• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری مسلم سوسائٹی سے دن بدن رواداری Tolerance عنقا ہوتی جا رہی ہے ہندو مسلم منافرت سے شروع ہونے والا خونی سانحہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اب بلاتخصیص دو دھاری تلوار بن چکا ہے ۔ نتیجتاََ پوری نسلوں سے فنی و تخلیقی صلاحیتوں کا خاتمہ ہوتا جا رہاہے اس بربادی کی کوکھ سے جو نظریہ جبر جنم لے رہا ہے اس سے سوسائٹی کا کوئی گوشہ یا شعبہ محفوظ نہیں رہے گا کیونکہ ہر کوئی حسب ِ استطاعت دوسرے کا خدا بننے کیلئے کوشاں ہے اپنے اکثر یتی خطوں سے ہندوئوں اور سکھوں کو بڑی حد تک نکالتے ہوئے ہم نے انہیں جو شکست فاش دی تھی اس کے نشے میں مخمور ہو کر ہم نے سب سے پہلے ایک مخصوص مذہبی فرقے پر ہاتھ صاف کیے، ریاستی طاقت سے ہم نے انہیں کاٹ کر نہ صرف یہ کہ اپنے قومی وجود سے الگ کیا بلکہ حسب استطاعت ہماری یہ تمنا ہے کہ ان جہنمیوں کو جہاں تک ہو سکے موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے اس نیک اسکیم پر عمل درآمد کے واقعات وقتاََ فوقتاََ رو پذیر ہوتے رہتے ہیں ان کے بعد ہماری یہ راسخ دو دھاری تلوار ایک جانب سے اگر کافروں یعنی مسیحیوں اور بچے کھچے ہندوئوں کے پیٹوں میں پیوست ہوتی رہتی ہے تو دوسری طرف تطہیر دین کی خاطر اپنے تئیں بد عقیدہ لوگوں کا بھی کام تمام کر دینے کیلئے گرجتی اور چمکتی رہتی ہے آئمہ کے پیرو کاران سے بڑھ کر راسخ نظروں میں بد عقیدگی و گمراہی اور کیا ہو سکتی ہے ان کے سینوں میں پوشیدہ یہ چنگاری بارہا چمک کر ظاہر ہوتی ہے کہ اے کاش ان کو بھی اسی طرح وجود قومی سے کاٹ کر الگ تھلگ پھینک دیا جائے جس طرح اول الذکر کو پھینکا جا چکا ہے ان کی نظروں میں اول الذکر میں کفر کی ایک بنیاد تھی تو اس اگلے بد عقیدہ طبقے میں بقول ان کے ایسی ایک سو ایک خرافات موجود ہیں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ شدت پسند داعیہ محض یہاں تک رکنے والا نہیں تھا بلکہ ان کے تئیں شرک و بد عات کے شاہکار دوسرے کئی گروہ بھی اگلے مرحلے میں ٹارگٹ بن سکتے تھے ہم پورے اعتماد سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر دوسری مخصوص کمیونٹی کے خلاف یہ تلوار یا تدبیر کامیاب ہو جاتی تو اس کا اگلا نشانہ مزاروں اور درباروں پر چڑھاوے چڑھانے والا فرقہ ہوتا۔ہم پوچھتے ہیں خیبر پختونخوا میں رحمن بابا کے مزار کو بموں سے اڑانے والے کون لوگ تھے ؟ کراچی کلفٹن کی درگاہ پر حملہ کرنے والے یا داتا دربار لاہور کے فرش کو انسانی خون سے رنگین کرنے والے کیا ہندو سکھ تھے یا صلیبی؟ ہندو سکھ تو ویسے ہی ان درباروں کو مقامات مقدسہ سمجھتے ہوئے یہاں ماتھا ٹیکنا اپنا ایمانی تقاضا خیال کرتے ہیں رہ گئے مسیحی تو وہ رحمن بابا ،اور داتا دربار جیسے امن و محبت کے گہواروں پر حملے کیوں کریں گے یہ تو انہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ جن کی کتب ان مزارات پر روا رکھی جانے والی عقیدتوں کو خرافات سے بڑھ کر بدعات و گمراہی بلکہ اس سے بھی آگے تک کے بیانیوں سے بھری پڑی ہے جس کو شک ہے وہ اردو بازار میں شدت پسندلٹریچر سے بھری دکانوں کا وزٹ کر لے یا پھر ہمیں حکم دے تو ان کتب کی فہرست مرتب کیے دیں گے کیونکہ ایک ترکھاں ترکھانوں کے فہم و مسائل کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے ۔
ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں چند دینی مدارس مذہبی فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم ہیں اور وہاں وطن کے نونہالوں کو جو مذہبی تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی متعلقہ فرقے کی مطابقت میں ہوتی ہے وزارتِ مذہبی امور یا محکمہ اوقاف کے پاس ضرور ایسی معلومات ہونگی کہ اس وقت ملک میں دینی مدارس کی کل تعداد کیا ہے ؟ اور ان میں فرقوں کی تقسیم کس طرح ہے مثال کے طور پر ایک مکتبہ فکر کے دینی مدارس کی صوبہ وائز تعداد کیا ہے ؟ دوسرے ، تیسرے ، چوتھے یا پانچویں مکتبہ فکر کے کتنے کتنے مدارس ہیں اور ان میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس کی تفصیلات کیا ہیں ؟ نیشنل ایکشن پلان نے ان حوالوں سے وفاق اور صوبوں کی کیا ذمہ داریاں مقرر کی ہیں اور وہ ان سے کس حد تک عہدہ برا ہو رہے ہیں ؟ ابھی پچھلے دنوں ہمارے ایک محترم مولانا نے سندھ کے دینی مدارس میں خطاب کرتے ہوئے حکومت سندھ کو اچھا خاصا خبردار کیا تھا کہ وہ کسی بھی اقدام کا سوچنے سے پہلے یہ ضرور پیشِ نظر رکھے کہ پاکستان میں دینی اداروں کی طاقت کس قدر زیادہ ہے اگر سکون سے حکومت کرنی ہے تو علماء کو خوش رکھئے۔ ریاست پاکستان کو اس چیز کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ بعض دینی مدارس میں جو کچھ مذہب کے نام پر پڑھایا جا تا ہے اس کی اسلام اور سماج کیلئے افادیت کیا ہے ؟ نیز قومی و حدت اور یکجہتی کیلئے کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام اہل وطن کیلئے یکساں نصاب تعلیم ہو؟ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ دین محض نماز روزے یا مساجد و مدارس کیلئے نہیں ہے بلکہ دیگر شعبہ ہائے حیات کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتا ہے اگر ہمارے دینی لوگوں کا یہ استدلال درست ہے تو پھر مذہبی و غیر مذہبی تعلیمی نظام اور اس افتراق و انتشار کا جواز کیا ہے؟ جب ہم ایک قوم ہیں تو ہمارا کم ازکم سیکنڈری تعلیم تک نصاب بھی ایک ہونا چاہیے جس نے بعدازاں کسی خاص فیلڈ میں تخصیص کرنی ہے وہ اس کی مطابقت میں کرے کسی نے میڈیکل ، ا نجینئرنگ، لٹریچر یا الہیات کے شعبہ میں جانا ہے مابعد ضرور جائے لیکن پیش بندی کے طور پر دیکھنے والی چیز یہ ہے کہ کسی مخصوص شعبے کی ہماری سوسائٹی میں کتنی کھپت یا ضرورت ہے؟ ماہرین بھی اس فن کے اسی ریشو سے تیار کیے جائیں ۔مثال کے طور پر آبادی اور وسائل کی مناسبت سے ہمیں سالانہ کتنے ڈاکٹر یا انجینئر مطلوب ہیں کتنے ماہرین معاشیات یا مذہبات و الہیات چاہئیں ان کی باقاعدہ ریشو نکالی جانی چاہیے ورنہ نہ صرف سوسائٹی کیلئے بلکہ خود ان طلباء کے لیے بھی طرح طرح کے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان کےکچھ دینی مدارس سے کوئی گیارہ لاکھ کے قریب طلبافرقہ وارانہ بنیادوں پر پڑھائے یا تیا ر کیے جارہے ہیں یوں ہر سال ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی کل تعداد فرقوں کی بنیاد پر کیا بنتی ہے پھر یہ لوگ اپنے اپنے فرقوں کی مساجد سنبھالنے کے علاوہ دیگر کیا ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں جو بچ جاتے ہیں حکومت ان سے کون سے کام کرواسکتی ہے؟کسی بھی پڑھے لکھے باشعور شہری کے ذہن میں ضرور یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب ہم اپنے ملک کیلئے فرقہ پرستی کو ایک لعنت گردانتے ہیں اور صدقِ دل سے یہ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز سے اس برائی کا خاتمہ ہو جائے ہمارا قرآن بھی ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہےکہ سب اللہ کی رسی کو مل کر تھام لو اور فرقہ بازی نہ کرنا تو کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ کم ازکم اس کا کچھ بھرم رکھتے ہوئے ہی ہم اپنی مذہبی فرقہ وارانہ تقسیم سے احتراز کریں کیا دینی تعلیم کے کسی بھی ایسے مرکز کو قائم ہونا چاہیے جس کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ کسی مخصوص فرقے کی بنیاد پر قائم کیا جا رہا ہے کسی غیر مسلم سوسائٹی میں اگر اس کی گنجائش تھی بھی تو قیام پاکستان یا مسلم اکثریتی مملکت بننے کے بعد اس کی گنجائش کہاں تک ہے ؟بہتر ہوگا اس سلسلے میں برادر مسلم ملک ترکی کی سابقہ یا موجودہ صورتحال سے رہنمائی لے لی جائے کیونکہ وہاں موجودہ ترک صدر اردوان کی حکومت کو ہمارے دینی طبقات بڑی عقیدت مندی سے دیکھتے ہیں اور ان کی محبت میں بولتے نہیں تھکتے، ترکی کی موجودہ منتخب حکومت تو گولن کے صوفی ازم پر مبنی ماڈرن و متوازن اسکولوں کو بھی قومی نصاب کی مطابقت میں نہیں دیکھ رہی بلکہ انہیں شدت پسندی اور دہشت گردی پروان چڑھانے والے تعلیمی ادارے قرار دے رہی ہے تو یہ مبارک اصول پاکستان میں لاگو کرنے سے مذہب کو آخر کیا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ؟ پوری دنیا میں اس وقت چھپن مسلم ممالک موجود ہیں کیا کسی ایک مسلم ملک میں بھی فرقہ واریت پر مبنی ریاستی کنٹرول سے آزاد دینی مدارس کی مثال دی جاسکتی ہے؟ آخر پاکستانی ریاست اتنی کمزور کیوں ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنی توجہ اس اہم ترین قومی مسئلہ پر کیوں مرکوز نہیں کرتی ہے تاکہ ریاستی رٹ قائم ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری نئی نسلوں کو فرقہ بازی کی بجائے قومی وحدت میں پرویا جا سکے۔


.
تازہ ترین