• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی جنتا پارٹی کی طرف سے پرانے اور منجھے ہوئے سیاستدان ایل کے ایڈوانی کی بجائے نریندرمودی کو وزیراعظم نامزد کرنے اور کامیاب کروانے میں بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر نے اہم کردارادا کیا ۔ بھارت کے بڑے کاروباری گروپ ریلائنس ، ٹاٹا اور برلا سمیت دیگر کئی کاروباری ادارے مودی کے پیچھے کھڑے تھے ۔ مودی کی انتخابی مہم پر کم و بیش 60 ارب روپے خرچ ہوئے یہ تمام سرمایہ کاری بھی انہی گروپوں نے کی ۔ مودی کی الیکشن مہم کے دوران مودی کے گجرات میں دس سالہ دور میں ہونے والی اقتصادی ترقی کو بنیاد بنایا گیا ۔ جو بڑے گروپ نریندرمودی کی انتخابی مہم میں سرمایہ کاری کر رہے تھے وہ بھارت کی تجارت کو پاکستان اور اس کے راستے افغانستان، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان بڑے گروپوں کو یہ توقع تھی کہ مودی وزیراعظم بننے کے بعد بھارت میں تجارتی مواقع میں اضافہ کریں گے اور گجرات کی طرح بھارت کو کارپوریٹ بھارت بنائیں گے اور یہی بات نریندرمودی کی انتخابی مہم میں سب سے زیادہ استعمال بھی کی گئی ۔
بھارت کے بڑے بڑے تجارتی گروپ جوبزنس میں چین کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک سے تنازعات ختم کئے بغیر چین سے مقابلہ ممکن نہیں کیونکہ پائیدار امن کے بغیر تجارت کو بڑھانا ممکن نہیں۔ مودی کی گجرات میں کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے ان تجارتی گروپوں کا خیال تھا کہ بی جے پی کے سخت گیرلیڈر تجارت بڑھانے کیلئے ہمسایوں سے تنازعات ختم کرنے میں کردارادا کریں گے اور امن کا ایک نیا دور بھارت میں اقتصادی ترقی لائے گا اور اس کی تجارت وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیل جائے گی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھاری اکثریت سے کامیابی خطے میں گیم چینجر کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ بھارتی دانشور اور تھنک ٹینک یہ توقع کر رہے تھے کہ ملک اب کارپوریٹ بھارت بنے گا ۔عام آدمی کیلئے روزگار کے مواقع بڑھیں گے ۔ اندرونی اور بیرونی تنازعات جلد حل ہوں گے۔
مودی کے حامی چند ماہ بعد ہی مودی کی کارکردگی دیکھ کر مایوس ہونے لگے کیونکہ توقعات کے برعکس مودی سرکار بھارت کو کارپوریٹ کی بجائے اکھنڈ بھارت بنانے کی ڈگر پر چل پڑی جس کا ثبوت انتہا پسند تنظیم آرایس ایس کے سربراہ کی تقریرسرکاری ٹی وی پر براہ راست دکھانا ہے ۔ یہ بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ دور درشن پران کی تقریر براہ راست نشر کی گئی۔ اس بات کو کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ بھارت کی موجودہ صورتحال اور مودی سرکاری کی پالیسیوں سے بھارت کا کاروباری طبقہ پریشانی اور مسلمان خوف کا شکار ہونے لگے ہیں۔ حالیہ الیکشن میں لوک سبھا میں مسلمان ارکان کی گزشتہ تعداد جو 30تھی کم ہو کر22 رہ گئی ہے جبکہ لوک سبھا 545 ارکان پر مشتمل ہے۔
بھارت میں 2001ء کو ہونے والی مردم شماری کے مطابق ہندوئوں کی کل آبادی82 کروڑ75 لاکھ سے زائد تھی جو کل آبادی کا80.5 فیصد بنتی ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی صرف 13 کروڑ 81 لاکھ بتائی گئی جو کل آبادی کا صرف13.4 فیصد بنتی ہے۔ حال ہی میں کلکتہ ہائیکورٹ کے سابق جج اے ایم یونس نے ایک پرائیویٹ سروے کی بنیاد پرکہا ہے کہ مسلمان بھارت کی کُل آبادی کا30 فیصد سے زائد ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ بھارت سرکار خود یہ تسلیم کرتی ہے کہ بھارت میں آزادی سے اب تک مسلمان بچوں کی پیدائش کے تناسب میں سب سے آگے ہیں لیکن مسلمانوں کو سازش کے تحت مردم شماری میں کم ظاہر کیا جاتا ہے تاکہ انہیں سیاست میں کمزوررکھا جا سکے اور اسمبلیوں میں مسلمان ارکان کی تعداد کو محدود کیا جاسکے ۔ گجرات کے فسادات کے باعث مسلمان پہلے ہی مودی کے اقتدار میں آنے سے خوفزدہ تھے ۔ دوسری طرف حالیہ سیلاب کے بعد مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے حکومتی سطح پر جس طرح کا سلوک کیا گیا اس سے مسلمانوں کا خوف مزید بڑھ گیا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا اور یہاں تک کہ بھارتی میڈیا نے بھی یہ بات رپورٹ کی کہ مقبوضہ کشمیر میں امداد صرف ہندو پنڈتوں تک پہنچائی گئی اور مسلمان اکثریت کو نظر انداز کر دیا گیا ۔ مقبوضہ کشمیر میں اس زیادتی پرمسلمانوں کا غم و غصہ دیکھتے ہوئے مودی سرکار نے سیلاب کا بہانہ بنایا اور وہاں ریاستی الیکشن کو ملتوی کردیا ۔ نریندر مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر نہ صرف بی جے پی کے سنجیدہ حلقے پریشان ہیں بلکہ چند سابق بھارتی جرنیل ، دانشور اور میڈیا یہ بات کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ مودی سرکار کی پالیسیوں کے باعث بھارت میں انتشار بڑھ رہا ہے ۔ اقلیتیں اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھنے لگی ہیں اس صورتحال کے نتیجے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ بھارت کے شورش زدہ علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکیں زور پکڑیں گی ۔
تازہ ترین