• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیر آپ کی مرضی ہے، مے خانوں میں وقت گزاریں یا شاہی محلے میں جا کر ’’گھنی زلفوں کے سانولے اندھیرے سے اپنی دنیا روشن کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیں‘‘ ۔ مگر ان مے خانوں میں اتنے نہ ڈوب جائیں کہ تاریخ کو مسخ کریں، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کریں۔ جرأت رندانہ اپنی جگہ، مگر تاریخ کو اپنی دست برد سے محفوظ رکھیں۔ اور یہ کوئی بہت دور کی تاریخ نہیں کہ عباسی دور کو، کسی مغربی مصنف کی آنکھ سے دیکھ کر ،اسے پہلے سنہرا دور کہا جائے اور پھر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس پر بات ہو سکتی ہے کہ کیا واقعی وہ سنہرا دور تھا؟ مگر اس سے پہلے ذرا یہ دیکھیں کہ قراردادِ مقاصد کب منظور ہوئی، اور اس کے کیا اثرات ہوئے؟ اور یہ کہ آپ کے’’ محبوب مقامات‘‘ کب بند ہوئے؟ اور کس نے بند کئے؟ آپ ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں، دنیا کی کتابوں کے حوالے دیتے ہیں، ذرا پاکستان کے آئین پر ہی ایک نظر ڈال لیں، اس ملک کی تاریخ ہی پڑھ لیں جس میں آپ وہ دور واپس لانا چاہتے ہیں کہ’’ جہاں آپ بے دھڑک کچھ بھی خرید سکیں‘‘، مئے آب گوں، یابقول فیض، کوچہء و بازار میں بکتے ہوئے جسم۔
قراردا دِ مقاصد ، تاریخ یہ بتاتی ہے، 7 مارچ 1949 کو وزیرِاعظم ،لیاقت علی خان نے پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں پیش کی اور ارکان نے 12 مارچ کو اسے منظور کرلیا۔ اس قرارداد کے منظور ہونے سے آپ کے دلپسند مقامات پرکوئی اثر نہیں پڑا۔ (اثر تو کسی معاملے پر نہیں پڑا، آئین ہی نہیں بن سکا 1956 تک، اور جب بنا تو بمشکل دو سال ہی اسے چلنے دیا گیا) ۔ قراردادِ مقاصد 1973کے آئین میں دیباچے کے طور پر شامل کی گئی۔ مگر اس وقت بھی کچھ بَند وَند نہیں ہوا۔ وہ سارے ’’سرائے، بار اور سیلون‘‘ کھلے رہے جو قیامِ پاکستان کے وقت کھلے ہوئے تھے۔ اور جن میں آپ جیسے لوگ ثقافت وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ قراردادِمقاصد کے بعد یہ بھی نہیں ہوا جس کا آپ الزام لگا رہے ہیں کہ’’ بعض مولوی اور مفتی حضرات کی عید ہو گئی اور انہیں مخالفوں کے خلاف جھوٹے فتوے دینے کا موقع مل گیا۔‘‘ قراردادِ مقاصد تیار کرنے والوں میں ہر مکتبۂ فکر کے علماء شامل تھے۔ اور اس وقت ابھی آج کی طرح کے فتوے بازی کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔ ویسے آپ جانتے ہی ہوںگے کہ فتوے بازی پاکستان بننے یا قرارداد مقاصد کے بعد شروع نہیں ہوئی، مسلمانوں کی فتوے بازی بھی بہت پرانی ہے، قرارداد مقاصد سے صدیوں پہلے کی۔ اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے جو صرف مسلمانوں تک ہی محدود ہو۔فتوے عیسائی بھی دیتے تھے، ایک دوسرے فرقے کے خلاف۔
پاکستان میں آب ِحرام اور دیگر فضولیات پر پابندی، حیران نہ ہوں، ذوالفقار علی بھٹو نے قرار داد مقاصد منظور ہونے کے 28برس بعد1977میں عائد کی تھی جب ابھی ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں کچھ وقت باقی تھا۔ بھٹو کی لگائی گئی اس پابندی کے بعد شراب خانے بند کئے گئے تھے، نائٹ کلبوں میں ’’مشرق و مغرب کی حسینائوں ‘‘ کے رقص بھی ممنوع قرار د ئیے گئے۔ شراب کی محدود فروخت کی اجازت ، صرف غیر مسلموں کے لئے، بعد میں دی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے زیادہ فائدہ ان مسلمانوں نے اٹھایا اور اٹھا رہے ہیں جو اس شیطانی کام سے حظ اٹھاتے ہیں، لبرل ازم کے نام پر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اصول و ضوابط پر عمل کے خطبے دیتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ انہیں اس میں کوئی تضاد، کوئی دو عملی، کوئی منافقت نظر نہیں آتی۔
منافقت نظر آتی ہے تو ’’خوشی اور لطف ‘‘ کے تعلق سے۔ (پتہ نہیں اس بات کا کیا مطلب ہے)۔ آپ کو ’’کچھ اچھا وقت گزارنے کے لئے بہت زیادہ رقم خرچ‘‘ ہونے پر پریشانی ہے۔ تعلیم اور صحت کا حوالہ آپ نے بس سرسری سا دیا۔ آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ عام آدمی کے لئے یہ دونوں بنیادی ضرورتیں کتنی مہنگی ہیں؟ آپ کو شاید اس سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ آپ کا مسئلہ تو ’لطف اُٹھانے کا حق ہے‘ اور یہ آپ سے کس نے کہا کہ اسلام کا سنہرا دور عباسی دور تھا؟ اس دور کی اہم بات جو آپ نے بیان کی، اسے آپ خود ’’سنہرا‘‘ نہیں سمجھتے۔ جن کتابوں کا آپ نے حوالہ دیا، ان کے بارے میں آپ کا اپنا خیال یہ ہے کہ’’ کالم ان کے بعض حوالوں کامتحمل نہیں ہو سکتا‘‘۔ ظاہر ہے وہ نا گفتہ بہ ہوں گے۔ کنیزوں کا ــ’’مصرف‘‘ تو آپ نے اس لفظ کو واوین میں ڈال کر واضح کر دیا۔ جس دور کی بات آپ زبان پر نہیں لا سکتے اسے سنہرا کیسے کہہ سکتے ہیں؟
کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔
اگر آپ ذرا گہرائی سے اُس دور کا مطالعہ کریں تو آپ کو بھی معلوم ہو جائے گا، دوسرے تو جانتے ہی ہیں، کہ اُس دور میں امام ابو حنیفہ ، امام حنبل اور دوسرے اکابرین امّت کو کن مصائب کا شکار ہو نا پڑا۔
منافقت یہ ہے کہ ایک طرف تو قانون کی بالادستی کی بات کی جائے، دوسری طرف ان چیزوں کا مطالبہ کیا جائے جن پر قانون اور اسلام نے پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اموی یا عباسی ادوار مسلمانوں کے لئے کبھی قابل ِ تقلید نہیں رہے۔ مسلمانوں کی اکثریت، ہمیشہ سے، خلفائے راشدین کے زمانے ہی کو قابل ِ تقلید اور سنہرا دور سمجھتی اور کہتی ہے۔ اس وقت بیت المال عوام کا تھا، عدل تھا، خلیفہ تک عام آدمی کو جوابدہ تھا اور مملکت ایک فلاحی مملکت تھی۔ مسلم امہ کا بگاڑ شروع ہی اس وقت ہوا جب خلافتِ راشدہ ختم ہو گئی اور ملوکیت نے راہ پائی۔ بیت المال عوام کا نہیں رہا، خلیفہ عوام کو جوابدہ نہیں رہا اور وہ سب کچھ شروع ہو گیا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ختم کردیا تھا۔ ا موی اور عباسی ادوار ملوکیت کے ادوار ہیں، اسی لئے آپ کو وہاں ’’درباروں میں جواں سال اورخو برو کنیزوں کی حیران کن تعداد‘‘ نظر آتی ہے۔
یہ بات آپ کی ٹھیک ہے کہ کوئی مسلم حکومت آج ایسا سوچ بھی نہیں سکتی کہ دربار میں مشروبِ خاص ہو اور کنیزیں رقص کریں۔ جو حکمران اس طرح کے شغل اپناتے ہیں انہیں بھی عوام کے سامنے کھڑے ہو کر کوئی نہ کوئی وضاحت کرنی پڑتی ہے کہ ’’میں شراب پیتا ہوں، قوم کا خون نہیں پیتا‘‘۔ اس معذرت خواہانہ وضاحت میں کتنا وزن ہے، آپ بھی جانتے اور اس ملک کے عوام بھی، اور کرنے والا بھی اچھی طرح جانتا تھا۔رہی شاہی محلے کی بات، تو اتنا تو آپ جانتے ہی ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ جسم فروشی کو اچھا نہیں سمجھتا۔ عورت کی اس سے زیادہ تذلیل نہیں ہوسکتی کہ اسے چند ٹکوں کے عوض اپنا جسم بیچنے پر مجبور کیا جائے۔ دوسری طرف عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ منافقت کیا کسی اور رویہ کا نام ہے؟ شورش کاشمیری کو تو آپ مسترد کردیں گے، ورنہ ان کی کتاب’’اس بازار میں‘‘ پڑھ لیں۔ آپ کی خاطر فیض احمد فیض کی مقبول نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ کے دوسرے حصہ کاحوالہ نا مناسب نہ ہوگا۔ جہاں وہ ’’خاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلا ئے ہوئے‘‘ اجسام کی وجہ سے اپنے محبوب سے معذرت کرتے ہیں ۔ اور ساحر لدھیانوی ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کو پکارتے ہیں۔
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی،یشودھا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی،پیمبر کی امّت، زلیخا کی بیٹی۔
یہ ترقی پسند لوگ تھے، شاہی محلے میں ہونے والی باتوں پر ان کا رویہ کیا تھا، اور آج کے لبرل(؟) کیا سوچتے ہیں۔ غیرت تھا جس کا نام گئی تیمور کے گھر سے۔ یہ کیا بات اور منطق ہے کہ ’’ہر وہ کام کیا جائے جس سے طالبان بدکتے ہوں‘‘۔ جنابِ عالی، کسی کے بھی صرف برے کام کی مخالفت کرنا ایک معقول رویہ ہو سکتا ہے۔ ہر کام کی مخالفت کرنا نہیں۔ طالبان کپڑے پہنتے ہیں،داڑھی رکھتے ہیں تو کیا کریں۔ آپ کے مشورہ پر عمل کریں، یا کپڑے پہنا کریں۔
تازہ ترین