• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقریباً ستر دن اور ستر راتیں گزارنے کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا تمام ہو گیا۔ سیاست اور حالات ِ حاضرہ کے کسی طالب علم کو تمام تفصیلات پر محیط ایک جامع رپورٹ ضرور مرتب کرنی چاہئے کہ قادری صاحب کے دھرنے کا حقیقی ہدف کیا تھا؟ بظاہر اُن کے وعدے کے مطابق وہ حکومت کا تختہ اُلٹنے،کڑا احتساب کرنے، ایک دیانتدارعبوری سیٹ اپ قائم کرنے ، نظام میں بنیادی اصلاحات کرنے اور آئین پاکستان کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا ایجنڈا لے کر آئے تھے۔ دو ڈھائی سال پہلے بھی وہ کینیڈا سے تشریف لائے تھے اور عام انتخابات سے پہلے ایک ایسی فضا قائم کرنے کی کوشش کی تھی کہ انتخابات ملتوی ہوجائیں اوران کے ایجنڈے کواولیت دی جائے۔اُس وقت انہوں نے ’’سیاست نہیں ریاست‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ شدید سردی کے باوجود انہوں نے اسلام آباد میں شاندار دھرنا دیا تھا اور ہر روز حکومت،پارلیمنٹ، صدراور وزیراعظم کو الٹی میٹم دیا کرتے تھے۔ نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا اور بالآخر اُنہیں انہی وزراء اور سرکاری حکام کے ساتھ ایک فیس سیونگ قسم کا معاہدہ کرنا پڑا جنہیں وہ عہدوں سے ہٹا کر سابق قراردے چکے تھے۔ عملاً اُن کا وہ دھرنا بھی نتیجہ خیز نہیں رہا تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ مایوس ہو کر کینیڈا واپس چلے گئے۔ انتخابات اپنے وقت پر ہوئے وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتیں وجود میں آئیں۔ بظاہر یوں لگا کہ ہموار جمہوری عمل شروع ہو گیا اور زرداری صاحب کی طرح یہ حکومت بھی اپنی معیاد پوری کرے گی۔
ابھی حکومت کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پھر متحرک ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ ان خبروں کے مطابق طاہر القادری حکومت کا تختہ اُلٹنے ، احتساب کرنے، ایک نگران حکومت بنانے اور اصلاحات کے پُرانے ایجنڈے کے ساتھ پاکستان آنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اس منصوبے کے تحت انہوں نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے ،ایک طویل دھرنا دینے اور حکومت کا تختہ اُلٹنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ پاکستان سے اُنہیں مسلم لیگ (ق) نے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ مئی2014 میں چوہدری برادران لندن گئے اور اس پروگرام کی نوک پلک درست کرنے کیلئے طاہر القادری صاحب سے ملاقاتیں کیں۔ عین اُنہی دنوں عمران خان بھی لندن پہنچے اور جون کے پہلے ہفتے میں انہوں نے بھی طاہر القادری سے ملاقات کی۔ شروع شروع میں دونوں نے اس ملاقات کی تصدیق نہ کی لیکن ابھی دو تین ہفتے قبل خود قادری صاحب کے ایک انٹرویو اور جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد عمران خان نے بھی تسلیم کرلیا کہ لندن میں وہ طاہر القادری سے ملے تھا اور لانگ مارچ کی تفصیلات طے ہوئی تھیں۔تجزیہ کاروں نے اسے ’’لندن پلان‘‘ کا نام دیا۔ بظاہر تحریک انصاف اورعوامی تحریک میں کوئی چیز بھی مشترک نہ تھی۔ دونوں کا پروگرام اور ایجنڈا مختلف تھا۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما کھلے عام بیانات دے رہے تھے کہ اُن کی جماعت کسی طرح بھی عوامی تحریک کے احتجاجی پروگرام کا حصہ نہیں بنے گی۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ 14اگست کو دونوں جماعتوں نے ایک ہی ساتھ لانگ مارچ شروع کیا۔ دونوں ایک ہی جگہ لنگر انداز ہوئے۔ دونوں نے ایک ہی دن ریڈ زون کی طرف مارچ کیا۔ دونوں نے ایک ہی دن پارلیمنٹ ہائوس، وزیراعظم ہائوس اور پی ٹی وی پر ہلّہ بولا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے پہلو میں کنٹینر لگائے۔ پھر دونوں ایک ہی کنٹینر پر بھی نظرآئے اور طاہر القادری نے کہا کہ ہم آپس میں ’’کزن‘‘ ہیں۔
ستر دن پہ پھیلے دھرنوں کی کہانی خاصی طویل ہے۔ ان دھرنوں پہ نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اُن تمام دنوں میں قادری صاحب کے دھرنوں کی تعداد بڑی حد تک معقول رہی۔ ان کے کارکن ڈٹ کر اپنے اپنے مورچوں میں بیٹھے رہے۔ بین الاقوامی اورمقامی پریس کے مطابق کئی شرکاء باقاعدہ ’’اُجرت‘‘ پر بھی لائے گئے ۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اگرحکومت کسی دبائو میں رہی تو اس کا سبب عوامی تحریک کے کارکن اور علامہ صاحب کی ولولہ انگیزتقریریں تھیں۔ دوسری طرف عمران خان کے دھرنے رات کے پہلے پہر کے ہلے گلے تک محدود رہے۔ رات کو کوئی دھرنے میں موجود نہیں ہوتا تھا۔ خود خان صاحب بنی گالہ تشریف لے جاتے تھے۔ علامہ صاحب کے کارکنوں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں اُن کے کارکن شہید ہوئے۔ دھرنوں کی رونق اور دہشت اُن کے کارکنوں کی وجہ سے ہے اور پھل تحریک انصاف سمیٹنے لگی ہے جس نے دھرنے سے منہ موڑ کر جلسوں کا رُخ کرلیا تھا۔
طاہرالقادری کے دھرنے کا اختتام اچھی خبرہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے یہ ہدایت جاری کرکے مثبت پیغام دیا ہے کہ اس دھرنے کے حوالے سے کوئی منفی بیانات نہ دیئے جائیں۔ لیکن حکومت کو یہ تجزیہ ضرور کرنا چاہئے کہ اُسکی کون سی کوتاہیاں اس احتجاج کا سبب بنیں؟ سانحہ ماڈل ٹائون کیوں ہوا؟ حکو مت نے ستر دن تک قوم کوبے یقینی کی کیفیت میں کیوں مبتلا رکھا؟ اور اُسے اپنی اصلاح اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیا فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ لیکن یہ بات اب واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کھیل تماشوں سے آگے نکل آیا ہے۔ پاک فوج نے اس مرحلے پر جمہوریت کا ساتھ دے کر واضح پیغام دیا کہ وہ پاکستان کے جمہوری نظام کو پٹری سے نہیں اُتارنا چاہتی۔ نہایت افسوسناک امر ہے کہ میڈیا کے ایک حصے نے ساری اقدار کو پامال کرتے ہوئے ان دھرنوں کی بنیاد پر قومی مفادات کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ نہ ملک کے بد خواہوں کی امید پوری ہوئی اور نہ ہی جمہوریت پٹری سے اُتری۔سب سے اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ طاہرالقادری صاحب نے اپنی جماعت کو پھرسے سیاسی رنگ دیدیاہے۔ انہوں نے اپنا پیغام عوام تک پہنچانے اور الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ عمران خان کی طرح انہوں نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ انتخابات میں جائیں گے اور عوام کو قائل کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ گویا اب وہ شاہراہ دستور سے اُٹھ کر ’’دستور‘‘ کے طے شدہ راستے پرچل پڑے ہیں۔ اُن کے اس اقدام کو خوش آمدید کہنا چاہئے لیکن یہ سبق بھی خان صاحب سمیت سب کو اپنے پلّے باندھ لینا چاہئے کہ دھرنے اور ہنگامے کسی مسئلے کاحل نہیں اور بے موسمی جلسوں سے بھی کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ پارلیمنٹ ہی عوام کی حکمرانی کی علامت ہے۔ لہٰذا فیصلے سڑکوں، دھرنوں،جلسوں اور جلوسوں میں نہیں،پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں۔
تازہ ترین