• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرکار کو اس وقت جو وقفہ میسر آیا ہے اس میں وہ عوام کے لئے بہت کچھ کرسکتی ہے۔ اس میں سب سے اہم معاملہ نوکر شاہی کے روپ اور سلوک کا ہے، نوکر شاہی عوام کو کسی طور خاطر میں نہیں لاتی۔ بجلی کے بلوں پر عوامی ردعمل آپ کے سامنے ہے پھر وزیر اعظم جناب نواز شریف کی مداخلت سے اس پر توجہ دی گئی اور ایک کمیٹی بھی بنی، مگر بجلی کے بڑے وزیر صاحب جو نوکر شاہی پر بہت ہی تکیہ فرماتے ہیں وہ اس معاملہ میں عوام کی فریاد سننے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا جبکہ بجلی آتی نہیں اور بلوں کی رقوم میں مسلسل میں اضافہ ہورہا ہے پھر اس کا جواز بھی بڑا ہی بودا سا ہے۔ اصل میں سرکار اور اس کے اہلکار یہ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ یہ سب فساد آئی ایم ایف کے قرضے اور ورلڈ بنک کی مشاورت کے کارن ہے۔ یہ دونوں ادارے عوام کے معاملات کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچتے۔ یہ تو عالمی معیشت کیلئے کام اور کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت عالمی معیشت دبائو کا شکار ہے اور یہ قرض دے کر ملکوں کو اپنی معاشی منصوبہ بندی کا محکوم بنالیتے ہیں اگر پاکستان ان اداروں سے قرض نہ لے تو بھی اس کے حالات اس سے زیادہ خراب نہیں ہوسکتے۔ خرابی تو ہمارے نظام میں ہے، وہ ادارے ہمارے نظام کو قرض سے مزید خراب کررہے ہیں۔ ایسے میں نواز سرکار نے اگر سخت فیصلے نہ کئے اور ان اداروں پر بھروسہ کیا تو معیشت کا معاملہ مزید زوال پذیر ہوگا۔ اس وقت عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں مسلسل کمی ہورہی ہے مگر ہماری سرکار کی نوکر شاہی عوام کو اس سلسلے میں مدد دینے کو تیار نہیں۔ وہ اپنی روش پر قائم ہے کہ سرکار کے اخراجات ٹیکس کی بجائے عوام سے رقوم وصول کرکے پورے کئے جائیں۔ اس وقت ملک کی جو سیاسی اور معاشی صورتحال ہے اس میں سرکار کو اپنا کردار بہت طریقے اور قرینے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑے بڑے منصوبے تو حالات امن میں ہوتے ہیں ۔ ایک طرف ہمارا ہمسایہ بھارت اپنے حواس میں نظر نہیں آتا، وہ مسلسل سرحدی خلاف ورزیاں کررہا ہے، ہماری افواج دہشت گردی کی جنگ میں مصروف ہیں،اب ان کو سرحدوں پر بھی سرگرم عمل ہونا پڑرہا ہے۔ ہمارے سابقہ صدر جنرل مشر ف نے ترنگ میں آکر ایٹمی دھمکی تو دے دی ہے مگر بھارت کو اندازہ ہے کہ ایٹمی جنگ دونوں ملکوں کے لئے سود مند نہیں، پھر آج کے دور میں جنگ مسئلوں کا حل بھی نہیں ہے، پھر ہماری فوج کو اندازہ ہے کہ بھارت کو سرحدوں پر اس کی حدود میں رکھ سکتی ہے۔ ان حالات میں عالمی طاقتوں سے رابطہ ضروری ہے اور سب سے ا ہم معاملہ اندرون ملک تفرقہ ختم کرناہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو مکمل اعتماد میں لیا جائے۔ سرکاری اخراجات میں کمی کی جائے اور ہمارے لیڈر خواص کی طرح کی زندگی نہ گزاریں وہ عوام کے ساتھ ان مشکلات کا مقابلہ کریں۔چند دن پہلے قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں مرکزی سرکار سے سفارش کی گئی ہے کہ تمام ممبران کو سرکاری سرپرستی میں سرکاری پاسپورٹ جو نیلے رنگ کا ہوتا ہے کا استحقاق دیا جائے تاکہ ان کا خصوصی طور پر رتبہ بلند تصور کیا جائے۔ وہ عام عوام سے علیحدہ بہت ہی اہم حیثیت کے حامل ہونگے۔ عموماً سرکاری پاسپورٹ ان سرکاری لوگوں کو ملتا ہے جو کام کے سلسلہ میں بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور غیر ممالک میں ان کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے کہ وہ کار سرکار کے امور کے سلسلہ میں عام پاکستانی عوام سے مختلف اور اہم ہیں۔ ہمارے عوامی نمائندوں کو اندازہ نہیں کہ اس قسم کی قرار داد سے بنیادی حقوق پر زد پڑتی ہے اور عوام ان ممبران اسمبلی سے مزید مایوس ہورہے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ سپیکر نے بھی سرکار کی مشاورت نہیں کی کہ آج کل کے حالات میں ایسی قرارداد مناسب نہیں ہے پھر حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ بھی خاموش رہے۔ اصولی طور پر ان کو ایسی قرار داد کے سلسلے میں حسب سابق وزیر اعظم کی مشاورت کرنی چاہئے تھی مگر کسی بھی سیاسی جماعت نے اس قرار داد پر ردعمل کا اظہار نہیں کیا جو کہ سیاسی طور پر ایک مایوس کن ردعمل ہے۔ سرکار اس وقت دھرنوں کی سیاست اور آسیب سے نکل چکی ہے، مگر جلسے اب بھی سرکار کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ہمارے سرکاری ادارے ہماری سرکار کے تابع نظر نہیں آتے۔ آپ ان کی ویب سائٹ یا ویب پیج پر جاکر معلومات حاصل کرسکتے ہیں مگر وہ معلومات عملی طور پر بالکل بے کار ثابت ہوتی ہے۔ محکمہ پاسپورٹ جو محکمہ داخلہ کا ذیلی ادارہ ہے وہ پاسپورٹ کے سلسلے میں مکمل معلومات فراہم کرتا ہے کہ کونسا پاسپورٹ کس پاکستانی شہری کو مل سکتا ہے، اس کی کتنی فیس ہے اور کونسا دفتر آپ کی مدد کرسکتا ہے۔ اس پر ہیلپ لائن کا نمبر بھی درج ہے، جو کبھی بھی جواب نہیں دیتا اور ہر وقت مصروف رہتا ہے پھر متعلقہ افسران کے نمبر بھی درج ہیں جن تک عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں، پھر شکایت کے لئے ای میل کا لنک بھی ہے۔ آپ اس پر میل کردیں آپ کے لئے لازمی نہیں کہ جواب بھی حاصل کرسکیں۔ نوکر شاہی کا یہ رویہ صرف اس محکمہ کا خاصہ نہیں ہے پھر دوسری طرف اگر آپ اشرافیہ اور خواص کا حصہ ہیں تو پاسپورٹ کی مشینری آپ کے گھر آکر بھی آپ کی عزت افزائی کرسکتی ہے یا پھر آپ درمیانے درجے کی رسائی رکھنے والوں کے ساتھ تعاون کو تیار ہیں تب بھی آپ کا معاملہ اور مسئلہ جلد طے ہوسکتا ہے اور آپ کو ذرا زیادہ رقم ا دا کرنی ہوگی اور یہ سب کچھ سرکار کی ناک کے نیچے ہوتا ہے مگر سرکار کو زکام ہے اور اس کو معلوم نہیں کہ ناک کے نیچے کیا شور شرابہ ہے پھر کان بھی خراب ہیں ،آنکھیں دکھ رہی ہیں، سو سرکار بیمار ہے اور عوام بے حال ا یسے میں ملک کیسے چل رہا ہے یہ ایک کرامت لگتی ہے۔ایک معاملہ ایسا ہے جس پر دھرنے والے، جلوس والے اور سرکار کے حلیف سب راضی ہیں۔ وہ ہے محرم کا احترام اور عقیدت ۔اسی وجہ سے جلوسوں کا سلسلہ ختم کیا گیا ہے۔ ہم مسلمانوں کے لئے محرم کا عشرہ صبر اور جبر کے حوالہ سے بہت اہم ہے۔ اہل بیت کا صبر اور یزید کا جبر اب تاریخ میں حق اور سچ کی ایسی داستان ہے جو قابل فخر بھی ہے اور شہادت کے درجہ کو عظیم الشان بھی بناتی ہے۔ شکر ہے اس معاملہ پر فریقین میں تقسیم نہیں ہے۔ آج کل کے پرآشوب دور میں ہمارے لیڈروں کو مجالس میں بھرپور شرکت کرنی چاہئے اور عوام کے جذبے اور عقیدت میں شامل ہونا چاہئے اور احترام کے جذبے کو سارے ملک میں فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس وقت دہشت گردی کی لہر نے بلوچستان کو بہت متاثر کیا ہے پھر ہزارہ برداری کو جس ظالمانہ طریقہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے وہ گورنمنٹ کے کردار کے لئے بہت پریشان کن ہے۔ ہزارہ برادری کے ساتھ جو تعصب اور ظلم روا رکھا جارہا ہے اور ان کو شہید کیا جارہا ہے وہ نا قابل معافی ہے بلکہ جو لوگ ایسی دہشت گردی کررہے ہیں ان کیخلاف ہماری افواج کو فاٹا کی طرز پر کارروائی کرنی ضروری ہے۔ ہزارہ برادری کو ئی اقلیت نہیں ہے وہ مسلمان برادر ہیں اور انکے حقوق تمام پاکستانیوں کے برابر ہیں۔
تازہ ترین