• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرائیکی زبان کے عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فریدؒ کی ایک کافی کا یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے ’’ تھی راہی تھل مارو جلسوں ۔ ۔ ۔ لانڈھی تے لسبیلہ رلسوں ‘‘ جس کا اردو میں ترجمہ یہ ہے کہ ’’ ہم سفر بن کر ہم اپنے محبوب کے دیس تھل چلیں گے اور پھر وہاں سے لانڈھی اور لسبیلہ بھی گھومیں گے ۔ ‘‘ تھل سرائیکی وسیب یعنی جنوبی پنجاب میں واقع ہے جبکہ لانڈھی سندھ میں اور لسبیلہ بلوچستان میں واقع ہے ۔ خواجہ فریدؒ کے اس شعر کو بنیاد بناتے ہوئے ملتان کے ممتاز دانشور سید زمان جعفری مرحوم نے سرائیکی سندھی بلوچ ( ایس ایس بی ) کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا تھا ، جس کا بنیادی تصور یہ تھا کہ پاکستان میں ان تین مظلوم قومیتوں کے تاریخی طور پر آپس میں گہرے رشتے ہیں لہٰذا انہیں مل کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی چاہئے ۔ زمان جعفری مرحوم کے خیال میں جب ’’ ایس ایس بی ‘‘ کا سیاسی اتحاد مضبوط ہو جائے گا تو اس میں وادی سندھ کی پنجابی سمیت دیگر قوموں اور قومیتوں کو بھی شامل کرکے پاکستان کی قومی جمہوری جدوجہد کو مضبوط بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور پاکستان کی مظلوم قوموں اور طبقات کے حقوق حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ زمان جعفری کا ’’ ایس ایس بی ‘‘ کا نظریہ بہت مقبول ہوا اور پاکستان کی مظلوم قوموں کی تحریک ( پونم ) میں ’’ ایس ایس بی ‘‘ کو ایک نصاب کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا ۔بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے زمان جعفری کے اس نظریہ کو اپنا لیا تھا اور انہوں نے اپنی پارٹی کی تنظیم سازی بھی اسی نظریہ پر کی تھی ۔ خواجہ فریدؒ نے جس لسبیلہ سے اپنی والہانہ محبت اور وابستگی کا اظہار کیا تھا ، اسی لسبیلہ کے علاقے ساکران میں گذشتہ ہفتے سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے 8 غریب محنت کشوں کو بے دردی اور بے رحمی سے قتل کر دیا گیا ۔ یہ مزدورحب کے نزدیک ساکران کے علاقے میں پولٹری فارمز پر کام کرتے تھے ۔ ان کی فی کس ماہانہ تنخواہ صرف8 ہزار روپے تھی ۔ ان کی بے بسی اور مجبوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ 8 ہزار روپے کی خاطر ایک ہزار میل دور مزدوری کرنے آئے تھے ۔ یہ سیلاب متاثرین تھے ، جو بھوک کی وجہ سے یہاں تک پہنچے تھے ۔ جب انہیں قتل کیا جا رہا تھا تو ان کے تن پر پھٹے ہوئے کپڑے تھے ۔ سانحہ ساکران پر نہ صرف سرائیکی وسیب بلکہ بلوچستان سمیت پورا ملک سوگوار ہے ۔ سرائیکی وسیب میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ ملتان میں سرائیکی عوامی اتحاد کی طرف سے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا ہے ۔خان پور، ڈیرہ غازی خان اور دیگر علاقوں میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں ۔ بستی بستی ، شہر شہر تعزیتی ریفرنس بھی منعقد ہو رہے ہیں ۔ قتل ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کی بستی ٹھل حمزہ سے ہے ۔ ان میں گبول بلوچ بھی شامل ہیں ۔ دو افراد کا تعلق شہر سلطان سے ہے ، جہاں مدفون کئی صوفیائے کرام سے بلوچستان کے لوگوں کی گہری عقیدت ہے ۔ تعزیتی ریفرنسز میں سرائیکی کے جو شعراء اور دانشور ان مظلوموں کا نوحہ پڑھ رہے ہیں ، ان میں عاشق بوزدار ، صوفی تاج گوپانگ ، نخباہ لنگاہ ، ساجدہ لنگاہ اور دیگر لوگ شامل ہیں ، جو خود بھی نسلاً بلوچ ہیں ۔سندھ اور سرائیکی علاقوں کی آدھی سے زیادہ آبادی نسلاً بلوچ ہے ۔سرائیکی علاقے کے لغاری ، مزاری ، لاشاری ، قیصرانی ، کھتران ، بوزدار ، دریشک ، جتوئی ، مستوئی ، گبول اور دیگر بے شمار بلوچ قبائل سرائیکی عوام کے ساتھ اس احتجاج میں شامل ہیں ۔ خواجہ فریدؒ اور زمان جعفری مرحوم بھی آج بہت دکھی ہوں گے ۔ بلوچستان میں غریب اور محنت کش لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ جس وقت یہ سطور رقم کی جا رہی تھیں ، کوئٹہ میں بھی دہشت گردی کے ایک واقعہ کی خبر چل رہی تھی ، جس میں متعدد بے گناہ افراد کی زندگی کے چراغ گل کر دیئے گئے ۔ بلوچستان میں مذہبی ، فرقہ ورانہ ، نسلی اور لسانی بنیادوں پر لوگوں کو شناخت کرکے قتل کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ صورت حال کسی معاشرے میں تب پیدا ہوتی ہے ، جب اس معاشرے پر وہ لوگ حاوی ہو جاتے ہیں ، جو دلیل سے بات کرنے اور بات سننے کے جوہر سے محروم ہوتے ہیں یا جن معاشروں کا اپنے اوپر اختیار ختم ہو جاتا ہے اور یہ اختیار بیرونی عناصر کو منتقل ہو جاتا ہے ۔ سانحہ ساکران کی ذمہ داری تادم تحریر کسی نے قبول نہیں کی ہے اور ہمیں اس بات کا کوئی حق نہیں ہے کہ ہم بلا ثبوت کسی پر ذمہ داری عائد کریں ۔البتہ بلوچستان کے لوگوں خصوصاً ترقی پسند اور قوم پرست سیاسی رہنماؤں پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان عناصر کو بے نقاب کریں،جو بہادر بلوچوں کے اصول پسندی اور اعلیٰ اقدار پر مبنی تشخص کو داغ دار کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، میر حاصل بزنجو ، سردار اختر جان مینگل اور ڈاکٹر حئی بلوچ جیسے سیاسی رہنمائوں سے یہی توقع کی جارہی ہے کہ وہ اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کریں گے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات سے مظلوم بلوچوں کے حقوق کی تحریک کے لیے سیاسی اور اخلاقی حمایت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے ، جس کا ہمیں خاص طور پر دکھ ہو رہا ہے ۔ مسلسل کئی سالوں سے سرائیکی علاقے میں بلوچستان سے لاشیں جا رہی ہیں ، اس کے باوجود ممتاز سرائیکی دانشور اور صحافی ظہور دھریجہ کا کہنا یہ ہے کہ سرائیکی علاقے میں آج بھی وہ بلوچوں کے خلاف بات نہیں کر سکتے کیونکہ سرائیکی عوام میں بلوچوں کے لیے بہت ہمدردی ہے ۔ وہ بلوچوں سے بہت گہرا رشتہ محسوس کرتے ہیں ۔ صرف سرائیکی علاقے میں ہی نہیں بلکہ پورے پنجاب میں بلوچوں کے موقف کی دلی حمایت موجود ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جب ماما قدیر بلوچ کی سربراہی میں لانگ مارچ کرنے والا قافلہ لاہور سمیت وسطی پنجاب کے شہروں سے گذرا تو لوگوں نے اپنے گھروں سے نکل کر اس قافلے کا استقبال کیا اور اس کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ۔ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی ترقی پسند اور جمہوری قوتوں ، دانشوروں ، ادیبوں اور شاعروں نے بلوچستان کے نوجوانوں کو لاپتہ کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کے خلاف آواز بلند کی ۔ ممتاز بلوچ رہنما رؤف خان ساسولی کا یہ بیان قابل غور ہے ، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر چاروں صوبوں کے غریب اور محنت کش عوام کا مضبوط سیاسی اتحاد بن جائے تو بلوچستان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ خود رؤف خان ساسولی کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ ان کے لاپتہ ہونے کے خلاف چاروں صوبوں سے آواز اٹھی تھی ۔ پروفیسر عزیز الدین احمد ، آئی اے رحمن ، عاصمہ جہانگیر اور دیگر کئی لوگوں کا تعلق پنجاب سے ہے ، جنہوں نے بلوچوں کے لیے سب سے زیادہ آواز بلند کی ہے ۔ ایک اور حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ انصاف ، حقوق اور آزادی کی تحریکوں میں نا انصافی اور بے گناہ انسانوں کا خون شامل ہو جانے سے تاریخ میں کئی قوموں کی بربادی کی داستانیں رقم ہوئی ہیں ۔ اب ان قوتوں کو بے نقاب ہونا چاہئے ، جو بلوچوں کو تنہا کرنے اور انہیں اپنی سیاسی اور اخلاقی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ بلوچوں کو اپنے عظیم شاعر ’’ بالاچ ‘‘ کی رزمیہ شاعری کا سبب معلوم ہے ۔ بالاچ جب چھوٹا سا بچہ تھا تو اس کے بھائی دودا خان کو بے گناہ قتل کر دیا گیا تھا ۔ بالاچ یہ غم برداشت نہ کر سکا اور حضرت شہباز قلندرؒ کے آستانے پر آ کر بہشتی بن گیا اور پانی بھرتا رہا ۔ 18 سال اس نے آستانے پر گذارے ۔18 سال بعد وہ واپس اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لیے اپنے گاؤں گیا لیکن جب اس نے اپنے والدین ، دودا کے یتیم بچوں اور اس کی بیوہ کو انتہائی غم ناک دیکھا تو اس کی جنگی شاعری نوحہ میں بدل گئی ۔ وہ مقتول بھائی کو مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ’’ جب میں تمہارے بچوںکو غم ناک دیکھتا ہوں ۔۔ ۔ جب انہیں بغیر باپ کے دیکھتا ہوں ۔۔ ۔ جب وہ دھوپ میں پڑ کر سو جاتے ہیں ۔۔ ۔ جب میں تمہاری بیوہ کی مظلومانہ آہ و نالوں کو سنتا ہوں ۔۔۔ وہ اپنے بالوں میں کنگھی بھی نہیں کرتی ہے ۔۔ ۔ تو میرا دل اور بھی جل بھن جاتا ہے ۔۔ ۔ دردو غم ہے بالاچ کے دل پر ‘‘ ۔ ٹھل حمزہ اور شہر سلطان کے ہر ’’ دودا ‘‘ کے گھر میں بھی یہی کیفیت ہے ۔
تازہ ترین