• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری قوتیں بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ کیوں ہیں

پاکستان میں آج کل کچھ سیاسی جماعتیں’’ جمہوریت کے تحفظ ‘‘ کے لئے متحد ہوگئی ہیں ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے لانگ مارچ ، دھرنوں اور جلسوں سے جمہوریت کیلئے خطرات پیدا ہو گئے ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت خصوصاً حکمراں سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بار بار احکامات کے باوجود بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئےتیار نہیں ہے ۔ جمہوریت اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم ( تفویض اختیارات ) اور عدم مرکزیت کا نام ہے ۔ پاکستان18 کروڑ سے زائد لوگوں کا ملک ہے لیکن یہاں گیارہ بارہ سو افراد پورے ملک کو چلاتے ہیں ۔ سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پورے ملک کیلئے قانون سازی کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ درجن افراد پورے ملک کے انتظامی امور چلاتے ہیں ۔ سارے فیصلے وفاقی اور صوبائی صدر مقامات میں ہوتے ہیں ۔ وہاں بیٹھے ہوئے لوگ یہ طے کرتے ہیں کہ دوردراز دیہات، قصبوں اور شہروں کی مقامی ضروریات کیا ہیں۔ اکیسویں صدی میں یہ ایک حیرت انگیزبات ہے کہ مقامی نوعیت کے فیصلے مرکزی یا صوبائی حکومتوں کے چند لوگ کررہے ہوں ۔ یہ جمہوریت کی بنیادی روح کیخلاف ہے ۔ نجانے کس جمہوریت کا تحفظ کیا جا رہا ہے ۔
ہرسیاسی جماعت کے منشور میں بلدیاتی انتخابات کی بات کی گئی ہے اور تفویض اختیارات ( Devolution ) اور عدم مرکزیت کا نظام قائم کرنے کے بڑے بڑے دعوے کئے گئے ہیں لیکن یہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے خلاف کام کرتی ہیں ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ کسی بھی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں موقع نہیں ملا ہے بلکہ انہوں نے شعوری طور پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کوروکا ہے ۔ بلدیاتی انتخابات صرف اور صرف ان حکومتوں میں ہوئے ہیں جنہیں غیرجمہوری اور آمرانہ حکومتیں کہاجاتا ہے۔ مقامی سطح پر شہری اور دیہی علاقوں میں ترقی ان ادوار حکومت میں ہوئی جب آمرانہ حکومتیں تھیں ۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ جو حکومتیں نچلی سطح پر بااختیار مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرتی ہیں وہ کیونکرآمرانہ حکومتیں کہلاتی ہیں اور جو حکومتیں شعوری طور پر ایسے نظام کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں وہ کیونکر جمہوری حکومتیں ہیں ؟ اس سوال سے قطع نظرہم نے صوبہ سندھ میں مقامی سطح پر ترقی اس وقت دیکھی ، جب کراچی میں ڈاکٹر فاروق ستار ، نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال میئر یا سٹی ناظم تھے ۔ حیدر آباد میں مخدوم رفیق الزمان ، نواب شاہ میں فریال تالپور ، خیر پور میں نفیسہ شاہ ، ڈسٹرکٹ ناظم کے عہدے پر براجمان تھے ۔ جب مقامی حکومتوں کا موثر نظام موجود نہیں ہوتا ہے تو شہروں ، قصبوں اور گوٹھوں کی حالت زار سے اس کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ سیلاب اور بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد لوگوں کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ مقامی حکومتوں کا نظام کس قدر ضروری ہے ۔ اگر مقامی حکومتیں اور مقامی نمائندے ہوتے تو لوگوں کو اتنی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنے اختیارات اور وسائل تقسیم نہیں کرنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سارے فنڈ ان کے ہاتھ میں رہیں اور یہ فنڈز وہ خود کھاتے رہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے دورمیں ضلعی حکومتوں کے نظام کی زبردست مخالفت کرتے رہے لیکن ہر سیاست دان یہ کوشش تھی کہ وہ ضلعی یا تعلقہ ناظم منتخب ہو جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مالیاتی وسائل مقامی حکومتوں کو منتقل ہورہے تھے اور انہیں مالیاتی خود مختاری حاصل ہورہی تھی ۔ سیاست دانوں کے لئے قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہونا بنیادی نہیں بلکہ ثانوی ترجیح بن گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں پیسہ ہوتا ہے وہیں ہمارے سیاست دان جانا چاہتے ہیں اور فنڈز اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی رویے کی وجہ سے جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں کراتیں اور مقامی حکومتوں کو با اختیار نہیں بنانا چاہتیں۔ چند سو سیاست دان یہ نہیں چاہتے کہ فنڈ ہزاروں یا لاکھوں نمائندوں میں تقسیم ہو جائیں ۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ تفویض اختیارات اور عدم مرکزیت سے احتساب کا نظام مضبوط ہوجاتا ہے اسکے علاوہ لوگوں کے شعور میں بھی اضافہ ہوتا ہے لہٰذا وہ ہر ایسے نظام کی مخالفت کرتے ہیں جس میں مالیاتی وسائل تقسیم ہوجائیں اور انہیں جائز طریقے سے خرچ نہ کرنے پراحتساب بھی نہ ہو۔ مرکزیت والے نظام میں کرپشن زیادہ اور احتساب کم ہوتا ہے اسکے علاوہ چوہدراہٹ اور وڈیرہ شاہی کی زنجیریں بھی کمزور ہوتی ہیں۔ لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ مرکزیت والے اس نظام کو زیادہ دیر چلایا جا سکے ۔ تفویض اختیارات اور عدم مرکزیت کی تحریک بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں شروع ہوچکی تھی اور آخری عشرے تک اس تحریک نے حیرت انگیز طور پر کامیابیاں حاصل کیں اور دنیا کے اکثر ممالک کے صوبوں، ریاستوں، ریجنوں، کمیونوں، اضلاع، میونسپلٹیوں، شہروں، قصبوں، ریانز ( Rayons )، پریفیکچرز ( Prefectures ) ، یونین کونسلوں اور بارنگیز ( Barangays ) کو مالیاتی اور انتظامی خود مختاری دلائی ۔ دنیا کے کچھ شہر اور اضلاع کو جتنی خود مختاری حاصل ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آزاد ہیں ۔ افریقہ کے کینیا جیسے ملک میں بھی 47 ’’ ضلعی ممالک ‘‘ ہیں ، جن کے انتظامی سربراہ منتخب گورنرہوتے ہیں ۔ 2010ء کے آئین میں کینیا نے تفویض اختیارات کا انقلابی کام کیا ۔ امریکہ میں ’’ اسٹیٹ رائٹس ‘‘ کی تحریک سے اختیارات واشنگٹن ڈی سی سے مقامی حکومتوں کو منتقل ہوئے ۔ 1980ء سے پہلے فرانس دنیا کا سب سے زیادہ مرکزیت والا ملک تھا ۔
ریجنوں، کمیونوں اور محکمے اپنے ترقیاتی کاموں سے لے کر اپنے اسکولوں اور گلیوں کو کسی کے نام سے منسوب کرنے تک سارے بڑے فیصلوں کی منظوری پیرس کی مرکزی حکومت سے لیتے تھے ۔ مرکزیت والے اس نظام کو ’’ Tutelle ‘‘ ( نگرانی ) کا نام دیا جاتا تھا۔ چانسلر فرانکوئس متراں کی سوشلسٹ حکومت نے اس مرکزیت کو ختم کردیا اور مقامی حکومتوں کو دنیا میں سب سے زیادہ خود مختار بنا دیا۔ آج حقیقت یہ ہے کہ پرتگال جیسے ملک میں308ود مختار میونسپلٹیاں ہیں جبکہ سربیا میں138خود مختار میونسپلٹیاں اور 23 خود مختار شہر ہیں ۔
پاکستان میں سیاست دان تفویض اختیارات اور عدم مرکزیت کے خلاف بہت سے دلائل لے آتے ہیں ۔ مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں صرف حکومت کی دو سطحیں یعنی مرکزی اورصوبائی حکومتیں ہیں ۔ مقامی حکومت کو آئین میں ایک ’’ Layer ‘‘ کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے ۔ ان سے کوئی یہ سوال کرے کہ آئین کو عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق کیوں نہیں بنایا جاتا ۔ اگر کینیا 2010ء میں اپنے آئین میں ترمیم کرکے 47 خود مختار ضلعی ممالک بنا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں ایسا کر سکتے ۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے ۔ وفاق کی طرف سے وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کو اختیارات منتقل ہونے چاہئیں لیکن صوبوں کو اپنے اختیارات نچلی سطح پر تقسیم نہیں کرنے چاہئیں ۔ ہمارے سیاست دانوں کے خیال میں اگر صوبوں کے اختیارات ضلعی حکومتوں کو منتقل ہو گئے تو اس سے صوبے یعنی وفاقی اکائیاں کمزورہوں گی اور وفاق کا تصور ختم ہو جائے گا ۔ یہ ایک فرسودہ خیال ہے ۔ دنیا کے کئی ممالک بشمول آسٹریلیا، کینیڈا،امریکہ،بھارت ، جرمنی ، میکسیکو، روس اور سوئٹزرلینڈ میں وفاقی نظام ( فیڈرل سسٹم ) ہے لیکن وہاں مقامی حکومتیں ان ملکوں سے بھی زیادہ خود مختار ہیں جہاں وحدانی نظام رائج ہے ۔
مقامی حکومتوں کی خود مختاری سے ریاستیں ، صوبے یا وفاقی اکائیاں کمزور نہیں ہوئی ہیں وہ نہ صرف مضبوط ہوئی ہیں بلکہ انہیں تقسیم کرنے کا کہیں سے مطالبہ بھی نہیں ہورہا۔ ہمیں بھی اسی تجربے کو مدنظر رکھنا چاہئے ۔ کینیڈا کی ایک تنظیم ’’ فورم آف فیڈریشنز ‘‘ نے گزشتہ دنوں کراچی میں ایک ورکشاپ منعقد کی تھی ، جس کے شرکاء اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پاکستان میں مقامی حکومتوں کو مضبوط کیا جائے تو نئے صوبوں کے مطالبے ختم ہو جائیں گے پوری دنیا میں وحدانی اور وفاقی نظاموں کے تحت خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام چل رہے ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ تفویض اختیارات اور عدم مرکزیت کو ہم بھی تسلیم کرلیں ۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے احکامات صادر کررہی ہے لیکن کبھی الیکشن کمیشن اور کبھی کوئی قانون آڑے آجاتا ہے ۔ اگر جمہوری حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات کرانے اور مقامی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ مالیاتی اور انتظامی اختیارات دینے سے گریز کا یہی رویہ جاری رکھا تو نہ صرف وفاقی اکائیوں کو تقسیم کرنے کے مطالبوں میں اضافہ ہوتا جائے گا بلکہ ہمارے شہر، قصبے ، گوٹھ اور دیہات ترقی سے محروم رہیں گے ۔ لوگوں کو بنیادی شہری سہولتیں میسر نہ ہونے سے ان میں موجودغم وغصہ بڑھتا جائیگا ۔ اگر بلوچستان بلدیاتی انتخابات کراسکتا ہے تو دوسرے صوبوں میں بھی ہو سکتے ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات سے بعض جمہوری قوتوں کو شاید اس لئے خوف ہے کہ مالیاتی وسائل اور کرپشن کے مواقع ان کے ہاتھ سے چلے جائیں گے ۔
تازہ ترین