• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر سُو اُمڈتے خطرات میں گھرے سپہ سالار راحیل شریف کی دھاڑ نے جتا دیا کہ ہم یوں دبک کے بیٹھنے والے نہیں۔ اور دہشت گردی سے جنگ ہم کرتے رہیں گے اور سلامتی کے لئے اس جنگ کی کوئی حد نہیں۔ لیکن ہمارے مشیرِ خارجہ ہیں کہ منہ میں گھنگنیاں گھمائے جاتے ہیں اور معلوم نہیں پڑتا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے دلّی میں دہشت گردی کے خلاف بھارتی دُہائیوں کی تائید تو کی، لیکن دو استثنائوں کے ساتھ کہ بھارتی جمہوریہ جمہوری حقوق کی پاسداری کرے اور یہ کہ پاکستان نے پچھلے مہینوں میں دہشت گردوں کے خلاف کافی اقدام کئے ہیں۔ اس اُمید پر کہ اس نیک کام میں مزید برکت ڈالی جائے گی، اُنہوں نے پاکستان کے کردار کو سراہا بھی۔ اس پر بھلا جان کیری پر دہرے بیان کی پھبتی کے کیا معنی؟ جانے ہمارے مشیرِ خارجہ کیسے سرد جنگ کے زمانے کی صف بندیوں کی بحالی کی خوش گمانیوں میں گُم ہیں۔ حضرت! آنکھیں کھولیئے ہر طرف سے پاکستان کی ناکہ بندی کی جا رہی ہے اور آپ چلے ہیں چین کی قیادت میں نیا عالمی اتحاد بنانے جبکہ چین کا ابھی اگلی تین دہائیوں تک ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ اسے کہتے ہیں مان نہ مان، میں تیرا مہمان!
نظر تو خطے میں نئی صف بندی پر ہونی چاہئے۔ امریکہ، بھارت اور افغانستان پینگیں بڑھائیں اور آپ بیجنگ اور ماسکو کی سیر کرائیں۔ کیا بُرا مذاق ہے۔ پاکستان گزشتہ پندرہ برس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی محاذ کا حصہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔ اتنا کچھ کر کرا کر بھی آپ کو رستے میں تنہا چھوڑ دیا جائے تو ایسی نااہلی پہ ایک پھسپھسا قہقہہ گلے میں پھنس کے رہ جاتا ہے۔ جو چہار قومی اتحاد امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان کے مابین بنا تھا وہ تو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام ہو کر قصۂ پارینہ ہوا۔ اور سامنے آیا سہ فریقی اتحاد جس میں امریکہ اور افغانستان کے ساتھ بھارت تو ہے پاکستان نہیں۔ یہ تو وہی ہوا کہ دُکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے میاں انڈے اُڑائیں۔ اب پھر میر تقی میر کی سادگی پہ گزارا کرتے ہوئے اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی ضرورت ہے جس کے سبب ہم بیمار پڑے تھے۔ امریکہ افغانستان کو دہشت گردوں کے حوالے کر کے جانے والا نہیں اور افغان طالبان کے کابل پہ براجمان ہونے کا کوئی امکان ہے، اُن کی کابل کی تخت نشینی سے ہماری پاکستانی طالبان سے خلاصی تو ہونے سے رہی، البتہ افغانستان میں طالبان کی فتح پاکستانی طالبان کو شاید یہ موقع فراہم کرے کہ وہ احمد شاہ ابدالی کی سلطنت کی جزوی بحالی کے لئے معاون ہو سکیں۔ (اور خدانخواستہ ہمارے دیرینہ دوست محمود خان اچکزئی کو مُلّا منصور کی ’’شہادت‘‘ پہ آنسو بہانے کے ثواب میں رفیق نجیب اللہ کے سے انجام کا سامنا کرتے ہوئے شاید ملال کی توفیق بھی نصیب نہ ہو۔ مذہبی دہشت گردی کی عالمی انجمن میں بہت سے دستوں اور امیروں کی فراوانی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اُن میں سے کچھ ہمارے لئے نیک شگون کا باعث ہوں گے۔ ابھی تک تو ایسا ہوا نہیں اور ایسے ہونا بھی نہیں۔ نفرت کے انتہاپسندانہ نظریئے کی لڑی میں پروئے یہ نام نہاد مجاہدین کسی وطن اور قانون کے تابع نہیں۔ ان سب سے خلاصی ہی میں امان ہے۔ پھر ان کو کسی آس پہ بچائے رکھنے میں کہاں کی حکمت ہے۔ انہیں ’’مہمان‘‘ رکھ لیں، یا پھر امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے خوفناک ردِّعمل کے لئے کمر کس لیں، بھلے ہماری کمر یہ بوجھ اُٹھاتے نہ ٹوٹ جائے۔
کشمیر کے محاذ پر جو تزویراتی خزینے ہم نے نئے بنائو سنگھار کے ساتھ نمائش پر رکھے ہوئے ہیں، ہماری بے گناہی کو گناہ میں تبدیل کرنے کی شہادت ہیں۔ ایسے میں دفترِ خارجہ نے سفارتکاری کا کوئی دل نشین راگ کیا الاپنا ہے، سوائے بھونڈی گائیکی کے جسے کوئی سننے والا نہیں۔ ہر طرف سے توپیں کھولی جا رہی ہیں۔ لندن سے الطاف بھائی کی توپ، جنیوا سے براہمداغ بگٹی کی توپ، افغانستان کے انتشار کے جنگل سے پاکستانی طالبان کی توپیں اور را (RAW) کا تخریبی بارود اور کابل میں پختونستان اور بلوچستان کی آزادی کے نعرے اور ایسے ملک میں جو تمام دُنیا کے سر کا درد۔ اور اگر امریکہ اس سردردی سے جان چھڑا کر بھاگ گیا تو اس کا سردرد ہمارے لئے فالج کا باعث تو ہو سکتا ہے، باعثِ فرحت نہیں۔ افغانستان میں طالبان کی ممکنہ واپسی سے تو ہوگا یہ کہ درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا پایا۔ پاک افغان سرحدوں کے آرپار لہراتے کالے جھنڈوں کے ساتھ سیاہ پوش مجاہدین کی لہروں سے چین کو چین ملے گا نہ روس کو۔ جو کام جنرل راحیل شریف نے کر دکھایا ہے، اسے دھچکہ لگے گا۔ سپہ سالار کو نظر آ رہا ہے کہ ہر دو طرف کے طالبان کو بتدریج ٹھکانے لگائے بنا کابل کو چین ملنے والا ہے، نہ پاکستان کو۔ آخر وزیراعظم کی سربراہی میں کابینہ کی سلامتی کی کمیٹی اور پارلیمنٹ اس بارے میں دو ٹوک فیصلہ کیوں نہیں کرتی کہ بس بہت ہو گیا، جنرل ضیاء الحق کی تخریبی ایجادات کو دفنانے کا وقت ہاتھ سے گزر گیا تو ہاتھ ملنے کی بھی مہلت نہیں رہے گی۔
سپہ سالار کی بہادری اور عزم قابلِ تحسین۔ مگر بدلتے علاقائی حالات، بدلتے طاقتی رشتوں اور بدلتی قومی سلامتی کی ترجیہات کو سامنے رکھتے ہوئے، کام حکمتِ عملی کے از سرِ نو تعین اور اہداف کو بدلنے کا ہے۔ سیاسی و فوجی حکمت کاروں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اگر یہی کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے ہر حد سے گزرنے کو تیار ہیں، تو میری سمجھ میں تو یہی آیا ہے کہ جوا سٹرٹیجک اہداف اور مقاصد ماضی سے سر پر سوار ہیں، اُن کا کچھ بوجھ ہلکا کرنے اور نئے تقاضوں کے لئے کہیں اور وزن بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اوّل و آخری ہدف تو پاکستان کی سلامتی ہے اور اس کی سلامتی کے لئے ضروری شرط ہے کہ موافق علاقائی ماحول ہو، نہ کہ علاقائی زہر کی فراوانی۔ ضربِ عضب کی کامیابیوں اور قبائلی علاقہ جات سے دہشت گردوں کے عمومی صفائے کے بعد اب پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے اور پاکستانی دہشت گردوں کی افغانستان سے کمک اور کمیں گاہیں ختم کرانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ جڑی ہوئی ہے افغان طالبان کی پاکستان کی سرزمین سے رخصتی کے ساتھ۔ سودا بُرا نہیں، اگر افغانستان موجودہ پاک افغان بین الاقوامی سرحد کے احترام کی قسم کھا لے۔ اور ایسا ممکن ہے اگر چین اور امریکہ مل کر یہ قضیہ نمٹا دیں۔ رہی بات بھارت کی تو اُسے بھی کچھ لے دے کے راضی کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ بھی کشمیریوں کو کچھ دینے کے لئے تیار ہو۔ اگر ہم کشمیر محاذ کے مجاہدین کی ریٹائرمنٹ کا کوئی صحت مند بندوبست کر دیں تو لندن اور جنیوا کی توپیں بھی بند ہو سکتی ہیں اور بلوچستان کے نوجوانوں کو پیار دے کر گلے سے لگایا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھٹی سے گزرے ہوئے سپہ سالار سے بہتر کون جانتا ہے کہ گھر کی صفائی کافی نہیں، اس لئے اُنہوں نے افغانستان کے خلاف پاک سرزمین کے استعمال پہ زمیں تنگ کرنے کے لئے جستجو تیز کر دی ہے۔ جان کیری کو پتہ ہے کہ یہ کام سہج سے کرنے والا ہے۔ ساری بلائوں سے ایک ایک کر کے ہی جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ دہشت گردی کے معاملے پر اب علاقائی مکالمے کی ضرورت ہے اور اس بارے میں ہم سلامتی کے مشیر جناب ناصر جنجوعہ سے کسی پیش قدمی کی توقع کرنے میں حق بجانب ہیں۔ بات تو ہر طرف سے اُمڈتے خطرات سے شروع ہوئی تھی۔ ایسے میں اندرونی خلفشار کو سنبھالنے میں غفلت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ کراچی کے محاذ کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ فاروق ستار کی پاکستانی متحدہ قومی موومنٹ کی حوصلہ افزائی سے وہ عناصر تنہا ہو سکتے ہیں جو لندن کی توپوں کا ایندھن بننے کو تیار ہیں۔ اسی طرح جنرل راحیل شریف کو سیاسی قیادت کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے کہ وہ ناراض بلوچوں سے معاملہ طے کرے۔ بلوچستان میں خون خرابہ بند ہو اور بلوچ گوادر اور چین پاکستان معاشی شاہراہ سے سب سے پہلے مستفید ہوتے ہوئے اس کی حفاظت کریں۔ لیکن گتھیاں اور بھی ہیں سلجھانے کو۔ حکومت کو سڑکوں پہ آئی اپوزیشن کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کا آغاز کرنا چاہئے۔ پاناما لیکس اور ہر طرح کی کرپشن پر قوم سیاستدانوں سے کسی مؤثر قانون اور قابلِ اعتبار احتسابی ادارے کے قیام کی جانب فوری پیش رفت کی متمنی ہے۔ پاناما لیکس پر اگر احتساب تک معاملہ ہوتا تو اپوزیشن اور خاص طور پر عمران خان اور قادری ایک زبردست دھرنا دے کر عوام کی اِچھا پوری کر سکتے تھے۔ لیکن جمہوری نظام کو اُلٹانے اور اس کی تخریب کے ذریعہ جانے کسی بھوت کو لانے کی جو خواہش ہے وہ منڈھ چڑھنے والی نہیں۔ جنرل راحیل شریف نہ پہلے اور نہ اب آئین سے اپنی وفاداری سے ہٹنے والے ہیں۔ پھر عمران خان اور قادری کیوں اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں۔ قادری دہشت گردی کے خلاف عمدہ کام کر سکتے تھے اور عزت کما سکتے تھے اور عمران خان صبح شام کے دھرنوں پہ اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے موجودہ حکمرانوں کے مقابلے میں بہتر متبادل پیش کرنے پر توجہ مرکوز کر سکتے تھے۔ لیکن ان کو کون سمجھائے کہ پاکستان اس وقت کسی اندرونی خلفشار کا متحمل نہیں اور نہ ہی سلامتی کے اداروں میں کسی اتھل پتھل کا۔ جنرل راحیل شریف نے تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے اور ابھی اُن میں دم باقی ہے تو آزمائے ہوئے کو ہی مزید آزمانے میں کیا حرج ہے۔ ہر طرف سے اندھیریاں اُٹھ رہی ہیں۔ سیاسی و فوجی قیادت کو حکمت کے نئے چراغ جلانے کی ضرورت ہے جو ہمیں اور خطے کو امان دے سکے اور بی فاختہ کے انڈے، کوئوں سے محفوظ رہ سکیں۔

.
تازہ ترین