• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے ابتدائی برس تھے۔ نئے ملک امریکہ میں سیاست ، معاشرت اور صحافت غرض ہر شعبے میں بنیادیں اٹھائی جا رہی تھیں۔ عشق کی نمود کا زمانہ تھا۔ لسان الغیب حافظ نے کہا تھا کہ عشق کی ابتدائی منزلوں میں ان مشکلات کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہوتا جو بالآخر ہر دردمند کے حصے میں آتی ہیں۔ تعلیم، ولولے اورحوصلے والوں کے لئے بہت سے راستے کھل گئے تھے ۔ کوئی متروکہ املاک کے ذریعے اپنی قسمت بدل رہا تھا تو کسی نے سرکاری عمال تک رسائی میں فلاح ڈھونڈ لی تھی۔ کسی نے نئے ملک میں دین کی تجارت شروع کی تو کسی نے اشتراکیت کی دکان سجالی۔ پطرس بخاری وزیراعظم لیاقت علی خان کے ساتھ امریکہ کے دورے پرگئے اور پھر انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا نمائندہ مقرر کیا گیا۔ ایم ڈی تاثیر پطرس کے ہم عصر تھے اورخدا مرحوم کی روح کو شرمندہ نہ کر ے،شوریدہ طبیعت پائی تھی۔ صاحب علم تھے ۔علامہ اقبال سے ذاتی تعلق رہا تھا۔ حلقہ احباب وسیع تھا۔ تاثیر مرحوم خود کو پطرس سے ایک ماترا اوپرہی سمجھتے تھے۔ تاثیر نے مزدور اور روٹی رزق کی نظمیں تب لکھی تھیں جب ہندوستان میں کسی کو ان مضامین کی خبر ہی نہیں تھی۔ بدلے ہوئے حالات میں اپنی جگہ بنانے کے لئے تاثیر نے ترقی پسندوں کی مخالفت کا فیصلہ کیا۔ معاشرے میں کوئی تحریک یا ابھار پیدا ہوتا ہے تو اس میں قدآور اور سمجھ دار لوگوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں اوسط درجے کے بلکہ کم سواد افراد بھی شریک ہوتے ہیں۔ ترقی پسندوں میں بھی بہت سے بے تہہ اوراکہرے چہرے شامل تھے ۔ جذبات کا وفور تھا اور نعرے کی یورش۔ تاثیر کی افتاد صدرنشینی کی تھی۔ انہیں ہجوم کا حصہ بننا پسند نہیں تھا۔ پاکستان نے سرمایہ دار بلاک کے ساتھ ٹانکا ملایا تو تاثیر کو موقع مل گیا۔ میاں افتخار الدین لاہور کے رئیسوں میں تھے اور کل ہند سطح کی سیاست کے کھلاڑی تھے۔ فیض احمد فیض سے نسبتی تعلق بھی تھا اور دوستی کا رشتہ بھی۔ تاثیر نے اپنی ستیزہ کاری کے لئے چراغ حسن حسرت کا انتخاب کیا۔ حسرت صاحب امروز کے ایڈیٹر تھے۔ ان کے ساتھ نظم اور نثرمیں چاند ماری شروع کردی۔ حسرت صاحب قلم کے مزدور تھے لیکن علم میں کسی سے گھٹ کے نہیں تھے۔انہوں نے بھی نواب نصیر حسین خیال اور ابو الکلام محی الدین آزاد کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ ایک روز آفاق میں تاثیر کی نظم آتی تھی ،دوسرے روز امروز میں حسرت کا جواب شائع ہوتا تھا۔ تاثیر صاحب میاں افتخارالدین کے طبقہ اشرافیہ سے تعلق پرچوٹیں کرتے تھے۔ ترقی پسندوں کے اکل و شرب کی خبر لیتے تھے اور انہوں نے عوام کے لئے فتو لوہار کا استعارہ ایجاد کیا تھا۔ بس اسی ہنگام میں حسرت سے یہ شعر سرزد ہو گیا۔
عجیب بات وہ جنتا کا یار کہتا ہے
کہ شعر وہ ہے جو فتو لوہار کہتا ہے
یہ تو بزرگوں کی باتیں تھیں اور گزرے وقتوں کا قصہ۔ ہم جیسوں کے لئے یہ سب جاننے میں تاریخ کا لطف ہے اور روایت کا شعور ۔ ہمیں بزرگوں پر انگلی اٹھانے کا یارا نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ اس کی ضرورت بھی نہیں۔ یہاں اس باز آفرینی کا موقع یہ رہا کہ عمران خان صاحب نے اعتراض کیا ہے کہ بلاول بھٹو کو اردو نہیں آتی۔ سبحان اللہ۔ اتنے بڑے سیاسی رہنما نے دعویٰ کیا ہے تو اس میں وزن ہو گا۔ جاننے والوں نے مگر سوال کیا ہے کہ عمران خان کو اردو دانی کا دعویٰ کب سے ہوا؟زیادہ نہیں وہ اپنے محبت کرنے والے کالم نگارہارون رشید کا کوئی ایک کالم دو بھلے لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنا دیں۔ ان کی ہمہ دانی بھی مسلم ہو جائے گی اور بلاول بھٹو کے جہاز میں سوراخ بھی ہو جائے گا۔ ہم لوگ ذہنی طور پر دربار کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمیں آج کی دنیا کے رنگ ڈھنگ کی خبرنہیں۔ علم اور تدبر کا کسی خاص زبان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہرانسان اپنی مادری زبان جانتا ہے اور اپنی زبان میں اپنی محبت بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنے دکھ کا اظہار کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ زبانیں اعلیٰ اورکم ترنہیں ہوتیں۔ ہر زبان میں محبت کی لغت بھی موجود ہوتی ہے اور نفرت کا محاورہ بھی پایاجاتا ہے۔ اپنی زبان سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ اس میں محبت کے مضمون کووسعت دی جائے اورتفرقے کی لغت کوٹکسال باہر کیا جائے۔ دیکھئے احمد مشتاق یاد آگئے۔
زبانوں پر الجھتے دوستوں کو کون سمجھائے
محبت کی زباں ممتاز ہے ساری زبانوں میں
ہماری اجتماعی نفسیات ابھی تک جنگ و جدل کی اسیر ہے۔ ہم مساوات کی بجائے اونچ نیچ کی عصبیت میں مبتلا ہیں۔ کبھی ہم عربی جاننے والوں کو علامہ شمارکرتے تھے ۔ پھر ہم نے فارسی کا رشتہ تہذیب سے جوڑا ۔اردو کا چلن ہوا تو ہم نے اس میں بھی اپنے لئے تفوق کا پہلونکال لیا۔ اہل اردو کو اپنے روزمرے اور لہجے پر اس قدر اعتماد تھا کہ علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ ’’حضرت بات کیا ہونا تھی ۔ وہ ہاں جی ہاں جی کہتے رہے، میں جی ہاں جی ہاں کہتا رہا‘‘۔ اہل پنجاب کے دل کی وسعت مگر ایسی ہے کہ پچھلے سو برس میں اقبال ، فیض ، راشد ، منٹو، میرا جی اور مجید امجد… ناموں کی ایک کہکشاں ہے ۔ اردو سے محبت کرکے پنجاب والوں نے اپنے انسانی امکان کو وسعت دی ہے ۔اس سے بابا فرید ، شاہ حسین اوروارث شاہ کی معنویت میں مزید گہرائی اور تازگی آئی ہے۔ انسانیت کا امکان کسی خاص زبان کے تابع نہیں۔ سیاست میں رہنمائی کا درجہ بھی کسی خاص زبان کا محتاج نہیں۔ قائداعظم اردو نہیں جانتے تھے۔ اس سے قائداعظم کی شان میں کیا کسر آئی۔ قائداعظم کے بہت سے مخالفین اردو زبان کے شناور تھے ۔ اردو خطابت پر عبور رکھتے تھے۔ قوم کا بدن جس فراست سے نمو پاتا ہے وہ زورزبان دانی سے پیدا نہیں ہوتا، فہم سے تعلق رکھتا ہے اور سب انسان فہم و فراست میں ایک جیسی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ معاشرے اور ریاست کا فرض یہ ہے کہ اس صلاحیت کو اہلیت میں بدلنے والے ادارے تعمیر کئے جائیں اور اقدار تشکیل دی جائیں۔ بھٹو صاحب سیاست میں آئے تو ان کی اردو لڑکھڑاتی تھی۔ انگریزی خطابت میں البتہ ان کی دھوم تھی۔ ہم مگرزبان کے ایسے دھنی ہیں کہ ضیا ءالحق کی مرتب اردو سے جونیجو صاحب کے سندھی لب و لہجے کا موازنہ کرتے تھے اور پھر اعلان کرتے تھے کہ جنرل صاحب کا شین قاف بہت درست ہے۔
صاحب ہم تو بنگالی ارکان اسمبلی کی تقریروں میں ش اور ج کی آمیزش کر کے ہنسی کا سامان کرتے تھے۔ ہم نے ہنسی ہنسی میں ملک توڑدیا۔ ابھی بھارت کے وزیراعظم مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ہندی زبان میں خطاب کیا ہے۔ خبر ہے کہ امریکہ میں مودی صاحب کی بہت آئو بھگت ہوئی۔ جاننا چاہئے کہ مودی صاحب کی عزت ہندی اور انگریزی میں پٹے کے ہاتھ چلانے سے نہیں ہوئی۔ وہ اپنے ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں اوران کے ملک میں کسی سرکاری اہلکار، صحافی یا مذہبی رہنما کو متوازی سرکار چلانے کی اجازت نہیں۔ مودی صاحب کے احترام کا یہی راز ہے۔ عمران خان صاحب نئے پاکستان کے نقیب ہیں۔ یہ توطے ہے کہ نئے پاکستان میں براہوی، سرائیکی اور ہندکو زبانیں بولنے والوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو انگریزی بولنے میں سہولت محسوس کریں گے۔ کسی خاص زبان میں مہارت پاکستان کا شہری ہونے کی شرط تونہیں۔ زبان تو ایک طرف رہی، پاکستان کا شہری ہونے کے لئے غالباً کسی ایک سیاسی بیانیے کاحامی ہونا بھی ضروری نہیں۔ پاکستان کی توانائی اس میں ہے کہ ہم پاکستان میں عقیدے، زبان، رہن سہن اور سیاسی خیالات کے اختلاف کو احترام دیں۔
تازہ ترین