• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو 2004ء میں شہلا ضیاء جیسی وکیل نے غیرت کے نام پر قتل کے بارے میں قانون میں تبدیلی پیش کی تھی۔ مراد یہ تھی کہ قتل کے حوالے سے دفعہ 302 قانون موجود ہے۔ اس میں تبدیلی کرکے ایک باقاعدہ قانون بنایا جائے جس میں غیرت کے نام پر قتل کرتے ہوئے ولی اپنا کام دکھاتا ہے اور دیت اور قصاص کے حوالے سے بھائی، بہنوئی، باپ، چچا و دیگر رشتہ دار، قتل امد کے تحت، خون معاف کردیتے ہیں اور قاتل آزاد ہوجاتا ہے۔ سلمان راجہ جیسے سینئر وکیل سوال یہ اٹھاتے ہیں کہ لفظ قتل میں جب آپ غیرت کا اشارہ شامل کرتے ہیں تو وکیل اور منصف سوال اٹھاتے ہیں کہ اسے غیرت کے نام پر کیوں کہا جارہا ہے، جبکہ قتل تو قتل ہوتا ہے۔ یہ جو روز لڑکیاں دن دہاڑے قتل کی جاتی ہیں۔ ان کو بدکردار ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ایسے مقدمات اور الزامات کے سلسلے میں ایسا قانون ہوکہ قاتل کو معافی نہ ملے۔ اس کی ضمانت بھی نہ ہو اور بدل کے طور پر رقم وصول کرنے کا سلسلہ جیسا شاہ زیب کیس یا ریمنڈ ڈیوس کیس میں ہوا تھا۔ وکیلوں اور عام لوگوں کی جانب سے اس طرح کی دیت وصول کرنے پر شور بھی بہت مچا تھا۔ مگر ایک دفعہ شور مچا، بات آئی گئی ہوگئی۔ قتل کے بدلے ایسی سودے بازی کرنے پہ ریمنڈ ڈیوس کیس کے لوگوں کو تو شرم کے مارے شہر چھوڑنا پڑا تھا اور یہی لعن طعن شاہ زیب کیس میں سنائی دی تھی۔
جو لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہیں یا کرلیتی ہیں خاندان والوں کے لئے یہ غیرت کا سوال ہوجاتا ہے۔ کئی لڑکیوں کے یہاں تو بچے بھی ہوگئے اور وہ یہ سوچ کر خاندان میں واپس آئیں کہ اب تو ماں باپ نے معاف کردیا ہوگا۔ ہم نتیجہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان دونوں میاں بیوی کو مع بچے کے مار دیا جاتا ہے۔ یہ قبائلی طریقہ صرف دیہاتوں میں نہیں بلکہ شہروں میں بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ ضلع جعفر آباد میں سات لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ صوبہ سندھ میں اسمبلی نے قانون پاس کردیا ہے کہ لڑکی کی شادی کی عمر اٹھارہ سال ہونی چاہئے۔ اس کے باوجود سات سالہ بچیوں اور گیارہ سالہ لڑکوں کی شادی خود والدین کررہے تھے کہ علاقے کے لوگوں نے پولیس کو اطلاع کردی اور یوں یہ شادیاں رک گئیں۔غیرت کے نام پر قتل کی ایف۔آئی۔آر درج کرانے کے لئے جب رشتہ دار تھانے پہنچتے ہیں تو عجب مضحکہ خیز مسکراہٹ کے ساتھ پولیس کہتی ہے ’’کچھ تو غلط ہوا ہوگا‘‘۔ اس طریقے کو اور اس ذہنیت کو ختم کرنے کے لئے، بہت سے ادارے کام کررہے ہیں۔ مثلاً روزن، سچ پنجاب میں اور سندھ میں ان کے علاوہ، مگر مسائل کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جاگیرداری ذہنیت شہروں میں بھی ہے، عورت کو جاگیر سمجھ لیا جاتا ہے۔ ابھی تو ہمارے دوسرے صوبوں میں لڑکی کی شادی کی عمر وہی سولہ سال ہے مگر سندھ میں بھی بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ آئے دن نابالغوں کی شادیوں کے قصے سنے جاسکتے ہیں۔غیرت کے نام پر قتل کی سزا، دس سال مقرر ہے۔ ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا کہ ملزم کو باقاعدہ سزا دی گئی ہو۔ دیت کے نام پر ملزم کو معافی کا سلسلہ اسلامی شریعت کونسل بھی قبول کرتی ہے اور معاشرہ ایسی عورت کے قتل پر کہتا ہے ’’خس کم جہاں پاک‘‘ مگر یہ فیصلہ بھی تعزیر میں ہوتا ہے۔ا قلیتوں کا الزام ہےکہ ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے، زبردستی مذہب تبدیل کرکے، دوسرے مذہب کےلڑکوں سے شادی کردی جاتی ہے۔ اس میں اگر لڑکی کی اپنی مرضی شامل ہوتو کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔ احوال اس کے متضاد صورت حال بتاتے ہیں۔ اسی طرح کے۔پی میں سکھوں کا قتل، ان کے قبیلے کو ہجرت کرنے پہ مجبور کررہا ہے۔ یہ ہمارے ملک کے نفسیاتی مسائل ہیں۔ pluralistes سوسائٹی میں ایسے اقدامات نہیں ہوتے ہیں مگر ہوتے بھی ہیں جیسا کہ ہندوستان کے ضلع گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کے قصے عام ہیں۔ حیدرآباد دکن میں بھی ایسے واقعات عام طور پر ہوتے رہتے ہیں۔ دراصل برصغیر کی نفسیات میں انگریزوں نے نفرت کی جڑیں ایسی مضبوط کیں ان کا حوالہ علی اکبر ناطق کے تازہ ناول نولکھی کوٹھی میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح نفسیاتی الجھنوں کو مرزا اطہر بیگ نے اپنے ناول ’’حسن کی صورت حال‘‘ میں بڑی صناعی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ بالکل مختلف لہجہ صباحت مشتاق کے افسانوں کا ہے کہیں وہ تسنیم سلیم چھتاری کے انداز میں لکھتی ہیں۔ کہیں ان کو پڑھتے ہوئے خلیل احمد یاد آتے ہیں اور کہیں ان کی اپنی آواز انفرادیت لئے ہوئے سامنے آجاتی ہے۔اب جبکہ عید کی چھٹیوں میں سیالکوٹ سیکٹر میں بھارت کی طرف سے ہر روز ایسے حملے ہوئے کہ دو چار لوگ مارے گئے۔ مجھے یہاں کشمیر کی شہزادی پروفیسر ڈاکٹر شبنم عشائی کی شاعری ’’من میں جمی برف‘‘ کی بہت سی نظمیں یاد آتی گئیں۔میں اپنے جسم پہ ٹیلکم نہیں/ اپنے وجود پہ نمک چھڑکنا چاہتی ہوںــ/ صدیوں سے جمی ہوئی برف کاٹنا چاہتی ہوں/ کیا تم رشتوں کا الائو دہکاسکتے ہو/ میں اپنی آنکھوں کو آنسوئوں سے طلاق دلانا چاہتی ہوں جو صدیوں سے آنسو کاشت کررہی ہیں/ کیا تم میری آنکھوں کو خواب دے سکتے ہو/ زمانے کے بکھیڑوں میں نہیں، من کی دنیا میں گھر بنانا چاہتی ہوں/ بس اب میں دل کی بات سننا چاہتی ہوں/ کیا تم میرے من میں بول سکتے ہو‘‘۔دوسری نظم میں کہتی ہے ’’میرے من میں اتنے آنسو کہاں سے لاتا ہے کہ میرا خدا بھی بہہ جاتا ہے‘‘۔
شاعری کی دوسری کتاب جس نے مجھے پکڑا وہ اشفاق سلیم مرزا کی ’’ممنوعہ نظمیں‘‘ ہیں ریفرنڈم پہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہجوم دوستاں بھی تھا، میں بھی تھا/ لب چپ تھے، چشم حیران میں، پھیلی ہوئی سیاہ رات میں/ لپٹے ہوئے دریدہ بدن دھندلا رہے تھے/ کپکپا رہے تھے مگر صدا کوئی نہیں تھی‘‘۔
تازہ ترین