• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیو اسٹرٹیجک تبدیلیوں کی دنیا اور ہمارا جامد رویہ

وزیر ِاعظم نواز شریف نے ارکان ِ پارلیمنٹ کے ایک گروپ کو مغربی دارالحکومتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم وجبر اور انسانی حقوق کی پامالی کو عالمی طاقتوں کے علم میں لاسکیں۔ اس پیش رفت کی فوری ضرورت کیوں پیش آئی؟ حالیہ مہینوں میں پاک بھارت تعلقات اتنی نچلی سطح پر کیوں چلے گئے ہیں؟کیا خطے میں کسی تزویراتی تبدیلی کے آثار ہویدا ہیں کہ پاکستان کو اپنے حق میں رد ِعمل ملنے کی توقع ہے ؟
2014 ء میںنریندرمودی کے وزیر ِاعظم بننے اور اجیت دوول کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بننے کے بعد نوازشریف صاحب کو اپنی بھارت دوستی کی خواہش واپس لینا پڑی۔ اپنی حلف ِوفاداری کی تقریب میں شرکت کے لئے آنے والے مسٹر شریف کا ہاتھ تھامنے اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اپنے پیش رو، اٹل بہاری واجپائی کا ایک عشرہ قبل شروع کردہ دوستی اور کشمیر کے کسی ممکنہ حل کا عمل آگے بڑھانے کی بجائے مسٹر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں جبرو تشدد اور پاکستان کے خلاف ’’جارحانہ دفاع‘‘ کی پالیسی اپنالی ۔ چنانچہ کشمیر میں نہتے اور بڑی حد تک پرامن احتجاجی مظاہرین کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال بھی دیکھنے میں آرہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے مختلف علاقوں میں پراکسی دستوں کو متحرک کردیا گیاہے ۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی صورت ِحال کو من پسند طریقے سے اجاگر کرکے پاکستان کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے مظالم کو آشکار کرنے کا حساب برابر کیا جارہا ہے ۔ حالیہ دنوں میں بھارت نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی بھارت کے حصے قرار دینا شروع کردیا ہے۔ یہ تمام ایشوز ’’پاکستان پر دہشت گردی‘‘ کے الزام سے پیوستہ ہیں۔ بھارت کا الزام ہے کہ ممبئی کا ڈان دائود ابراہیم پاکستان کی پناہ میں ہے (اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر وہ گزشتہ پچیس برس سے غیر فعال ہے)، نیز پاکستان ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور لشکر ِ طیبہ یا جیش ِ محمد پر کریک ڈائون کرنے کے لئے تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے ان تمام گروہوں ، جو ماضی میں ہمسایہ ممالک میںعسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے تھے ، پر قدغن لگارکھی ہے ، اور ان میں سے کوئی بھی کھل کر کام کرنے کی پوزیشن میں نہیںہے ۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ کچھ عسکری گروہ ریاست ِ پاکستان کے کنٹرول سے باہر ہیں، اور پاکستانی فورسز اُن کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان نے بھارت کو ایسے کچھ مشتبہ افراد کے بارے میں اطلاع بھی دی تھی جو بھارت میں مشکوک مقاصد کے لئے داخل ہوئے تھے۔
تاہم ان کاوشوں کے جواب میں بھارت کے منفی رویے کی وجہ سے اب مسٹر شریف نے کشمیر کے ایشو کو عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو عالمی ضمیرکے سامنے رکھ سکیں۔ اس مقصد کے لئے پاکستانی پارلیمانی وفداس ستمبر میں یواین سیکورٹی کونسل کے ہونے والے اجلاس سے پہلے مغربی دارالحکومتوں کی طرف روانہ ہونے والا ہے ۔ انڈیا کی جارحانہ دفاعی پالیسی کا رخ مشرق میں چین اورمغرب میں پاکستان، افغانستان ، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرف ہے ۔ اس کا دارومدار امریکہ کے ساتھ حالیہ دنوں شروع ہونے والے دفاعی اور معاشی تعاون پرہے ۔ انڈیا خود کو جنوبی ایشیا میں چین کے مد ِ مقابل کھڑا کرکے اس کے وسیع تر ایشیاکے عزائم کا راستہ روکنا چاہتا ہے ۔اس مقصد کے حصول کے لئےانڈیا اور امریکہ نے غیر معمولی ایٹمی معاہدہ کیا ہے جس کے تحت امریکہ بھارت کی فوجی تنصیبات استعمال کرسکے گا ، اور انڈیا امریکہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی، جیسا کہ جیٹ طیاروں کے انجن بنانے کی مہارت، حاصل کرے گا۔ چین مخالف پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے امریکہ بھارت میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کرے گا۔
اس صورت ِحال میں پاکستان اور چین کے لئے سب سے خطرناک ایشو بھارت کا پاک چین معاشی راہداری کو نقصان پہنچانے کا عزم ہے ۔ یہ معاشی راہداری، سی پیک، پاکستان کی معاشی اور تزویراتی طاقت کے لئے بہت ضروری ہے ۔ اس کے ذریعے وہ چین، مشرق ِوسطیٰ اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرسکے گا۔ یہ سفر پاکستان کی بندرگاہ گوادر سے شروع ہوگا۔ یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اور بھارت بھی افغان ریاست میں یہی مفاد رکھتے ہیں۔ وہ اسے بھارت نواز ملک کی صورت ڈھالناچاہتے ہیں، تاکہ چین کو محدود اور پاکستان کو کمزور کیا جاسکے ۔ درحقیقت جان کیری کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران امریکہ بھارت تزویراتی اور معاشی مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے پر بات چیت ہوئی ۔
بدقسمتی سے جس دوران چین اس نیو گریٹ گیم اور اس کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھ رہا ہے ، پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ داخلی سیاسی انتشار کاشکار ہے ۔ یہ ان خوفناک چیلنجز کا مقابلہ کرنے کےلئے مناسب جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ سب سے پہلے تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اپنے پنجے آزما رہی ہیں۔ وہ ملکی مفاد میں ایک میز پر بیٹھنے اور کوئی فارمولہ طے کرنے کے قابل نہیں۔ اس کے بعد وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کے درمیان تعلقات میں غیر یقینی پن کا تاثر موجود ہے ۔ بدترین بات یہ ہے کہ صوبوں کے درمیان سی پیک پر محاذآرائی شروع ہوچکی ہے ۔ چنانچہ چین سی پیک جیسے تاریخی منصوبے کو پاکستان کے سیاسی انتشار کی بھینٹ چڑھتے دیکھ کر بہت پریشان ہے ۔
خطے میں عظیم تزویراتی تبدیلیاں نمودار ہورہی ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کی زیادہ سے زیادہ کارکردگی یہ ہے کہ کچھ نااہل اور کج فہم سیاست دانوں کو عالمی دارالحکومتوں کی طرف روانہ کردیا جائے تاکہ عالمی رہنمائوں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں بتاسکیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مسٹر شریف اور جنرل شریف اپنے اختلافات (اگر کوئی ہیں) ایک طرف جھٹک کر قومی مفاد کو پیش ِ نظر رکھیں ۔

.
تازہ ترین