• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
27دسمبر2007 کی سہ پہر،وزیراعظم سیکرٹریٹ میں نگراں وزیراعظم محمد میاں سومرو کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس جاری،اچانک وزیراعظم کے پیچھے بیٹھے پریس سیکرٹری شبیر انور کے موبائل پر مسیج آتا ہے کہ لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو کے جلسے میں دھماکہ ہوا ہے۔ شبیر انور یہ پیغام ایک کاغذ پر لکھ کر وزیر اعظم کے آگے رکھتے ہیں ۔’’مزید تفصیلات حاصل کریں ‘‘ محمد میاں سومرو اس پر لکھتے ہیں ۔ پریس سیکرٹری کو اجلاس سے باہر آکرمعلوم ہوتا ہے کہ ’’ دھماکہ ہوا ہے اور بے نظیر بھٹو شدید زخمی ہیں ‘‘ ۔ پتہ چلائیں کہ بی بی کہاں اور کس حالت میں ہیں‘‘ وزیراعظم کہتے ہیں ۔ پھر رابطے ہوتے ہیں اور یہ اندوہناک خبر ملتی ہے کہ ’’بی بی اب اس دنیا میں نہیں رہیں‘‘۔ وزیراعظم کو آگاہ کیا جاتا ہے تو وہ اپنے سامنے پڑی فائلیں بند کرنے اور چند لمبی سانسوں کے بعد کابینہ سے مخاطب ہوتے ہیں ’’ ساری کاروائی معطل کریں،ہم بہت بڑے سانحے سے دوچار ہوچکے ہیں ‘‘۔ عین انہی لمحوں میں اُس وقت کے نگران وفاقی وزیرسلمان تاثیر (مرحوم) جو اپنا ایجنڈ آئٹم پیش کررہے تھے بول پڑتے ہیں’’سردو پیراگراف رہ گئے ہیں، میرا ایجنڈآئٹم بہت اہم ہے ،اسے سن لیں ‘‘۔ وزیراعظم سلمان تاثیر کی بات کاٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ملک ایک قومی سانحے سے دوچکار ہوچکا ہے اور بڑے دکھ کی بات ہے کہ’’بے نظیر بھٹو صاحبہ راولپنڈی بم دھماکے میں شہید ہوگئی ہیں ‘‘۔ ’’سر ہم نے ایک ماہ لگاکر یہ ایجنڈا تیار کیا ہے ،یہ بہت اہم ہے ۔ دو پیرا گراف ہیں میں جلدی سے پڑھ دیتا ہوں ‘‘۔
سلمان تاثیر نے ایک سانس میں یہ سب کچھ کہا تو وزیراعظم ترش اور درشت لہجے میں بولے ’ اب یہ بحث کریں کہ کل کیا ہوگا،آنے والا وقت کیسا ہوسکتا ہے ‘‘۔ سرصرف ایک منٹ چاہئے ۔ یہ کہہ کر سلمان تاثیر نے اپنی سمری پڑھنا شروع کر دی ۔مسٹرسلمان!آپ ہوش میں تو ہیں’’آپ کو علم نہیں کہ کیا ہوچکا ہے اور کیا ہوسکتا ہے۔ بینظیر بھٹو شہید ہوئی ہیں اور آپ کو اپنے ایجنڈے کی پڑی ہوئی ہے یہ کیا نان سنس ہے‘‘۔ نرم خو مشہور محمد میاں سومرو نے بلند آواز میں انتہائی غصے سے سلمان تاثیر کو ڈانٹتے ہوئے کابینہ اجلاس کی معمول کی تمام کاروائی معطل کردی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ انتخابات ہوئے ،بے نظیربھٹو کی بے وقت موت کا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچا،پی پی اسمبلی میں بڑی جماعت بن کر آئی، ان کی حکومت بنی اور پھرایک وصیت کے زور پر پارٹی قیادت سنبھالنے والے زرداری صاحب کچھ عرصہ بعد مشرف کو چلتا کر کے صدر بنتے ہیں تو وہ انہی سلمان تاثیر کو گورنر پنجاب لگا دیتے ہیں ۔ بات یہاں بھی نہیں رکتی۔ گورنر بننے کے اگلے دن ہی یہی سلمان تاثیراپنے اہل خانہ کے ہمراہ لاڑکانہ پہنچے،آنکھوں میں آنسو اور دکھی چہرے کے ساتھ اُنہوں نے بے نظیر بھٹو کی قبرپرپھولوں کی چادر چڑھائی، احاطے میں انتہائی رقت آمیز آواز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے بے نظیر بھٹو سے اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کیا اور ان کے مشن کو اپنا مشن قراردیا اور بات یہاں بھی نہیں رکتی۔ پھر کیا تھا بی بی سے ایسی سچی محبت اور عقیدت رکھنے والوں کو اقتدارملتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پی پی حکومت’’ سلمان تاثیروں‘‘ سے بھر گئی۔ لیکن یہ کیسے نہ ہوتا کیونکہ اگر بی بی زندہ ہوتی تو اپنی اپنی دنیا میں رہنے کیلئے تیارہوتے کاغذات وصیت نامے میں کیسے بدلتے اور کیا خود زرداری صاحب صدر ہوتے ، بیٹے کے تعلیمی کیرئیراور لائف اسٹائل سے نامطمئن اور بیٹیوں کو سیاست میں لانے کی خواہشمند بے نظیر بھٹو کے ہوتے ہوئے بلاول پارٹی کے چیئرمین بن پاتے ، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف کی لاٹری نکلتی،فاروق ایچ نائیک اورنیربخاری چیئرمین سینٹ بن پاتے ،ڈاکٹر عاصم اور ڈاکٹر قیوم سومرو5سال تک موجیں کرتے،حسین حقانی اور انکی اہلیہ فرح ناز اصفہانی کا ایڈوینچر ازم ہو پاتا ، رحمٰن ملک اوردیگر بہت ساروں کو اتنی اہم وزارتیں مل پاتیں ۔ ایک لمبی فہرست ہے ان کی جو بی بی کے مرنے پر زندہ ہوئے اور ایک بڑی تعد اد ہے ان کی جو بی بی کے ساتھ ہی مرگئے اور اگر چند ایک کی سانسیں چل بھی رہی تھیں تو 5سال تک وہ آئی سی یو میں وینٹلیٹر پرہی رہے ۔ قاتلوں کو جانتے اور انہیں 7سالوں سے ڈھونڈتے زرداری صاحب اپنی صحت،پارٹی ،خاندان اور خاندانی جائیداد کی اس چومکھی لڑائی میں کیا کچھ ایساکریں گے کہ اس بدلتے پاکستان میں بھی یہ قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی رہے،اور ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھے بلاول بھٹو زرداری ان کی امیدوں پربھی پورا اترسکیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ بے نظیر بھٹو کو شہید ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہوں گے کہ گرمیوں کی ایک سہ پہر اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے جہاز میں مجھے اپنے ساتھ والی سیٹ پر ڈاکٹر مظفر گل بیٹھے مل گئے۔ دو امریکی سینیٹر اور ایک کانگریس مین کی رشتہ دار ڈاکٹر گل کی امریکن بیوی کے اس ’’امریکی کنکشن‘‘ کی وجہ سے بے نظیر بھٹو ،گل خاندان کے بہت قریب تھیں۔ حال احوال اور چند جملوں کے بعد ہی ہم بی بی کی باتیں کرنے لگے۔ جب ڈاکٹر گل نے بتایا کہ لیاقت باغ جلسے سے دو دن پہلے اُنہوں نے بی بی کے ساتھ کافی پی تھی اور جلسے کے اگلے دن دونوں نے لنچ کرنا تھا۔ تب میں نے پوچھا ’’دھماکے اور بے نظیر کی شہادت کا آپ کو کیسے علم ہواتھا ؟ ۔تو اس پر ڈاکٹر گل نے بتایا کہ’’ اس دن میں حسب معمول کلینک جانے کی تیاری کررہا تھا کہ اطلاع ملی کہ دھماکہ ہوا ہے اور بے نظیر بھٹوکو سینٹرل اسپتال لے جایا گیا ہے۔ بے یقینی اور افراتفری کے عالم میں،میں اسپتال کی طرف بھاگا۔ لیکن جب تک میں پہنچا بے نظیر بھٹو اس دنیا سے جا چکی تھیں ۔ ڈاکٹر ہونے کے ناتے اور اسپتال میں جان پہچان کی وجہ سے اندر گیا تو میں بنا پہیوں والی اسٹریچر پر بی بی شہید کو دور سے ہی بمشکل دیکھ پایا ۔ میری آگے جانے کی ہمت نہ ہوئی پھر میں اُسی کمرے کے باہر پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گیااور پتہ نہیں اسی طرح کتنا وقت گزرگیا ۔ لیکن اُس وقت جب وزیر اعظم بھٹو کی نازونعم میں پلی بڑھی بیٹی دو مرتبہ وزیراعظم بننے والی ایشیاء کی پہلی خاتون اور شہزادیوں جیسی زندگی گزارنے والی نفیس اور نازک بے نظیر بھٹو کے جسد خاکی کو لاڑکانہ لے جانے کیلئے تابوت منگوایا گیا تو وہ عام میتوں کو لے جانے والا تابوت تھا اور اُس پر جگہ جگہ لگا خون جم چکا تھا اور جو چادر بی بی کے جسم پر ڈالنے کیلئے لائی گئی ، مختلف قسم کے داغ دھبوں سے بھری اس چادر سے باقاعدہ بدبوآرہی تھی ۔ بی بی کے جسد خاکی کوجب تابوت میں ڈالا جانے لگا، تب میں نے ایک ڈاکٹر سے درخواست کی ابھی بی بی کا جسد خاکی تابوت میں نہ ڈالیں، مجھے 5منٹ دیدیں ۔ پھر میں نے باہر آکراپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ پرپڑی کشمیری اون کی وہ، دوگرم چادریں نکالیں جو دودن پہلے مسکراتی بے نظیر بھٹو میرے حوالے کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔’’ڈاکٹر اپنی بیگم کو دینا۔ اُنہیں سردی بہت لگتی ہے ‘‘میں یہ چادریں لے کر واپس آیا،ایک چادر تابوت کے اندر ڈال کر بے نظیر بھٹو کا جسد خاکی اُس پر رکھوادیا ۔ پھر میں نے دوسری چادر بی بی کے اوپر ڈال دی۔ مگراب مسئلہ یہ تھا کہ تابوت چھوٹا تھا اور بے نظیربھٹو کا قدبڑا۔ پھر ہم سب نے بڑی مشکل سے بی بی کی ٹانگیں گھٹنوں سے موڑ کر تابوت بندکردیا اور یوں عوام کیلئے جان دے کر وہ مشرف کے بھیجئے گئے سی ون تھرٹی میں آصف علی زرداری کے ساتھ لاڑکانہ روانہ ہوگئیں ۔ ڈاکٹر گل خاموش ہوچکے تھے ، فضا میں معلق ہمارا جہازاب لاہور کے اوپر اُڑرہا تھا، اچانک جہاز کی مدھم روشنی میں، میں نے دیکھا کہ دوسری طرف چہرہ کئے ڈاکٹر گل اپنے آنسو پونچھ رہے تھے ۔
تازہ ترین