• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلاول بھٹو زرداری کا کراچی کا جلسہ کافی حد تک معقول تھا لیکن اس میں پیپلز پارٹی کی روایتی بے ساختگی اور جوش و جذبہ مفقودتھا۔ بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کا نیا چہرہ بنا کر پیپلز پارٹی کی پنجاب میں احیاء کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ وہ لاہور میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کریں گے اور توقع کی جارہی ہے کہ لیڈرشپ کو تبدیل کرکے پارٹی میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے؟ ہمارے خیال میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ پیپلز پارٹی پچھلے پانچ سال میں نہیں بلکہ پچھلی دو دہائیوں میں بتدریج زوال پذیر ہوئی ہے۔
پیپلز پارٹی کی اساس لاہور میں رکھی گئی تھی اور یہی شہر اس کا مضبوط ترین قلعہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی رہنمائی میں پیپلز پارٹی کو لاہور ہی نہیں پورے وسطی پنجاب میں شکست دینا ناممکن تھا۔ تب جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جڑیں مضبوط نہیں تھیں۔ ویسے بھی جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کبھی وہ حیثیت اختیار نہیں کر سکی جو کہ اسے وسطی پنجاب میں حاصل تھی۔ لاہور میں اس کا زوال 1988کے انتخابات کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جوکہ 2013 تک آتے آتے مکمل ہوگیا۔
عباس حسن نے ایک انگریزی معاصراخبار میں لاہور میں پیپلز پارٹی کے بارے میں دلچسپ اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے لاہور میں مغلپورہ کا حلقہ پیپلز پارٹی کا سب سے مضبوط گڑھ تھا کیونکہ اس میں ووٹروں کا زیادہ تر حصہ ریلوے ورکرز پر مشتمل تھا۔ اس حلقے سے 1970کے الیکشن میں ڈاکٹر مبشر حسن اسی ہزار ووٹوں کی برتری سے کا میاب ہوئے تھے۔ پھر اس حلقے سے زیادہ تر اعتزاز احسن نے الیکشن لڑا جن میں وہ پہلے یا دوسرے نمبر پر رہے۔ لیکن 2008 میں اس حلقے سے پیپلز پارٹی چوالیس ہزار ووٹوں سے ہار گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب بینظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے ووٹروں میں پیپلز پارٹی کے لئے کافی ہمدردی تھی لیکن اس کے باوجود اس حلقے میں پارٹی ہار گئی۔ لیکن 2013 میں اس حلقے سے مسز بشری اعتزاز احسن نے الیکشن لڑا اور چند ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہیں : وہ ایک لاکھ بارہ ہزار ووٹوں سے ہاریں۔اگر پورے لاہور شہر کو لیا جائے تو 1970میں چاروں کی چاروںسیٹوں پر پیپلز پارٹی فتحیاب ہوئی تھی۔ 1988میں اسے نو میں چھ سیٹیں ملیں اور تین پر وہ دوسرے نمبر پر رہی ۔ لیکن 1990اور 1993میں اسے ایک ایک سیٹ پر اکتفا کرنا پڑا جبکہ 1997میں اسے کوئی سیٹ نہیں ملی۔ اسی طرح 2002 میں اس نے تین سیٹیں جیتیں اور چھ میں دوسرے نمبر پر رہی جبکہ 2008 میں دو سیٹوں پر جیتی اور دس میں دوسرے نمبر پر رہی۔ البتہ 2013 میں اس کا لاہور سے مکمل صفایا ہو گیا : نہ صرف وہ ساری سیٹیں ہار گئی بلکہ صرف ایک سیٹ پر دوسرے نمبر پر رہی۔اگر پورے پنجاب کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یہی رجحان دکھائی دیتا ہے۔ضیاء دور میں پیپلز پارٹی کی بہت زیادہ شکست و ریخت ہوئی لیکن پھر بھی 1988میں وہ نو میں سے چھ سیٹیں جیت گئی تھی۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے زوال کا تعلق اس کی بری گورننس کے ساتھ ہے۔ 1988سے لے کر نوے کی پوری دہائی میں جب بھی پیپلز پارٹی حکومت میں آئی اس کی گورننس کمتر رہی اور اس پر بد عنوانیوں کے الزامات کی بھرمار ہوتی گئی۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی گورننس کو بہتر سمجھا گیا جس سے پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک سکڑتا گیا اور مسلم لیگ (ن) کا بڑھتا گیالیکن پھر بھی 2008 تک مقابلہ انہی دو پارٹیوں کے درمیان رہا۔ تحریک انصاف نے 2013 میں یہ دوپارٹی سسٹم ختم کردیا اور وہ لاہور کے اکثر حلقوں میں دوسرے نمبر پر آگئی۔ اب پورے پنجاب میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہے:پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک سکڑ کر پانچ چھ فیصد تک رہ گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب میں زوال محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے دور میںہی شروع ہو چکا تھا لیکن اس کا خاتمہ سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں ہوا۔ اگرچہ محترمہ اپنے باپ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پنجاب کے عوام کی نباض نہیں تھیں لیکن پھر بھی وہ اس علاقے کے عوام کے جذبات کی حساسیت سے واقف تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے گھر پہنچ گئی تھیں کیونکہ ان کو احساس تھا کہ اس الیکشن میں پنجاب میں آزاد عدلیہ کی بحالی مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ محترمہ کی شہادت کے بعد جب پارٹی کی رہنمائی آصف زرداری کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے آزاد عدلیہ کی بحالی کی کھلم کھلا مخالفت کی۔ حکومت میں آنے کے بعد بھی پیپلز پارٹی نے عدلیہ کی بحالی کے خلاف مزاحمت کی اور وسطی پنجاب کے عوام کو اپنا مخالف بنا لیا۔بنیادی طور پر آصف علی زرداری سندھی سیاست دان ثابت ہوئے جن کو پنجاب کے عوامی رجحانات کا زیادہ اندازہ نہیں تھا۔ بطورسندھی سیاست دان آصف زرداری جمہوریت کے تسلسل اور اپنی صدر کی کرسی بچانے میں کافی کامیاب رہے لیکن ان کی پنجاب کے بارے میں پالیسی انتہائی ناقص تھی۔ انہوں نے وسطی پنجاب کو خیرباد کہتے ہوئے جنوبی پنجاب کو اپنا قلعہ بنانے کے لئے سرائیکی صوبے کی تخلیق کرنے کا نعرہ لگوایا۔ یہ کوشش ناکام ہو گئی اور 2013کے الیکشن میں پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے بھی ہار گئی۔ سرائیکی صوبے کی تخلیق کا مسئلہ جنوبی پنجاب میں بھی عوامی سطح پر مقبول نہیں تھا۔ جنوبی پنجاب کے بہت سے اضلاع میں وسطی پنجاب کے آباد کاروں کی اکثریت ہے جن میں سرائیکی صوبے کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ الغرض پیپلز پارٹی کے سرائیکی کے نعرے نے بھی پنجابی عوام کو اپنے سے دور کردیا۔ اب بلاول بھٹو زرداری نے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ لگا کر پنجابیوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاید اس کے پس منظر میں یہ خیال ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ہندوستان کے خلاف نعرے بازی ان کی مقبولیت کی بنیادی وجہ تھی۔
تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ ان کا روٹی کپڑا مکان کا نعرہ بنیادی تھا جس کو ہندوستان دشمنی کا تڑکا لگایا گیا تھا۔ ویسے بھی اس زمانے میں 1965کی جنگ کی یاد تازہ تھی اور عوام میں تاثر تھا کہ یہ جنگ پاکستان نے جیتی تھی جو ایوب خان نے تاشقند کا معاہدہ کرتے ہوئے ہاردی۔ اس وقت پنجاب کے عوام میں پیپلز پارٹی کی انتہائی مقبولیت کی کئی وجوہات تھیں جن میں بھٹو کا کشمیر کے بارے میں نعرہ بھی شامل تھا۔ اب پنجاب میں نہ تو ہندوستان دشمنی کا ویسا ماحول ہے اور نہ ہی بلاول بھٹو زرداری کے پاس روٹی کپڑا مکان جیسا کوئی نعرہ ہے۔اب نہ صرف پاکستان کی سیاسی معاشیات بدل چکی ہے بلکہ اب پیپلز پارٹی کی ماضی کی بدترین گورننس بھی اسکے لئے اتنا بڑا بوجھ ہے کہ وہ اسے ہٹا کر یا اٹھا کر اپنی کھوئی ہوئی حیثیت حاصل نہیں کر سکتی۔اب تو یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں بھی اس کی کوئی جڑیں نہیں ہیں۔ ملتان کے حلقہ 149 کے الیکشن میں اس کے امیدوار کو صرف چھ ہزار ووٹ ملے۔اب پنجاب میں مقابلہ مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہے:پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر پہنچ چکی ہے اور اس کی بحالی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
تازہ ترین