• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاست میں ہیجان کی سی کیفیت ہے، دھرنوں کے بعد جلسوں کا موسم شروع ہے۔ ہمارے سابق صدر جناب آصف علی زرداری نے سیاست میں نئی حکمت عملی کے مطابق اپنے سپوت اور نوجوان لیڈر بلاول زرداری کو میدان عمل میں اتار دیا ہے۔ کراچی کا جلسہ باکس آفس کے مطابق خاصا کامیاب رہا۔ سارے صوبوں کی زنجیر بینظیر کے بار بار نعرے لگائے گئے،بلاول زرداری سب پر بہت ہی گرجے اور برسے، سندھ میں اپنے سابق حلیف ایم کیو ایم پر نرم ہاتھ رکھا۔ بلاول کی سیاست سے اندازہ نہیں ہورہا کہ وہ دائیں بازو کی سیاست کررہے ہیں یا و ہ ترقی پسندوں کی روش اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ نوجوان لیڈر کی تقریر میں عوامی رنگ کم تھا۔ وہ اپنے نانا اور اپنی اماں کے نعروں کو ری مکس کرکے پارٹی کو پیغام دے رہے ہیں کہ یہ پارٹی اب باغی نوجوان کی پارٹی ہے۔ ایم کیو ا یم والے نوجوان لیڈر کو برداشت تو کررہے ہیں مگر کراچی کی سیاست میں ان کو نظر انداز کرنا پیپلز پارٹی کے لئے آسان نہ ہوگا۔ اندرون خانہ ایم کیو ایم کسی حد تک کپتان کی پارٹی کے ساتھ بات چیت کررہی ہے۔ کپتان اور الطاف بھائی نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ اسی وجہ سے کراچی کی سیاست کو سندھ کی سیاست میں مکس کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ آنے و الے دنوں میں پیپلز پارٹی کی اشرافیہ میں پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہے۔آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کی سرکار پر حملے کو اپنی فہم و فراست سے ناکام تو بنادیا تھا مگر ان کا اپنا کردار کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ سابق صدر کے پیر اعجازنے موصوف کو مشورہ دیا تھا کہ کچھ دن کے لئے سمندر سے دور چلے جائیں، تو سوچا گیا کہ اب پنجاب میں سیاست کا آغاز کیا جائے، پنجاب کی راج دہانی میں اب ان کا قلعہ بھی ہے۔ ان کے دوست اور بحریہ ٹائون کے چیف نے ان کے معاملات کو آسان بنانے میں میاں نواز شریف سرکار سے مشاورت بھی کی، مگر صوبے دار صاحب بہادر نے ان کو باور کرایا کہ آپ دونوں طرف کے لئے قابل احترام ہیں اس لئے آپ کے لئے مناسب نہیں کہ آپ اس معاملہ میں فریق بنیں۔ سابق صدر نے قیام لاہور کے دوران پیر اعجاز کی خدمت بھی بہت کی اور پیر صاحب کی مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کیا کہ پہلے مرحلہ میں بلاول کو آزادی کے ساتھ بات کرنے کا موقع دیا جائے۔ ان کے جلسہ کی تاریخ بھی ان کے پیر نے ہی طے کی۔ اب دوسرے مرحلہ میں نوجوان لیڈر پنجاب میں آنے کا فیصلہ کرچکے ہیں مگر پنجاب میں پارٹی شدید خلفشار کا شکار ہے۔ ملتان کا حالیہ انتخاب اس کی منہ بولتی تصویر ہے۔ سابق وزیر اعظم گیلانی نے کوشش تو بہت کی مگر ملتان کے نوجوانوں کو اپنے ڈھب پر لانے میں ناکام رہے اور کپتان کامیاب رہا۔ نقصان صرف باغی کو ہوا۔ اس وقت پاکستان کی سیاست گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی ہے۔ قادری صاحب اب سیاست کے باضابطہ کھلاڑی بننے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے چوہدریوں سے ان کی آشنائی بدلتی نظر آرہی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے مہربان اس وقت قادری صاحب کے لوگوں سے ایک نیا جرگہ شروع کرچکے ہیں۔ میاں صاحب کے مشیروں کا خیال ہے کہ اس مرحلہ پر قادری صاحب کو یقین دہانی کرائی جائے کہ اگر وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو ان کو حیثیت دی جائے گی۔ اس طرح کپتان اور ان کے اتحادیوں کے ووٹ تقسیم ہوجائینگے، مگر پیپلز پارٹی پنجاب کی سیاست سے ووٹر تقسیم ہونے کی بجائے مخالفوں کو مل جاتے ہیں اور کچھ ایسا ہی ملتان کے حالیہ انتخابی دنگل میں ہوا۔ پنجاب کی نوکر شاہی بھی ناکام ہوئی پھر اس نے بدلتی رت کا اندازہ کرلیا ۔ اب وزیر اعظم کو ہنگامی طور پر معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ پورے ملک میں بجلی کے بلوں کا معاملہ بدستور گرم ہے اگرچہ یہ بات طے ہوچکی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں عوام کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا اور جعلی طور پر بجلی کے بل گھڑ کر عوام کو بدظن کیا گیا اور ابھی تک یہ معاملہ حل طلب ہے۔ بجلی کے بڑے وزیر اور چھوٹے وزیر صاحب سیاست میں اتنے سرگرم عمل ہیں کہ ان کو عوام کے مزاج کا اندازہ نہیں ۔وہ عوام کو کوئی بھی سہولت دینے کے معاملہ میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ وزیر اعظم عوام کی دادرسی کے لئے خود میدان عمل میں آجائیں۔ اس وقت قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ بڑے سرگرم نظر آرہے ہیں۔ چند دن پہلے جوش جذبات میں ’’مہاجر‘‘ لفظ کو گالی کا متبادل کہہ دیا اور پھر ایسی ہی خطابت میں ا پنی بات کی تردید بھی کی کہ وہ خود بھی پرانے زمانہ کے مہاجر ہیں ان کی بات کو ایم کیو ایم نے بھی بہت محسوس کیا۔ اس کے بعد سید خورشید شاہ کو اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ ایک کو اندرون سندھ کی سیاست میں تبدیلی آتی نظر آرہی ہے۔ پھر سندھ میں حلقوں کی تقسیم کے معاملات بھی شاہ صاحب کو پریشان کررہے ہیں۔ ان کے قول و کردار کی سمجھ نہیں آتی اگر وہ کپتان پر تنقید کرتے ہیں اور ساتھ ہی میاں صاحب کو مڈ ٹرم انتخابات کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ پھر پارٹی کے اندر بھی لوگ ان کی قلابازیوں سے خوش نہیں۔ ان کے ذمہ بلاول کے جلسہ کے لئے لوگوں اور بسوں کا انتظام کرنے کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ شاہ صاحب نے پوری محنت اور مشقت سے اپنے علاقے سے خاصے بڑے جتھے روانہ کئے اور اپنی حیثیت منوانے کی کوشش کی اور دوسری طرف ان کے حلقہ میں یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ اب درمیانی مدت کے انتخاب زیادہ دور کی بات نہیں اور پیپلز پارٹی کی اندرونی سیاست میں بے چینی کا باعث ہے۔ دوسری طرف بلاول زرداری پارٹی کے پرانے لوگوں کو اہمیت نہیںدے رہا اور شاہ صاحب بھی اس بات کے شاکی ہیں مگر اظہار سے ڈرتے ہیں۔اسلام آباد میں زندگی معمول کے مطابق واپس آرہی ہے۔ ڈاکٹر قادری کا دھرنا مرکز ویران نظر آرہا ہے۔ چوہدری نثار نے حکم جاری کردیا اور شہر کو کنٹینروں سے پاک کیا جارہا ہے اگرچہ اسلام آباد ہائیکورٹ پہلے یہ حکم جاری کرچکی ہے مگرعمل میں دیر ہوگئی۔ اب اعلیٰ نوکر شاہی میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ایک مرکزی سیکرٹری جو پہلے پی آئی اے کے چیئرمین بھی تھے ان کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ کے تناظر میں کیا گیا ہے ۔کیا چیئرمین کی تبدیلی سے پی آئی اے کے معاملات درست ہوسکتے ہیں۔ اس وقت سول ایوی ایشن کی وزارت کے معاملات میاں صاحب کے کینیڈا کے شہری دوست چلارہے ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل بھی جاری ہے اور اس سلسلہ میں اندرون خانہ کام بھی ہورہا ہے، مگر نجکاری سے پی آئی اے کے معاملات درست نہیں ہوسکتے۔ ضروری ہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ میں تبدیلی لائی جائے اور نجکاری کی بجائے انتظامی ڈھانچہ کسی نجی ادارے کے سپرد کیا جائے جو تبدیلی کے لئے خود مختار ہو۔ اس طرح سے پی آئی اے کی ساکھ بھی بہتر ہوجائے گی اور کمپنی اپنے نقصان میں بھی کمی کرسکے گی۔
تازہ ترین