• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزانہ یہ خبریں شائع اور نشر ہو رہی ہیں کہ تھر میں بچے ہلاک ہو رہے ہیں ۔ میڈیا اور سماجی تنظیموں کا خیال یہ ہے کہ بچے غذائی قلت سے ہلاک ہو رہے ہیں جبکہ حکومت سندھ کا موقف یہ ہے کہ یہ بچے غذائی قلت کی وجہ سے نہیں بلکہ انہی اسباب کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں ، کے باعث کراچی ، لاہور اور ملک کے دیگر شہروں اور علاقوں میں بچوں کی اموات ہو رہی ہیں لیکن حکومت سندھ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ تھر میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے ۔ حکومت یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ تھر میں پانچ سال سے زیادہ عمر کے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں ۔ اگرچہ بھوک کی وجہ سے کوئی نہیں مرتا ہے لیکن حکومت کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ غربت کے باعث وہاں شرح اموات زیادہ ہے ۔ یہ تھر بھی سندھ اور پاکستان کا حصہ ہے ۔ پاکستان کے اور بھی علاقے ہیں ، جہاں تھر جیسی صورتحال ہے ۔ پنجاب کے علاقے چولستان ( روہی ) میں بھی حالات تھر سے مختلف نہیں ہیں ۔ یہ چولستان بھی اسی صحرائے تھر کا حصہ ہے ، جو بھارت تک پھیلا ہوا ہے لیکن بھارت والے صحرائے تھر میں صورت حال بہت مختلف ہے ۔ وہاں سے کبھی یہ خبر نہیں آئی کہ قحط سالی یا خشک سالی کی وجہ سے لوگوں نے نقل مکانی کی ہو یا غذائی قلت اور بیماریوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر وہاں اموات ہوئی ہوں ۔ بس اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
تھر جیسی صورت حال ’’ اچھی حکمرانی ‘‘ ( Good Governance ) نہ ہونے کا منطقی نتیجہ ہے ۔ جن ملکوں میں اختیارات کی مرکزیت ہو ، وہاں اچھی حکمرانی ممکن ہی نہیںہے ۔ اختیارات کی عدم مرکزیت کیلئے ضروری ہے کہ چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹ بنا کر انہیں زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے۔ جہاں ضرورت سے زیادہ بڑے صوبے یا ریاستیں ہوتی ہیں ، وہاں دور دراز کے علاقوں میں تھر جیسی صورت حال ہی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر سارے فیصلے اسلام آباد ، کراچی ، لاہور ، کوئٹہ اور پشاور میں ہوں گے تو تھر کیساتھ ساتھ روہی ، راجن پور ، کشمور ، بارکھان ، ڈیرہ بگٹی ، دالبندین اور ٹانک سمیت کئی علاقے پسماندہ ہی رہیں گے ۔ ایسے بے شمار علاقوں کو ترقیاتی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کیلئے اچھی حکمرانی کا ہونا ضروری ہے ۔ اچھی حکمرانی کیلئے ضروری ہے کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں صوبوں کی ازسر نو تشکیل اور تنظیم کی جائے اور لوکل گورنمنٹ بنائی جائے۔
میں یہاں نہ تو مہاجر صوبے کی وکالت کر رہا ہوں اور نہ ہی سرائیکی صوبے کی بات کر رہا ہوں اور نہ ہی سندھ یا پنجاب کی تقسیم کی بات کر رہا ہوں۔۔ میرا موضوع اچھی حکمرانی ہے۔ اچھی حکمرانی او ر عام آدمی کی فلاح کیلئے صوبوں کی ازسر نو تشکیل لازمی ہے ۔ اچھی حکمرانی پوری دنیا میں ایک اہم مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ ہمارے ہاں ایک اور مسئلہ بھی سنگین نوعیت کا ہے کہ ہم چیزوں کو بہت جذباتی انداز میں دیکھتے ہیں اور ہر معاملے کو کبھی سیاسی ، کبھی قومی اور کبھی مذہبی مسئلہ بنا لیتے ہیں ۔ معقولیت کا سہارا نہیں لیتے ہیں ۔ ویسے ہر نئی چیز کی مزاحمت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں طویل عرصے تک جمہوریت کو ملک کی بقاء کے لئے خطرہ قرار دیا جاتا رہا لیکن جو لوگ آگے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور تاریخ کا ادراک رکھتے ہیں ، وہ ارتقاء اور تبدیلی کے عمل کو تقویت پہنچاتے ہیں اور اسے آگے بڑھاتے ہیں ۔ پاکستان میں اچھی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کے اسباب پر بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا ۔ ہم نے جمہوریت کو ایک سیاسی مسئلہ سمجھ رکھا ہے ۔ ہماری دانست میں الیکشن ہو گیا تو اس کا مطلب جمہوریت مکمل ہو گئی لیکن ہم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ مختلف جمہوری حکومتوں کے قیام کے باوجود جمہوریت کے ثمرات غریب لوگوں کو اس طرح نہیں پہنچے ہیں، جس طرح پہنچنے چاہئیں ۔ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے لئے ایک بھرپور تحریک چلی تھی ۔ قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ کے خلاف بھی پاکستان کے مختلف صوبوں خصوصاً سندھ میں ایک بڑی تحریک چلی تھی ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے ، جب شہید ذوالفقار علی بھٹو پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ رہے تھے ، انہوں نے حیدر آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر صوبے بحال کر دینگے ۔ پاکستان میں صوبائی خود مختاری کے حصول کیلئے بھی پورے پاکستان کے عوام نے طویل جدوجہد کی تھی ۔ 1973ء کے دستور میں کچھ صوبائی خود مختاری ملی اور 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ صوبائی خود مختاری سے متعلق صوبوں کے زیادہ تر مطالبات پورے کر دیئے گئے ۔ اب مزید خود مختاری کی بات ہو رہی ہے ۔ بمبئی سے علیحدگی کی تحریک ہو یا ون یونٹ کے خلاف تحریک ہو یا صوبائی خود مختاری کے لئے جدوجہد ہو ، ان سب کا مقصد یہی تھا کہ اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں ۔ صوبے اپنی ضرورتوں کے مطابق بہتر منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور وسائل کا بہتر طور پر استعمال کر سکتے ہیں ۔ اب آبادی بڑھنے کے بعد پھر سے یہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ موجودہ صوبے اپنی آبادی اور رقبے کا انتظام اسی طرح نہیں سنبھال پا رہے ہیں ، جس طرح ایک زمانے میں وفاقی حکومت کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ انتظام نہیں سنبھال سکتی ہے ۔
ایک بار پھر یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں لسانی یا نسلی بنیاد پر نئے صوبوں کی بات نہیں کر رہا ۔ میں صرف اچھی حکمرانی کے لئے ضرورت کے مطابق انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی از سر نو تشکیل کو ضروری سمجھتا ہوں ۔ ہم نے قیام پاکستان کے بعد اور خاص طور پر پچھلے پانچ سالوں میں سندھ ‘ پنجاب میں خاص طور پر نئے ڈویژن اور اضلاع بنائے ہیں ۔ ان کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کے لئے زیادہ دور نہ جانا پڑے لیکن اضلاع یا ڈویژن کے پاس فیصلہ سازی اور منصوبہ سازی کا اختیار نہیں ہوتا ۔ یہ اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس ہوتا ہے ۔ اگر صوبائی حکومتیں بہت زیادہ اضلاع کے بارے میں فیصلہ کریں گی تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سب اضلاع کی ضرورتوں کو مد نظر رکھا جا سکے اور پھر عوام نہیں بلکہ بیورکریسی کرے گی... اس بات کا سیاست دانوں کو بھی احساس ہو چکا ہے کہ اب بڑے صوبوں کو انتظامی طور پر چلانا ممکن نہیں رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب اسمبلی نے خود قرار داد منظور کر کے پنجاب میں مزید دو صوبے بنانے کا مطالبہ کیا ۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کے سیاست دان بھی اپنے صوبے میں مزید صوبے بنانے کے حق میں ہیں ۔ بلوچستان کے سیاست دان بھی شعوری طور پر بلوچستان میں دو صوبوں کے قیام کی بات کر رہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست دانوں میں یہ ادراک پیدا ہو چکا ہے کہ بڑے یونٹس میں مسائل حل نہیں ہو سکتے ۔ پوری دنیا میں اختیارات کی عدم مرکزیت ہو رہی ہے اور اسے اچھی حکمرانی کے لئے جزو لاینفک تصور کیا جاتا ہے ۔ ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم اپنے ارد گرد کے ممالک کی مثالوں کو سامنے رکھ سکتے ہیں ۔ بھارت میں تقسیم کے وقت 14 صوبے تھے ۔ اب وہاں 35 صوبے ہیں ۔ افغانستان کی آبادی ہماری آبادی کے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے لیکن وہاں 34 صوبے ہیں ۔ انڈونیشیا کی آبادی اگرچہ ہم سے زیادہ ہے لیکن وہاں 33صوبے ہیں ۔ ایران کی آبادی ہماری آبادی کی نصف سے بھی کم ہے لیکن وہاں 30 صوبے ہیں ۔ اسی طرح شمالی کوریا کے 17 اور جنوبی کوریا کے 9 صوبے ہیں ۔ مالدیپ کی آبادی صرف ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن وہاں 19 صوبے ہیں ۔ دنیا کے تقریباً 200 ممالک میں سے صرف 25 ممالک ایسے ہیں ، جن میں پاکستان سے کم صوبے ہیں لیکن وہاں کی آبادیاں ہمارے لاہور یا کراچی جیسے شہر سے بھی کم ہیں ۔ ہمیں اپنے مسائل حل کرنے کیلئے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ۔ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ نئے انتظامی صوبے بننے سے پاکستان کے قومیتی اور لسانی گروہ تقسیم ہو جائینگے اور ان کا تشخص ختم ہو جائیگا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ افغانستان میں پشتو کئی صوبوں میں بولی جاتی ہے ۔ اسی طرح فارسی ، ازبک ، تاجک ، ترکی اور بلوچی بھی کئی کئی صوبوں میں بولی جاتی ہے ۔ بنگلہ دیش میں 98 فیصد لوگ بنگالی بولتے ہیں اور بنگلہ دیش میں 6 صوبے ہیں ۔ اگر صوبوں کی تشکیل غیر آئینی ہوتی یا غلط ہوتا تو ذوالفقار علی بھٹو‘ خان عبدالولی خان‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ مفتی محمود‘ غوث بخش بزنجو جیسے لوگ آئین بناتے وقت صوبوں کی تشکیل کو آئین میں شامل نہ کرتے۔
پنجاب اسمبلی نے جب جنوبی پنجاب کے دو صوبے بنانے کی قرار داد منظور کی تو کچھ سرائیکی قوم پرستوں نے یہ سمجھا کہ سرائیکیوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے لیکن کچھ قوم پرستوں کا یہ بھی خیال تھا کہ جنوبی پنجاب کے دو صوبے قبول کر لئے جائیں کیونکہ دو صوبوں میں سرائیکی بولنے والوں کی اکثریت ہو گی اور وفاق سے دو حصے ملیں گے ۔ ہم اپنے مفادات سے ہٹ کر وسیع تر عوامی مفاد کا سوچیں تو نئے انتظامی صوبوں کے خلاف جذباتی باتوں کے علاوہ اب تک کوئی دلائل نہیں آئے ہیں ۔ میری دانست میں اس وقت نئے انتظامی صوبوں کے قیام کے لئے ڈھائی سے تین کروڑ کی آبادی کا معیار مقرر کیا جائے تو لوگذ نئے انتظامی صوبوں کو تسلیم کر لیں گے ۔ اس طرح سے پاکستان میں کم از کم 10سے12صوبے بنائے جا سکتے ہیں ۔
تازہ ترین