• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ سال ستمبر میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے صدر آصف علی زرداری کو رخصت کرنے کے لئے الوداعی عشائیہ دیا تھا تو ان کی فہم و فراست،معاملہ فہمی اور بطور صدر، امور سلطنت چلانے کے انداز کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ جس صدر آصف علی زرداری کو وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف چالیس چوروں کا ساتھی علی بابا قرار دیتے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے اعلانات کرتے رہے اسی سیاسی حریف کے بارے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ، وہ کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ آصف زرداری صاحب نے ملکی سیاست میں گرمجوشی،ذاتی تعلق،اپنائیت اور سماجی رشتوں کو نہایت عمدگی سے رواج دیا۔ انہوں نے نہ صرف مفاہمت کے نظرئیے کو متعارف کرایا بلکہ کامیابی سے پروان بھی چڑھایا۔بطور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے سخت سیاسی مخالف کے بارے میں اس فراخ دلی کا اظہار کر کے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ 14 مئی 2006 کو لندن میں طے کردہ میثاق جمہوریت پر پوری طرح کاربند ہیں۔ گیارہ مئی کے عام انتخابات کے بعد عنان اقتدار سنھالنے والے میاں نواز شریف نےاسی مفاہمتی نظرئیے کو آگے بڑھاتے ہوئے اتحادی جماعتوں کی مدد سے عددی اکثریت رکھنے کے باوجود بلوچستان میں حکومت سازی کا اختیار بلوچ قوم پرستوں کو دے دیا۔ بے رحمانہ سیاست کے کھیل میں اپنی باری کسی اور کو دینے پر اگرچہ ثناء اللہ زہری اور بلوچستان ن لیگ کے دیگر رہنماء آج بھی تحفظات اور اختلافات رکھتے ہیں لیکن ملک کے وسیع تر مفاد میں پارٹی قیادت نے ایسے تمام گلے شکووں کو نظر انداز کر دیا۔ خیبر پختونخوا میں بھی صوبائی حکومت سازی کا موقع ملنے کے باوجود میاں نواز شریف نے اقتدار پاکستان تحریک انصاف کو سونپ کر ملکی سیاست میں نئے رجحانات کی داغ بیل ڈالی۔ اس عمل سے بھی انہیں باز رکھنے کے لئے ان کے دیرینہ ساتھی مولانا فضل الرحمٰن نے بھرپور کوشش کی لیکن میاں صاحب نے پکڑائی نہ دی۔پیپلز پارٹی کے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سنہرا موقع بھی یہ کہہ کر گنوا دیا کہ عوام نے جس کو مینڈیٹ دیا ہے وہ آئینی مدت پوری کرے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن صرف ڈیڑھ سال میں ہی میاں نواز شریف کی حکومت کو احتجاج اور دھرنوں کی صورت میں بد ترین سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت تو بچ گئی لیکن وہ بدستور آکسیجن پر ہے۔کل تک جو اپوزیشن رہنما پارلیمنٹ اور جمہوریت کو بچانے کے لئے میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑے دھرنوں پر سخت تنقید کر رہے تھے آج خود پارلیمنٹ کے احاطے میں حکومت کے خلاف دھرنا دے رہے ہیں۔ حالات کے اس نہج پر پہنچنے میں یقینا بہت سے عوامل کارفرما ہیں تاہم بر وقت فیصلہ سازی کی کمی،وزراء کا خود سری پر مبنی رویہ ، عوام کے نمائندہ ادارے پارلیمنٹ کو اہمیت نہ دینا اور سب سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کو انگیج کرنے کی بجائے جارحانہ طرز عمل اختیار کرنا ایسی غلطیاں ہیں جو حکومت کے لئے ہر آنے والے دن کو مزید مشکل بنا رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں وزراء کے طرز عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یا تو مسلم لیگ ن بدستور اپوزیشن میں ہے یا پھر اس کے سینئر ترین رہنما بھی سیاست بھول چکے ہیں۔ گزشتہ سال وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے روئیے کی وجہ سے متحدہ اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ کے احاطے میں سینیٹ کا متوازی اجلاس منعقد کیا تھا۔ گزشتہ دنوں ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان کی چوہدری اعتزاز احسن کے ساتھ تلخ کلامی تو اس حد تک بڑھی کہ وزیر اعظم کو سب کے کے سامنے کے معذرت کرنا پڑی تھی۔اب ایک بار پھر چوہدری نثار کو ہی ہدف تنقید بناتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سخت احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے احاطے میں دھرنا بھی دے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بار اتنا قصور وزیر داخلہ کا نہیں تھا بلکہ اندر کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر وزیر داخلہ سے اس لئے ناراض ہیں کہ وہ ماضی کے کچھ کرپشن اسکینڈلوں کی تحقیقات شروع کرانا چاہتے ہیں تاہم وزیر اعظم نظریۂ ضرورت کے تحت انہیں روکے ہوئے ہیں۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد بھی اپنے طنزیہ جملوں سے سینیٹرز کو مشتعل کر چکے ہیں۔ ن لیگی حکومت کی شان بے اعتنائی کا عالم یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن علامتی واک آؤٹ کرتی ہے تو وزراء اپنے بے لچک اور جارحانہ روئیے کی وجہ سے اسے دو قدم آگے بڑھ کر بائیکاٹ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اپوزیشن کو منانے کی کوشش بھی اس بے دلی سے کی جاتی ہے کہ بجائے سینئر وزراء صلح جوئی کا کام کریں، ایک بے ضرر وزیر مملکت شیخ آفتاب اور دو تین گمنام ارکان کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت یہ بھی بھول چکی ہے کہ اپنے دور اپوزیشن میں اس نے ججوں کی بحالی کے لانگ مارچ سے لے کر لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے خلاف احتجاجی مارچ بھی کیا تھا۔ لیکن اس وقت صدر زرداری سے لے وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے وزراء کے ما تھوں پر شکنیں بھی نمودار نہیں ہوئی تھیں۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو یہ باور ہونا چاہئے کہ پارلیمانی سیاست میں اپوزیشن کا کام ہی مختلف ایشوز پر حکومت کی مخالفت کرنا ہوتا ہے۔اگر وہ عوامی اور قومی اہمیت کے معاملات کو ایکسپلائیٹ نہیں کرے گی تو بطور اپوزیشن وہ اپنا وجود کیسے زندہ رکھ سکتی ہے۔ جب جمہوریت اور پارلیمنٹ کو طاقت فراہم کرنے کا وقت تھا تب اسی اپوزیشن نے حکومت کو کندھا فراہم کیا تھا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپوزیشن کی ہر تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے نہ کہ محاذ آرائی کا وتیرہ جاری رکھتے ہوئے اسے بھی ایوان سے باہر احتجاج کرنے پر مجبور کرے۔ یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ اپوزیشن تو درکنار ن لیگی وزراء کے بے حس روئیے کی وجہ سے حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمٰن بھی نالاں ہیں۔ کیوں کہ حالیہ خود کش حملے کے بعد وزیر داخلہ سمیت کچھ وزراء نے ٹیلی فون پر بھی ان کی خیریت دریافت کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ یہی فرق ہے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی سیاست میں کہ انہوں نے اپنے بد ترین سیاسی مخالفین کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ان کو مخلوط حکومت کا حصہ بنا دیا تھا جبکہ موجودہ حکومت اپنے آمرانہ روئیے کی وجہ سے اتحادیوں کو بھی کھونے پر تلی ہوئی ہے۔وزیر اعظم میاں نوازشریف جو آج کل اپنی ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں انہیں چاہئے کہ کابینہ ارکان کو ساتھ بٹھائیں،سوچیں کہ حالیہ سیاسی بحران اور غلطیوں سے انہوں نے کچھ سیکھا ہے یا جس مفاہمتی سیاست سے انہوں نے اپنے حالیہ دور اقتدار کا آغاز کیا تھا وہ اور ان کے ساتھی وہ سیاست بھی بھول گئے ہیں۔ شہید بے نظیر بھٹو نے اپنی المناک موت سے چند دن قبل لکھی کتاب۔ ری کنسیلی ایشن۔۔میں مایہ ناز پلے رائٹر ویلیم کونگریو کے پلے...وے آف دی ورلڈ....کے یہ مکالمے شامل کئے ہیں....آپ جانتے ہو،وہ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کو بچا رہے ہیں،آپ سمجھتے ہو کہ آپ انہیں بچا رہے ہیں،یہی سے مشکلات کا آغاز ہوتا ہے،حقیقت میں ہم سب ایک دوسرے کو بچاتے ہیں،یہی دنیا کی ریت ہے،چیزیں اسی وقت ہی بہترین انداز میں درست ہوتی ہیں جب ہم سب مل کر انہیں ٹھیک کرتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کو بچاتے ہیں۔:
تازہ ترین