• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت دکھ ہوتا ہے، گھر والوں کی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔ نقصانِ مایہ اور شماتت ِہمسایہ۔ ہر برس یہ ہوتا ہے، انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرتے وقت۔ پورے سال اپنی بیماریوں اور اپنے گھر والوں کے علاج کے اخراجات، اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات، اور اپنی حفاظت کے اخراجات خود برداشت کر نے پڑتے ہیں۔ جو کچھ گزرتی ہے وہ تو پورے سال گزرتی ہے، کہ ہر ماہ تنخواہ میں سے انکم ٹیکس کی مد میں ایک اچھی خاصی معقول رقم کٹ جاتی ہے۔مگر سال کے آخر میں جب حساب سامنے آتا ہے تو ایک اور جھٹکا لگتا ہے۔ اچھا تنخواہ لینے کا’ خمیازہ‘‘ اتنا ہوجاتا ہے۔ بہت جی چاہتا ہے کوئی راستہ تلاش کرلیں کہ انکم ٹیکس نہ دینا پڑے۔مگر وہ تو تنخواہ کی ادائیگی کے وقت at sourceکٹ جاتا ہے۔آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں، ادارے کی اپنی قانونی ذمہ داریاں ہیں، ٹیکس تو کاٹنا ہی پڑتا ہے، اور سرکار کے خزانے میں جمع کرانا پڑتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ انکم ٹیکس چوری کرنے کو جی چاہتا ہو، خدانخواستہ۔ جب سے تنخواہ ٹیکس کے قابل ہوئی ہے، ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ سب کو ٹیکس دینا چاہئے، ہر اُس شخص کو جس کی آمدنی ٹیکس کے قابل ہو، خواہ اس کی آمدنی کے ذرائع کچھ بھی ہوں۔ ایسا ہو جائے تبھی ملک کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ یہ سب کو پتہ ہے۔ مگر معاملہ یہ نہیں ہے۔ یہ جو اتنی ڈھیر ساری رقم ہر سا ل ہماری تنخواہ میں سے کاٹ کر انکم ٹیکس کی مد میں حکومت کے کھاتے میں چلی جاتی ہے اس کا استعمال کیا ہے؟ دل یوں جلتا ہے کہ اگر محنت سے کمائی گئی یہ رقم اللّے تللّوں پر خرچ کردی جاتی ہو، کچھ لوگوں کی تفریحات پر اُڑادی جاتی ہو، کچھ دوسروں کی حفاظت پر ضائع کی جاتی ہو،تو دکھ تو ہوگا۔ اور یہ کون لوگ ہیں جو عوام سے لئے گئے ٹیکس پر مزے کرتے ہیں؟ سب ہی ہیں، پارلیمان کے معزز ارکان، سرکاری افسران، حکمرانوں کے مختلف طبقات ۔ عوام کے ٹیکس سے یہ سہولتیں حاصل کرنے والے خود کتنا ٹیکس دیتے ہیں؟ ایف بی آر نے اس کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر فراہم کردی ہے، ایک بہت اچھا کام ہے۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ اتنے بڑے بڑے نام والے، اندر سے کتنے چھوٹے ہیں۔ ارکانِ پارلیمان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں جاتے ہیں، وہاں سے تنخواہ بھی لیتے ہیں، اس پر ٹیکس بھی کاٹا جاتا ہے۔ مگر تنخواہ کے علاوہ انہیں جو سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں وہ ان کے ادا کئے ہوئے ٹیکس سے کہیں زیادہ ہیں۔ بعض اراکین نے تو 36 لاکھ روپے تک کے میڈیکل بل وصول کئے ۔ انہیں جو دوسری سہولتیں ، سفر وغیرہ کی الگ سے فراہم کی جاتی ہیں وہ بھی لاکھوں میں ہیں۔ اور یہ سرکاری اہل کار، نوکر شاہی ،یہ سامراج کا چھوڑا ہوا عفریت، ان کی سہولتیں بھی ان کی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہیں، اور یہ سب ہم سے ٹیکس کے نام پر حاصل کی گئی رقم سے ادا ہوتا ہے۔ ذرا سی پرانی بات ہے، حفیظ شیخ نے، جو وزیر ِخزانہ بھی رہے ہیں اور ایک ماہر ِ معاشیات ہیں، تجویز کیا تھا کہ اعلیٰ سرکاری افسروںکی تنخواہ دس لاکھ روپے ماہانہ کردی جائے اور ان کی دیگر سہولتیں ختم کردی جائیں۔ یہ تجویز ظاہر ہے کیوں منظور نہیں ہوئی، نوکر شاہی سے زیادہ طاقتور کون ہے،ان کی مرضی کے بغیر اس طرح کی تجویز کیسے منظور کی جاسکتی ہے،کہ اس تجویز میں ان کا سراسر نقصان تھا۔چلیں ان کے ساتھ کچھ رعایت کر بھی دی جائے، مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسلا م آباد میں دھرنوں پر قومی خزانے سے ایک ارب روپے خرچ کئے گئے۔ اُن لوگوں کو تحفّظ فراہم کیا گیا جو اس ملک کا آ ئین مانتے ہیں نہ اِس کی پارلیمان۔تیس بتیس ہزار پو لیس اہل کار دھرنے کے ارد گرد دو ماہ تک تعینات رکھے گئے، دوسرے علاقوں کے تحفظ کی قیمت پر۔ اور ان کے اخراجات میں نے اور اس ملک کے دوسرے ٹیکس دینے والوں نے برداشت کئے۔ کیوں؟ کیا یہ سوال غیر مناسب ہے؟ ہمارے علاقے میں اور شہر کے، ملک کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے اپنی حفاظت کا بندوبست خود کرتے ہیں، چوکیدار رکھتے ہیں، انہیں تنخواہ دیتے ہیں اپنی جیب سے۔ کیا ان کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر نہیں؟ آخر حکومت ٹیکس کس مد میں لیتی ہے؟ وہ ان لوگوں کو تو تحفظ فراہم نہیں کرتی جوٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کے لئے ہر طرح کا حفاظتی بندوبست کیا گیا جو پتہ نہیں ٹیکس دیتے ہیں یا نہیں۔ دیتے بھی ہوں تو ظاہر ہے اتنا نہیں د یتے ہوں گے کہ ان پر دو ماہ میں ایک ارب روپے خرچ کرنے کو حق بجانب قرار دیا جا سکے۔ انہیں اگر حفاظت درکار ہے تو اس کے اخراجات خودبرداشت کریں۔ یہ جلسے جلوس دھرنے ٹیکس دینے والوں کے سر کیوں منڈھے جائیں؟ آخر کیوں؟ یہ سارے اخراجات ان لوگوں سے وصول کئے جائیں جو گھر سے نکل کر سڑک پر آجاتے ہیں اور دھرنے دیتے ہیں اور جلوس نکالتے ہیں۔ اس ملک کے ٹیکس دینے والے لوگ کیوں یہ بوجھ برداشت کریں۔ انہوں نے ٹیکس اس مقصد کے لئے نہیں دیئے، عوام کی فلاح و بہبود کے لئے دیئے ہیں ۔ اس کا جو حال ہے ظاہر و باہر۔
بیمار لواحقین کو اسپتال لے کر جائیں تو دل جل جاتا ہے۔ کسی سرکاری اسپتال میں معقول علاج ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر ہیں نہ دوائیں، صفائی، نہ دیکھ بھال۔ ہرِپِھر کے یہ کاروباری طرز پر قائم نجی اسپتال ہیں جہاں جانا پڑتا ہے۔ مگر وہاں کے اخراجات؟ اللہ کی پناہ۔ مگرکچھ اور ممکن بھی تو نہیں۔’’ تو پھر آپ یہ ٹیکس کیوں دیتے ہیں‘‘، بیٹی ہر بار یہ سوال کرتی ہے۔ جواب تو سادہ سا ہے، ذرا بات بنائیں تو حب الوطنی وغیرہ کا حوالہ دے دیا جاتا ہے۔ یا دوسرے ممالک کا، جہاں لوگ بڑی ایمانداری سے ٹیکس دیتے ہیں۔ جواب دینا آسان مگر اس کے بعد پہ در پہ سوالات کے جواب کیسے دیئے جائیں۔ وہاں تو حکومت ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ میری ایک سہیلی بتا رہی تھی کہ اس کہ بچے کی پیدائش کے وقت تمام سہولتیں حکومت کی طرف سے مفت فراہم کی گئیں۔ اس کے بچے وہاں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، مفت۔ اور اس کے سُسر اب بوڑھے ہو گئے ہیں، آپ سے تو دس برس چھوٹے ہوں گے، مگر انہیں سرکار باقاعدگی سے وظیفہ دیتی ہے۔ یہاں تو آپ کو ایسی کوئی سہولت حاصل نہیں۔ آپ کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے رہے۔ وہاں اچھی خاصی فیس تھی۔ آپ بیمار ہوئے، ممّا اتنے دن سے بیمار ہیں، آپ کے علاج پر معقول رقم خرچ ہوئی، ممّا کے علاج پہ کب سے اچھی خاصی رقم خرچ ہورہی ہے، مستقلاً۔ حکومت نے تو آپ کے علاج وغیرہ پر کچھ خرچ نہیں کیا۔ آپ تو ایک سرکاری اسپتال میں بھی خاصے دن داخل رہے، مگر وہاں آپ کا آپریشن نہیں ہو سکا، نجی اسپتال میں ہوا، جو ایک مہنگا اسپتال ہے۔اور اب شاید آپ کا دفتر علاج کے اخراجات برداشت کرتا ہے۔ مگر وہ جو ٹیکس آپ دیتے ہیں، اس کا تو کوئی بدل آپ کو نہیں ملتا۔کسی بھی قسم کا۔پھر اس کا وہی دل دکھا دینے والا سوال: تو آپ ٹیکس کیوں دیتے ہیں؟
آپ کے پاس کوئی جواب ہو تو پلیز دیدیں !!!
یا کسی کے پاس ہو تو وہ دیدے۔
تازہ ترین