• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری فوج قومی فوج ہے اور ہماری مڈل کلاس فاشسٹ نہیں ہے ۔ یہ باتیں مصر کے سابق وزیر صحت و ثقافت اور افروایشین پیپلز سالیڈیرٹی آرگنائزیشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حلمی الحدیدی بڑے فخر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کر رہے تھے ۔ گذشتہ دنوں وہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور انہوں نے ’’ جنگ ‘‘ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ۔ ہماری ڈاکٹر حلمی الحدیدی کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی ، جس میں دنیائے عرب کے حالیہ بحران اور ’’ بہار عرب ‘‘کی تحریکوں پر تفصیلی بات چیت کی گئی ۔ ڈاکٹرالحدیدی کودو عوامل کی بنیاد پر اس بات کایقین تھا کہ مصربحران سے نکل جائے گا ۔ ایک تو یہ کہ مصری فوج ایک قومی فوج ہے اوردوسرا یہ کہ مصر میں تبدیلی کی محرک مڈل کلاس کا رویہ ویسافسطائی نہیں ہے ، جس کا تجربہ تاریخ نے کیاہے۔قومی فوج کن خصوصیات کی حامل ہوتی ہے؟ اس کی وضاحت بھی ڈاکٹرالحدیدی نے بہت تفصیل کے ساتھ کی ۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری فوج میں مصر کی آبادی کے ہر گروہ اورطبقے کی نمائندگی ہے۔کسی ایک نسلی یا مذہبی گروہ کی بالادستی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ مصر کی فوج عوام کے سامنے کھڑی نہیں ہوتی ہے۔پھریہ سوال پیداہوتا ہے کہ مصر میںفوج کاسیاسی کردار نمایاں کیوںہوا؟۔اس سوال کا جواب بھی ڈاکٹرالحدیدی کے پاس موجودتھا۔ان کا کہنا یہ تھا کہ سابق صدر حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف جب تحریک شروع ہوئی تو’’اخوان المسلمین‘‘ نے اس تحریک کو اس لیے ہائی جیک کرلیاکہ تحریک کی کوئی قیادت موجود نہیں تھی۔ایک مرحلے پر اخوان المسلمین کے لوگوں نے دھمکی دی کہ اگروہ کامیاب نہ ہوئے توپورے ملک کوجلادیںگے۔جب وہ دھمکی دے رہے تھے تو ان میں ملک کو جلادینے کی صلاحیت بھی موجود تھی۔اس صورت حال میں فوج پیچھے ہٹی اور اس نے اخوان المسلمین کے لیے راستہ کھلا چھوڑدیا۔اسی طرح جب اخوان المسلمین کے رہنمااور مصر کے نئے صدر محمد مرسی نے یہ ’’صدارتی ڈگری‘‘ جاری کی کہ ان کے احکامات کوپارلیمنٹ اورعدلیہ سمیت کوئی بھی چیلنج نہیں کرسکا تومصر کے عوام ان کے خلاف کھڑے ہوگئے اور ایک دن میں قاہرہ، اسکندریہ اوردیگرشہروں اور قصبوں میں بیک وقت ساڑھے تین کروڑعوام سڑکوں پرتھے۔مصری فوج نے خانہ جنگی کے پیش نظر صدر مرسی سے کہاکہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں۔مرسی کے انکار کے بعد فوجی بغاوت ہوئی۔ڈاکٹر الحدیدی کے بقول ملک میں قیادت کے فقدان کی وجہ سے جنرل عبدالفتاح السیسی ایک متبادل لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مصر کے عوام اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ فوج ان پر حکمرانی کرے ۔ تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح مصری فوج خود بھی سیاست میں دخیل نہیں رہنا چاہتی ۔ اس کے قومی فوج ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ وہ حسنی مبارک کے خلاف بھی عوام کے ساتھ تھی اور مرسی کے خلاف بھی عوام کے ساتھ تھی ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ وہ تیسری دنیا کے بعض ممالک کے افواج کی طرح کسی ایک نسلی ، مذہبی یا فرقہ وارانہ گروہ کی پشت پناہی نہیں کرتی ہے ۔تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ عالمی سامراجی قوتوں کے کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہتی ہے ۔ مصری فوج امریکا اور اس کے اتحادیوں کے اس موقف کی تو حامی ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہئے لیکن وہ داعش کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جنگ میں شریک ہونے سے انکار کر رہی ہے کیونکہ مصری فوج یہ سمجھتی ہے کہ انتہا پسندوں کے ساتھ لڑا کر امریکا عرب ملکوں کے فوجی ادارے تباہ کرنا چاہتا ہے ۔ جب ڈاکٹر الحدیدی یہ بات کہہ رہے تھے تو میرے ذہن میں مصری فوج کے لیے ستائش کے جذبات پیدا ہو رہے تھے کیونکہ ڈالرز کو ٹھکرانا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ اپنی فوج کے قومی کردار کی وجہ سے ڈاکٹر الحدیدی پر امید تھے کہ مصر کا انقلاب مثبت طور پر بہت نتیجہ خیز ہو گا ۔ مصر کی مڈل کلاس کے بارے میں بھی ڈاکٹر الحدیدی کا موقف بالکل مختلف تھا ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ مصر کا انقلاب خالصتاً مڈل کلاس کا انقلاب ہے ۔ اس انقلاب کا محرک وہ نوجوان طبقہ ہے ، جس کے پاس روزگار بھی ہے اور اسے معاشی تحفظ بھی حاصل ہے لیکن وہ ’’ روٹی ، آزادی ، انسانی وقار اور سماجی انصاف ‘‘ کے نعرے پر باہر نکلے ۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مڈل کلاس کبھی انقلاب نہیں لاتی ہے اور تاریخ میں اس کا رویہ فسطائی اور آمریت پسندانہ ( Authoritarianist ) ہی رہا ہے لیکن مصر کی مڈل کلاس ایک مختلف قسم کی مڈل کلاس ہے ، وہ اپنے جوہر میں قوم پرست ہے ۔ اس پر اندرونی اور بیرونی اثرات نہیں ہیں ۔ سماجی علوم اور سیاسیات کے ماہرین کو اب ہماری مڈل کلاس کا از سر نو مطالعہ کرنا ہو گا ۔ یہ تاریخی اور نصابی کتب والی مڈل کلاس نہیں ہے ۔ میں نے ڈاکٹر الحدیدی کی بات کو اس تناظر میں سمجھا ہے کہ مصر کی سات ہزار سالہ پرانی تاریخ کے اثرات بہت زیادہ گہرے ہیں ۔ مصری مڈل کلاس شناخت کے بحران کا شکار نہیں ہے ۔ مصر کی ریاست نے آمرانہ حکومتوں کے باوجود لوگوں کی تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی شناخت کو کبھی بھی اپنی بقاء کے خلاف تصور نہیں کیا ۔ مصر میں حب الوطنی کے لیے کبھی اپنی شناخت سے منکر ہونے کی شرط عائد نہیں کی گئی ۔ مصر سمیت پوری عرب دنیا میں اسلام اور پان عرب ازم دو الگ الگ چیزیں رہیں ۔ اسی طرح پان عرب ازم اور ہر ملک کا نیشنل ازم بھی الگ الگ رہے ۔ انہیں کبھی خلط ملط نہیں کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے اکثر لوگ اس گمراہی کا شکار نہیں ہیں ، جس کا شکار دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی مڈل کلاس ہے ۔ مصر میں اکثریت لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ داعش ، النصر ، القاعدہ ، طالبان اور دیگر انتہا پسند اور شدت پسند تنظیمیں امریکی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں اور ان کا امریکا مخالف نام نہاد اور ظاہری کردار بھی ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان انتہا پسند تنظیموں کے خلاف توقع سے زیادہ مزاحمت بھی موجود ہے ۔ ڈاکٹر الحدیدی کو یقین تھا کہ مصر کی مڈل کلاس تیسری دنیا کے دیگر ممالک کے مڈل کلاس کی طرح انتہا پسند اور فسطائی تنظیموں کا ایندھن نہیں بنے گی ۔ ہم نے یہ محسوس کیا کہ مصری فوج اور مڈل کلاس کے بارے میں ڈاکٹر الحدیدی مثالیت پسندی کا شکار ہو رہے ہیں لہذا ہم نے ان سے براہ راست ہی یہ سوال کر ڈالا کہ ’’ کیا یہ آپ کا یوٹوپیا ہے ؟ کیونکہ تاریخ میں بڑی بڑی فسطائی تحریکوں کی محرک مڈل کلاس رہی ہے اور اب بھی جدید جمہوریت کی آڑ میں ’’ پارٹو کریسی ‘‘ کی شکل میں مڈل کلاس نئے انداز میں سامنے آ رہی ہے ۔ ‘‘ ڈاکٹر الحدیدی نے کہا کہ ’’ یہ میرا یوٹوپیا نہیں ہے بلکہ میں تاریخ کا طالب علم ہوں ۔ مصر کی مڈل کلاس کو نئے سرے سے سمجھنا ہو گا ۔ ہمارے لیے یہ بات خوشگوار حیرت اور رشک کا باعث تھی کہ کوئی شخص اپنی فوج کے قومی فوج ہونے اور اپنی مڈل کلاس کی نصابی کتابوں سے ہٹ کر خصوصیات پر فخر کر رہا تھا ۔۔۔ قومی فوج اور غیر نصابی مڈل کلاس ، یقیناً بہت بڑے فخر کی بات ہے اوریہ افتخار بہت کم قوموں کو نصیب ہے ۔
تازہ ترین