• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی پیدائش اگر چہ جمہوری عمل سے ہوئی لیکن روز اول سے یہاں جمہوریت پنپ سکی نہ تقدس حاصل کرسکی۔ یہاں سیاست کو اگر گالی بنا کر پیش کیا گیا تو منتخب پارلیمان کا گلا دبایا جاتارہا۔ یہاں چار مرتبہ براہ راست طویل دورانیے کی فوجی حکومتیں قائم رہیں تو بظاہر جمہوری دکھائی دینے والے ادوار میں بھی بالواسطہ اصل اتھارٹی غیرجمہوری قوتوں کے غیر مرئی ہاتھوں میں مرتکزرہی۔ کمزور جمہوری حکومتوں سے ڈھٹائی کے ساتھ یہ منوایا جاتارہا کہ مملکت کی خارجہ پالیسی ہویا دفاعی امور و معاملات اگر تم نے کسی نوع کی چھیڑ خانی کی تو 440 وولٹ کی ننگی تاروں کو چھونے کا انجام خود ہی جان لو۔ نتیجتاً یہاں وزرائے اعظم ہمیشہ بیچارے ہی رہے جنہوں نے عوامی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے لاچارگی سے نکلنا چاہا آئین اور جمہوریت کے نعروں میں خود کو عوامی قائد خیال کیا ان کا جو انجام ہوا وہ ہم سب پر واضح ہے۔ ہمیں زرداری پر غصہ تھا کہ وہ جمہوریت کی تذلیل کرواتے ہوئے غیرجمہوری قوتوں کے سامنے سجدہ ریز کیوں ہوگئے؟ ہمیں نواز شریف سے امیدیں تھیں کہ وہ جینوئن لیڈر ہیں اپنے بازو کی قوت یا اپنی عوامی پاپولرٹی کے زور سے تیسری مرتبہ ابھرے ہیں دختر مشرق اور ان کے والدمرحوم کی طرح عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتےہوئے جمہور کی طاقت منوائیں گے۔ جس ڈکٹیٹر نے منتخب پارلیمنٹ کا گلا دباتے ہوئے دو مرتبہ آئین شکنی کی اسے قانون کے شکنجے میں لائیں گے۔ بھارت دشمنی کا پروپیگنڈہ ختم کرتے ہوئے قومی تعمیر و ترقی کے حقیقی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر دکھائیں گے۔ وطن عزیز کی خارجہ پالیسی ہویادفاعی امور و معاملات فیصلے عوامی امنگوں کے ترجمان ادارے پارلیمنٹ میں عالمی برادری کی مطابقت اور ملک و قوم کے دیرپا وحقیقی مفاد میں کئے جائیں گے اب مملکت پاکستان سے جبرو دھونس کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگا ،حریت فکر اور آزادی اظہار کی اعلیٰ اقدار و روایات کو نئی زندگی و تابندگی میسر آئے گی۔ مگر ہوا کیا…
طریق کو ہکن میں بھی وی حیلے ہیں پرویزی
نواز شریفآ کے بیٹھے ہی تھے کہ نکالے جانے کی تدابیر زور و شورسے شروع ہوگئیں۔ ایک سالہ سوچ بچار کا نتیجہ یوں برآمد ہوا کہ سارے بانس الٹے بریلی کو نہیں اسلام آباد کو سیدھے کر دیئے گئے۔اس کے بعد جو ہوا اور جس جس نے کیا کیا اس کی تمام تر تفصیلات پاکستانی سیاست کے ازلی و ابدی باغی نے بیچ چوراہے کے بھانڈا پھوڑ کرنپے تلے حروف میں بیان کردی دھرنے بازوں کا بنایا ہوا سارا مصنوعی ٹمپو پنکچرکردیا اور اب اس باغی کو داغی قرار دیا جارہا ہے۔ جو آپ کی حمایت کرے وہ وقت کا افلاطون قرار پائے اور جو آپ پر تنقید کرے وہ ناقابل اعتبار ٹھہرے۔ کیا یہی آپ کے نئے پاکستان میں میرٹ کا پیمانہ ہے؟ پروپیگنڈے کے زور سے حقائق کا منہ چڑایا جارہاہے۔ اسلام آباد کے Dچوک میں دھاندلی دھاندلی کا شور مچا کر جو کھیل کھیلاگیا ہے؛ اس کی اصلیت سب پرواضح ہوچکی ہے جب آپ مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت میں ہلکان ہورہے تھے اس وقت توآپ کو کہیں دھاندلی نظرآئی نہ فرشتے دکھائی دئیے؟ مشرف کے دونوں انتخابات میں دونوں بڑی پارٹیوں کو اقتدار سے محروم رکھنے کیلئے دھاندلی کے جو جو جتن کئے گئے وہ تو کہیں آپ کو نظر نہ آئے جبکہ حالیہ انتخابات نواز شریف نے کروائے ہیں نہ مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی نے۔ ایک غیر جانبدارعبوری سیٹ اپ پربھی آپ کو اعتماد نہیں تھا تو آپ الیکشن کا بائیکاٹ کردیتے کس نے روکا تھاآپ کو؟ انتخابی نتائج آنے کے بعد جب آپ کی تمنائیں پوری نہیں ہوئی تھیں تبھی آپ حلف اٹھانے اسمبلیوں میں نہ جاتے اگر آپ میں دم خم تھا تو فوری احتجاجی تحریک شروع کردیتے۔ حلف اٹھانے سے لے کر تمام مراعات و مفادات وصول کرتے ہوئے ایک صوبے میں حکومت بنانے اور ایک سال ناکام چلانے تک تو سسٹم ٹھیک تھااپنی گنی چنی شکایات پر آپ الیکشن ٹربیونلزاور عدالتوں میں بھی گئے ہوئے تھے اس کے بعد آپ کے باغی واضح کرچکے ہیں کہ کن مخصوص اشاروں پر آپ نے یہ سمجھ لیا کہ اب بس ایمپائرکی انگلی اٹھنے والی ہے۔ نہیں اٹھی تو پھر ایمپائر کو کوسیں۔ اگر آپ اپنے تئیں گرے ہیں تو اس میں غصہ والی کونسی بات ہے؟ہماری گئی گزری سیاست میں بھی ایک نوع کی وضع داری تھی ایک لحاظ ایک وقاراور ایک احترام تھا،سیاسی اناڑی پن میں آپ سب کچھ ختم کرتے جارہے ہیں سوسائٹی میں بد تہذیبی کو پرموٹ کیا جارہا ہے۔جہاں تک دھاندلی کے الزامات ہیں ہم نے ان پر بہت غور کیا ہے۔انفرادی سطح تک جس کا جہاں زور چلتا ہے یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے کہ کم کوئی نہیں کرتا آپ کی پارٹی میں سارے فرشتے ہیں۔ نہ دوسری پارٹیوں میں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی مخصوص منصوبہ بندی کے تحت کسی مخصوص پارٹی کو جتوانے کیلئے قومی یا صوبائی سطح کی کوئی دھاندلی ہوئی؟ کم از کم 2013کے الیکشن میں تو ایں خیال است ومحال است و جنوں والی بات ہے۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ دہشت گردوں نے خود کش حملوں کے ذریعے وطن عزیز کی لبرل سیکولر پارٹیوں کی انتخابی مہم چلانے کے لئے تمام راہیں مسدود کردیں نتیجتاً وہ اپنے ووٹروں تک نہیں پہنچ سکتے تھے جس سے سب سے زیادہ مستفید PTI ہوئی تھی اور سب سے زیادہ نقصان PPاور ANPکو پہنچا دھاندلی کے حوالے سے یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ آپ کا اور آپ کے جذباتی کارکنان کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس میں کسی حد تک قصور میڈیا اور بالخصوص سستی شہرت کے طالب تجزیہ کاروں کا بھی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ووٹ بنک اور حقیقی عوامی پاپولرٹی کے لحاظ سے PTIکی حیثیت الیکشن 2013سے قبل دوسرے درجے کی بھی نہ تھی اور آج بھی نہیں ہے۔ بالخصوص ملک کے دیہی خطے میں PTIکیا خود عمران خان کی مقبولیت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے۔
تازہ ترین