈاکوجو اس ملک کی اورملک کے سب سے بڑے شہر کی مستقل قومی مصیبت ہیں۔ مافیائی۔ دہشت گرد ٹولے۔ دیدنی اور نادیدنی قوتیں۔عبد الستار ایدھی بابائے شہر ہیں جس طرح کلکتہ میں روشنی کا مینار مدر ٹریسا ہوا کرتی تھیں۔ لیکن کلکتہ کا کراچی سے کوئی مقابلہ نہیں۔ جہاں ملک کے بانی کے مزار کے احاطے میں مزار کے محافظوں کے ہاتھوں بچیاں اجتماعی زنا بالجبر کا شکار ہو جائیں، اس شہر اور ملک میں کوئی رہبر نہیں رہزن بستے ہونگے، بھیڑئیے (بیچارے اصلی بھیڑیوں سے معذرت) یہ بھیڑئیے آپ سے براہ راست مخاطب بھی ہوتے ہیں۔
نہیں، ایدھی کو کلکتہ اور کراچی کیا دنیا جہاں کی بائونڈریز میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ پیار محبت بانٹنے والا آدمی۔ رسولوں کے اخلاق جیسا انسان۔ یتیموں بیوائوں لاوارث لاشوں کا زندگیوں کا وارث۔ ٹارچرشدہ جسموں کی کہانیاں کھول کر کہنے اور ان پرماتم کرنے والا مجاہد ایدھی۔ وہ پھر ہماری بہن ڈاکٹر فوزیہ بھٹو ہو کہ جو سندھی بھیڑئیے کی بھینٹ چڑھ گئی، یا ریاستی بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھنے والا نوجوان انقلابی نذیر عباسی یا پھر نوے کی دہائی کےآپریشن میں اجتماعی اور گمنام قبروں یا قبرستانوں میں پھینکی جانے والی لاشیں۔ اگر ایدھی اس شہر میں نہ ہوتا تو یہ شہر کب کا مرجاتا ۔ وہ شہر جو معلوم نامعلوم قاتلوں سے بھرا ہوا ہونے کے باوجود جواب تک مرنے سے انکاری تھا وہ اس لئے کہ ایدھی اس شہر کے زخموں پر مرہم رکھنے والا تھا۔ وہ اس شہر کی دائی بھی تھا تو اس شہر میں لاوراث لوگوں اور لاشوں کا وراث بھی ۔ بقول احمد فراز:
سارا شہر ہے مردہ خانہ کون اس راز کو جانے گا
ہم سارے لاوراث لاشیں کون ہمیں پہچانے گا
انہیں کسی نے بھرپور تعبیر کیا ہے: ’’اندھوں کو ائینہ‘‘ اندھوں کے شہر میں آئینہ۔ لیکن یہ ملیشیا کپڑےاور پائوں میں چپل والی جوڑی اور سر پر مڑی تڑی قراقلی پہنے شخص کسی بھی قسم کے نام نمود و نمائش سے دور۔ نعرے مت لگائو۔ یہ نعرے مت لگائو’’ یعنی یہ ایک دفعہ جناح کے مزار پر انہیں دیکھ کر عبدالستار ایدھی زندہ آباد ‘‘ کے نعرے لگانے والے لوگوں کو ڈانٹ رہے تھے۔ پتہ نہیں میں جب بھی اس شہر میں کنگھی بیچنے، ازار بند اور چھوٹی موٹی چیزیں جوڑیا بازار میں بیچنے والے بچے دیکھتا تو مجھے خواہ مخواہ عبد الستار ایدھی یاد آجاتا ۔ کیونکہ ان کا بچپن اور نوجوانی ایسی کٹھن اورپرمشقت گرزی تھی اسی کراچی کی سڑکوں پر۔
یہ دھرنے نہیں دیتا یہ جھولی پھیلاتا ہے انسانیت کو امیر دیکھنے کو بھیک منگا ہے۔ گوتم بدھ کا بھکشو۔ کنکریٹ کے اس جنگل جسے کراچی کہتے ہیں میں سادھنا لئے ہوئے۔ لیکن یہ شہر تو بقول عظیم سندھی شاعر شیخ ایاز بابل ہے جہاں جو بھی فرشتہ آیا ہے اسے کنویں میں الٹا لٹکایا گیا ہے۔ وہ اس فرشتے کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے۔ بزور بندوق۔ کیوں باربار بابا ایدھی یہ رک کربات یاد کرتے ہیں۔ بھولجائیں۔ مجھے نہ جانے کیوں لگ رہاہے کہ وزیراعظموں کے فیکٹریوں والے اور ایدھی کو لٹوانے والوں کا اسکرپٹ ایک ہی ہے۔ شاید ایسا نہ بھی ہو۔ لیکن پھر وہی بات کہ یہ چھوٹے موٹے ڈاکوئوں کا کام نہیں لگتا۔ کسی نابینا شخص سے پوچھو تو وہ بھی بتائے گا یہ کریہ کام کس کا ہوسکتا ہے۔
اس شہر بابل تو کیا اس ملک میں فقط دو میں سے ایک اور فرشتے ڈاکٹر ادیب رضوی کے خلاف بھی ہم اپنے منہ پرکالک ملنے نکلے ہیں۔ انہیں بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کہ جنھوں نے نوجوانی اور طالب علمی سے ہی اس ملک کے گردے ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا ۔ وہ کہ جنھوں نے اتنا بڑا ادارہ دیا ہے اس ملک کے انسانوں کو بغیر کسی تفریق کے نئ زندگیاں دی ہیں۔ کراچی کے بعد اب وہ سکھر تک اپنی ٹیم اور ساتھیوں کے ساتھ زندگیاں بچانے میں مگن ہیں۔ زندگیاں تو وہ بچاسکتے ہیں لیکن ہم میں مری ہوئی انسانیت کو یہ مسیحا بھی زندہ نہیں کرسکتے۔
لگ ایسے رہا ہے کوئی غیبی قوت ہے کہ اس شہر اس ملک سے رہے سہے مہذب پن ختم کرنا چاہتی ہے ۔ تا کہ بالکل گھپ اندھیرا ہوجائے۔ لیکن اب بھی اندھیرا کم نہیں۔جیسے مغل حکمراں اورنگزیب کی شاعرہ بیٹی زیب النساء مخفی نے کہا تھا’’ کہ اس اندھیرے سے شام غریباں نےبھی پناہ مانگی ہے) اسی لئے چاہے بڑا انسان ہو کہ ادارہ (وہ ادارہ ہرگز نہیں جو قوم اینکران کا پسندیدہ لفظ ہے کہ صرف وہی مقدس ہے) اس پر حملے کئے جارہے ہیں۔ لیکن چاہے ہم کتنے اندھے کیوں نہ ہوجائيں لیکن اس شہر میں آئينے تو پھر بھی کسی کو بیچنے ہی تو ہیں نہ!
تازہ ترین