• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ رحجان قومی سیاست ہی کے لئے نہیں ، ملکی سلامتی اور یکجہتی کے بھی منافی ہے۔ اس پر جس قدر جلد ممکن ہو قابو پا لینا چاہئے۔ آگ پھیلتی چلی گئی تو بجھانا مشکل ہو جائے گا۔
لندن میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے ’’ملین مارچ‘‘کے دوران جو کچھ ہوا، اسے نرم سے نرم الفاظ میں اہل پاکستان کے لئے رسوائی اور جگ ہنسائی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آوازے کسنے ، نعرے لگانے اور ہنگامہ کھڑا کرنے والے افراد کا تعلق پاکستان کی اس جماعت سے تھا جو ایک نیا پاکستان بنانے کی دعویدار ہے اور جو اپنے آپ کو پاکستان کی بہترین قیادت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ میری مراد اس ’’تحریک انصاف ‘‘ سے ہے جو روایتی سیاسی جماعتوں اور گھسی پٹی سیاست کے اندر امید اور تبدیلی کی نئی کرن بن کر ابھری تھی۔ لیکن جس نے اپنے عمل سے اپنے نظرئیے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔اس بات کی تردید کون کرے گا کہ پاکستان کے عوام خصوصاً پڑھے لکھے طبقے کو عمران خان سے بڑی امیدیں تھیں۔ 2013 کے انتخابات میں ان امیدوں کا عملی عکس بھی نظر آیا۔ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ لئے۔ وہ تقریباً پینتیس ارکان کے بڑے گروپ کےساتھ قومی اسمبلی میں پہنچی۔ اسے خیبر پختونخوامیں اپنی حکومت قائم کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ دس گیارہ برس پہلے اس جماعت کے پاس قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست تھی۔ اتنے مختصر عرصے میں اتنی بڑی کامیابی تحریک انصاف کے نعرے اور عمران خان کی شخصیت کی کشش کا نتیجہ تھی۔ سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ اگر عمران خان نے قومی اسمبلی میں مضبوط حزب اختلاف کا سنجیدہ کردار اد اکیا اور خیبر پختونخوا میں تبدیلی کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مثالی کار کردگی دکھائی تو آنے والے انتخابات میں وہ بڑا معرکہ مارنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔عین ممکن ہے کہ وہ دونوں روایتی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ کر اقتدار کی مسند تک پہنچ جائیں اور واقعی پاکستان کو ایک’’نیا پاکستان‘‘ بنا سکیں۔
افسوس کی بات ہے کہ یہ توقعات مایوسی میں بدلتی جا رہی ہیں۔ ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جائے تو تحریک انصاف کے رہنمائوں کو اندازہ ہو گا کہ اس مایوسی کا سبب کوئی دوسرا نہیں، خود تحریک انصاف کی پالیسیاں اور ان کی قیادت کے فیصلے ہیں۔ اسلام آباد میں جاری دھرنا ان پالیسیوں کا ایک نمونہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو صورت حال کو بھانپ لیا۔ زمینی حقیقتوںکو پڑھ لیا۔ دیوار سے سر ٹکرانے اور اپنی توانائیاں ضائع کرنے کے بجائے انہوں نے دھرنا ختم کر دیا۔ اپنا پیغام گائوںگائوں ، شہر شہر پہنچانے کا اعلان کیااوراب وہ یہ پیغام پھیلانے بیرون ملک روانہ ہو چکے ہیں۔عمران خان اپنے دھرنے کے حوالے سے غوروفکر کرنے اوراپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ بد ستور وزیر اعظم کے استعفے پر بضد ہیںاور اپنی جماعت کی توانائیاں ایک ایسے کام میں جھونک رہے ہیں جو اب تک ان کیلئے بے ثمر رہا ہے۔
تحریک انصاف کی یہ حکمت عملی اسے کتنا فائدہ یا کس قدر نقصان پہنچاتی ہے ؟اس کا فیصلہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ہی ہو سکے گا ۔لیکن ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ وطن عزیز میں تحمل اور برداشت کی سیاست کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کے بڑے حصے کو اب بھی یقین ہے کہ عمران خان ہی ملک کی کشتی کو بھنور سے نکال سکتے ہیں۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری انداز میں پارٹی کا پیغام پھیلانے اور عوام میں حقیقی بیداری کیلئے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ اس کے برعکس ان کے گرم خون کو اور زیادہ گرمایا جا رہا ہے۔ان کو مشتعل کیا جا رہا ہے۔ ان کے دلوں میں دوسروں کی بات تحمل سے سننے کے بجائے ، نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے،تحریک انصاف کے کارکنوں میں یہ سوچ ابھاری جا رہی ہے کہ ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ آزاد ہیں اور وہ خودسے اختلاف کرنے والوں کے ساتھ کوئی بھی سلوک روا رکھ سکتے ہیں۔اس طرز عمل کا مظاہرہ اندرون ملک مسلسل ہو رہا ہے۔ دھرنے کے دوران جیو کا دفتر بار بار پی ٹی آئی کےکارکنوں کا نشانہ بنا۔ صحافیوں کو مارا پیٹا گیا۔ آپس میں مار دھاڑ ہوتی رہی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے ذاتی طور پر تلخ لب و لہجہ اختیار کیااور سیاسی حریفوں کیخلاف سخت زبان استعمال کی۔ اب یہ رحجان بیرون ملک بھی پہنچ گیاہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے گئے تو بھی ماضی کی ساری مثبت روایات کو نظر انداز کر کے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سارے امریکہ سے جمع ہو کر مظاہرہ کیا اور نعرہ بازی کی۔
اب تازہ ترین واقعہ لندن کے ملین مارچ میں ہلڑ بازی کا ہے۔ اس کی ساری تفصیلات اخبارات میں آچکی ہیں۔ اس ملین مارچ کا مقصد کشمیریوں کے حق خودارادیت کا وہ وعدہ یاد دلانا تھا جو عالمی برادری نے کشمیر کے عوام سے کر رکھا ہے۔اقوام متحدہ کی یہ قرار دادیں آج بھی ایجنڈے پر مو جود ہیں۔ لیکن بھارت اور اس کے حمایت کرنے والےممالک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ لندن کے ٹریفا لگر اسکوائر سے ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ تک پھیلے اس مظاہرے میں ہزاروں پاکستانیوں نے شرکت کی۔جن میں کشمیری عوام بھی بھاری تعداد میں موجودتھے۔ بھارتی لابی کے لئے یہ کوئی اچھا منظر نہ تھا لیکن ہوا یہ کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے افراد نے یہاں بھی ہلڑ بازی شروع کر دی۔ ’’گو نواز گو ‘‘ کے نعروں کیساتھ ساتھ بلاول بھٹو زرداری اور دوسرے لیڈروں کیخلاف نعرہ بازی کی۔برطانوی پولیس نے بڑی مشکل سے تصادم کو روکا۔ تھوڑی دیر کیلئے کچھ گرفتاریاں بھی کیں۔عملاً یہ ہوا کہ ایک بڑے قومی کاز کے لئے ہونے والا ایک بڑا مظاہرہ منفی خبروں کی نذر ہو گیا۔ بھارتی میڈیا نے لطف لے لے کر یہ خبریں نشر کیں اور اخبارات میں مذاق اڑایا۔ اس سے پہلے اگست میں بھی اسی طرح کے ایک واقعے نے ’’یوم آزادی ‘‘ کی اس روایتی تقریب کو خراب کر دیا تھا، جو نیو یارک کے" میڈیسن سکوائر ’’میں منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب کا ضابطہ اخلاق یہ ہے کہ تمام پاکستانی صرف پاکستان کا پرچم لے کر شریک ہوتے ہیں اور کوئی سیاسی نعرہ نہیں لگاتے۔ وہ صرف پاکستان کو اپنی پہچان بناتے ہیں۔ اس سال منعقد ہونے والی تقریب میں پی ٹی آئی کے ورکرز پارٹی جھنڈوں اور عمران خان کی تصاویر کیساتھ شریک ہوئے۔ ایک فلوٹ پر قبضہ کر لیا اور اچھی بھلی تقریب میں بد مزگی پیدا کر دی۔
پی ٹی آئی کی قیادت بالخصوص عمران خان کو بلا تا خیر اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہئے۔ ان کی جماعت کےساتھ اب بھی عوام کو خاصی توقعات وابستہ ہیں۔پیپلز پارٹی اپنی ناقص کار کردگی کے باعث بڑی حد تک مقبولیت کھو چکی ہے۔مسلم لیگ (ن) بھی عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ خیبر پختونخوا ، پنجاب اور کسی حد تک شہری سندھ میں پی ٹی آئی کا بڑا ووٹ بنک موجود ہے۔ اس ’’بنک‘‘ کو کیش کرانے کی حکمت عملی یہی ہے کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ میں موجود رہتے ہوئے حکومت کی گرفت کرے، تبدیلی کا واضح پروگرام سامنے لائے اور خیبر پختونخوا میں ایک ایسی مثالی حکومت قائم کرے جسے ’’نئے پاکستان ‘‘ کا نمونہ قرار دیا جا سکے۔ ایسا یقیناً ممکن ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہوگا کہ تحریک انصاف اشتعال ، عدم برداشت، جذباتیت اور احتجاجی سیاست کا راستہ چھوڑ کر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ۔ اسے اس خوش فہمی سے بھی نکلنا ہو گا کہ سارے تعلیم یافتہ نوجوان اس کےساتھ ہیں۔2013کے انتخابات میں اگر 38فیصد گریجویٹس نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تو 37 فیصدنے مسلم لیگ (ن) اور25فیصد نے دیگر جماعتوں کو بھی دیا۔ اگر پی ٹی آئی نے اس صورتحال کا جائزہ لیکر اپنے ووٹ بنک کو سمیٹے اور اس میں اضافہ کرنے پر توجہ نہ دی تو یہ صرف عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے ہی نہیں، ان لو گوں کے لئے بھی المیہ ہو گا جو واقعی تبدیلی اور نئے پاکستان کی آرزو لئے بیٹھے ہیں۔
تازہ ترین