• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہلی میں ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک ہی موقف اختیار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی صورت ِحال کو دہشت گردی قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک اس مسئلے پر یکساں رائے رکھتے ہیں۔سشما سوراج کا کہنا تھا۔۔۔’’ میں نے سیکرٹری جان کیری کو سرحد پارسے ہونے والی دہشت گردی پر بریفنگ دی ہے کہ انڈیا اوروسیع ترخطے کو پاکستان کی طرف سے ہونے والی دہشت گردی کے مسئلے کا سامنا ہے ۔ ہم اچھے اور برے طالبان کے درمیان نہ فرق کرتے ہیں اور نہ ہی کریں گے۔۔۔ امریکہ دہشت گردی کے تمام مسائل، چاہے ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو، میں انڈیا کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم اس مسئلے پر ایک جیسی رائے رکھتے ہیں۔‘‘
اس پریس کانفرنس کو پڑھنے سے یہ تاثر جاتا ہے کہ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے ، وہ بھارتی تسلط کے خلاف کشمیریوں کا بڑھتا ہوا غم وغصہ نہیں بلکہ سرحدپار دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔جب امریکی مفاد میں ہو تو انسانی حقوق کی حقیقی یا فرضی خلاف ورزی پر فصاحت وبلاغت کے دریا بہانے میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔وہ روس اور چین کو انسانی حقوق کے بارے میں لیکچر دینا نہیں بھولتے ۔ دلائی لامہ اور تبت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرط ِ جذبات سے اُن کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ لیکن مجال ہے جو دہلی دورے کے دوران جان کیری کی زبان سے کشمیر میں ہونے والے بھارتی جبر اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی کے بارے میں ایک لفظ بھی نکلا ہو۔
امریکہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کے مفاد میں ہو۔ اس کا انسانی حقوق کے بارے میں موقف دوٹوک نہیں ، بلکہ اس کی خارجہ پالیسی کے مفاد کے تابع ہے ۔لیکن حکومت ِ پاکستان سے زبان کس نے چھین لی ہے ؟ کیا اُنہیں پریس کانفرنس میں پاکستان پر کی جانے والی تنقید کا جواب نہیں دینا چاہئے تھا؟کیا اس موقع پر وزیر ِ اعظم کے دفتر اور فارن آفس کی طرف سے جاندار طریقے سے بیان نہیں دیا جانا چاہئے تھا کہ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے ، وہ سرحد پار دہشت گردی نہیں بلکہ مقامی طور پر ابھرنے والی مزاحمت کی لہر ہے ؟عالمی میڈیا، اگرچہ بادل ِ ناخواستہ، کشمیر میں مزاحمت کو دبانے کے لئے بھارتی مظالم، خاص طور پر مظاہرین کی آنکھوں کو نقصان پہنچانے والی پیلٹ گن کے استعمال، کو اجاگر کررہا ہے ۔ سیکرٹری کیری کے پاس یاد داشت سے دستبردار ہونے کی وجوہات موجود تھیں، کیونکہ امریکہ اور انڈیا کے درمیان پروان چڑھنے والی دوستی کسی تنقید کی اجازت نہیں دیتی، لیکن ہماری حکومت کو کیا ہوگیا ؟ مشترکہ پریس کانفرنس کا جواب کیوں نہیں دیا گیا؟
بھارتی وزیر ِ اعظم بلوچستان اور گلگت بلتستان کی بات کرسکتے ہیں۔ اُنہیں اس بات کا استحقاق ہے کیونکہ انڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں ایک مشکل صورت ِحال کا سامنا ہے ، اور اس سے توجہ ہٹانے کے لئے کچھ بھی کرنےکو تیار ہے ۔ لیکن اس نازک لمحے پر، جب پاکستان کا برا چاہنے والے ممالک اس کے خلاف اکٹھے ہورہے ہیں، قومی ضمیر کے نگہبان حیرت انگیزحد تک خاموش ہیں۔ یا تو وہ ایسے معاملات پر بات کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے جس میں ان کا اپنا مفاد وابستہ نہ ہو۔ یا پھر وہ جان بوجھ کے خاموش ہیں، اور اس کی وجوہ کا صرف اُنہیں ہی علم ہے ۔ جو بھی ہو، یہ خاموشی ناقابل ِ معافی ہے ۔ کیا کرفیواور فائرنگ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے والے کشمیری سرحد پار سے آنے والے دہشت گرد ہیں؟سری نگر کے اسپتال اتنی بھاری تعداد میں زخمیوں، خاص طور پر جن کی آنکھیں پیلٹ گن سے متاثر ہوئیں، سے نمٹنے سے قاصر ہیں۔ کیا یہ احتجاجی مظاہرین آئی ایس آئی نے بجھوائے ہیں؟کیا آزادی کے حق میں ، بھارت مخالف نعرے آئی ایس آئی لگوارہی ہے ، اور کیا یہ نعرے پاکستان کے حق میں ہیں؟
درحقیقت کشمیری قومی پرستی کی علامت کشمیری رہنما، شیخ عبداﷲ تھے، اور وہ بہت حد تک مسلم لیگ مخالف اور کانگریس کے حامی تھے ۔ اگر آج کشمیری جذبات بھارت مخالف ہوچکے ہیں تو کیا اس تبدیلی کی ذمہ داری آئی ایس آئی پر عائد ہوتی ہے ؟مقبوضہ کشمیر میں نصف ملین بھارتی فوجی دستے ہیں۔کیا موجودہ مزاحمت کی تحریک کے دوران لشکر ِ طیبہ یا جیش ِ محمد سے تعلق رکھنے والا کوئی جنگجو گرفتار ہوا؟کیا اس تحریک کے پیچھے حافظ سعید یا مولانا مسعود اظہر کا کوئی ہاتھ دکھائی دیا؟بھارت سرحد پار دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش میں ہے ۔ ورنہ وہ اس شورش کی کیا وضاحت کرے گا؟ضروری ہے کہ ہم اُس کے گمراہ کن حربوں کو ایکسپوز کریں۔ تاہم اس کے لئے نواز شریف حکومت کوبھارت کے ساتھ اور ’’سب ٹھیک ہے ‘‘ کے التباس سے باہر نکلنا ہوگا۔ یہ کوئی اشتعال انگیزی یا جارحانہ پن نہیں، بلکہ وقت کی ضرورت ہوگی۔ انڈیامقبوضہ کشمیر میں بہت منظم طریقے سے سفاکیت کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ کیا شملہ یا تاشقند معاہدے اس طرف دنیاکی توجہ مبذول کرانے میں مانع ہیں؟
اس وقت اصل معاملہ کشمیر میں ہونے والی خونریزی ہے جس پر ہماری توجہ ہونی چاہئے ۔ الطاف حسین اب ایک سائیڈ شو ہیں، اور ان کا معاملہ اتناہی اٹھانا چاہئے جتنی ضرورت ہے۔ بہت دیر تک اُن کی چاپلوسی کی گئی، اُنہیں خوش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ، لیکن اب وہ اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتیں گے۔ جمہوریت کے چیمپئنز کے ہاں فعالیت کا ایک اپنا معیار ہے ۔ کسی کے منہ سے کراچی میں دکھائی جانے والی بے مثال کارکردگی پر رینجرز کی تعریف میں ایک لفظ تک نہ نکلا ۔ کیا رینجرز کے علاوہ کسی اورنے پاکستان کے سب سے اہم شہر کو ایم کیو ایم کے زہرناک پنجوں سے رہائی دلائی ہے؟اُنہیں اپنا کام جار ی رکھنا چاہئے جب تک کراچی سے دہشت اور تشدد کے تمام عفریتوں کے سرکچل نہیں دئیے جاتے، چاہے اس میں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے ۔
پاکستان کواپنا گھردرست رکھنے کے لئے کچھ اورکام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک طرف ملک کو اپنے مقصد کے ساتھ پوری لگن سے واضح ہونا پڑے گا۔ ہمیں انتشار، ابہام اور نااتفاقی سے بچنا ہوگا۔ فوج انڈیا کو ایک مخصوص زاوئیے سے دیکھتی ہے ، لیکن سویلین حکومت کا زاویہ نگاہ مختلف ہے ۔ ایک وقت تھا جب فوج پر حب الوطنی کے شدید جذبات پیدا کرنے کا الزام لگتا تھا، لیکن بھارت کے ساتھ موجودہ تنائو کی وجہ مقبوضہ کشمیر کی صورت ِحال ہے، اور اس کی ذمہ داری فوج یا کسی پاکستانی گروہ پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ کشمیر میں شورش کی وجہ بھارتی ظلم ہے۔ پاکستان کا اخلاقی فرض ہے کہ اس کے خلاف بولے۔ یہ اپنے امریکی دوستوں کو بتائے بھارت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کا فکری الجھائو قابل فہم ہے۔ اُن کا بھارت کے ساتھ نرم رویہ ایک بات، لیکن مشرف شب خون کے ہیولے بھی اُن کے ذہن سے محو نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے دل سے مقتدر ادارے سے بے اعتنائی دور نہیں ہو پارہی۔ تاہم یہ وقت ذاتی مسائل سے بلند ہونے کا ہے۔ یہ بات مت بھولیں کہ یہ فوج ہے جس نے پاکستان کا شیرازہ بکھرنے سے بچایا ہوا ہے۔ نریندرمودی یا آرایس ایس یا بی جے پی سے پاکستان کے لئے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ پی ایم ایل (ن) کے التباسات اپنی جگہ پر، لیکن اسے یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان حافظ سعید یا مسعود اظہر کے دور سے آگے بڑھ چکا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی لبرل طبقہ ابھی تک ماضی کا اسیر ہے۔


.
تازہ ترین