• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین نے نیا ایشیائی بینک بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے مثبت قدم اٹھایا ہے۔ چین کی رہبری میں اگر یہ معاشی نظام چل پڑتا ہے تو واقعی یہ صدی ایشیاء کی صدی بن جائے گی۔ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک وقت کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکنجے سے نکل آئیں گے۔ اس نئے بینک کے قیام پر فی الوقت امریکہ کا محتاط ردّعمل سامنے آیا ہے۔ اس نے ورلڈ بینک جیسے اداروں کے معیار کے کم ہوجانے کا خطرہ ظاہر کیا ہے یہ معاملہ اس کے لئے پریشان کن ہے۔کیونکہ چین نے اس سےعسکری محاذ پر اُلجھنے کے بجائے اس کےاقتصادی غبارے سے ہوا نکالنے کی ٹھانی ہے۔اس لئے آپ دیکھیں گے امریکہ کے لب و لہجے میں دن بدن کرختگی ظاہر ہوتی جائے گی، ہوسکتا ہے بحر چین میں سرگرمیاں بھی بڑھ جائیں۔ قارئین! پس منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ قدیم زمانے میں اشیاء کے بدلے اشیاء کو بیچا جاتا تھا۔ اسے ’’بارٹر سسٹم‘‘ کہتے تھے۔ اس میں موجود ایک تکنیکی مشکل کی وجہ سے انسان نے جلد ہی کرنسی کے تصور پر غور و فکر شروع کردیا۔ مشکل یہ تھی اتنے وزن و حجم کی چیزوں کو لئے پھرنا اور ان کیلئے مناسب گاہک تلاش کرنا آسان نہ تھا۔ ظاہر ہے جس کرنسی کا سوچا گیا اسے وزن میں ہلکا اور قیمتی ہونا چاہئے تھا، اس لئے سونے اور چاندی کو اپنالیا گیا۔ سستی چیزیں خریدنے کے لئے دیگر دھاتوں کی ریزگاری بھی استعمال میں رہی جو سونے چاندی کے درہم کا ایک متناسب حصہ ہوا کرتا تھا۔ سونے چاندی کے سکے رائج ہونے سے تجارتی معاملات تو آسان ہوگئے، لیکن ان کی حفاظت کے مسائل پیدا ہوگئے، لہٰذا لوگوں نے یہ سکے صرافوں کے پاس جمع کراکر ان کی رسیدوں سے خرید و فروخت شروع کردی۔ یوں حفاظت کا مسئلہ کچھ حل ہوا، لیکن یہاں سے بینکاری کا نظام بننا شروع ہوگیا۔
1960ء کے بعد سے جب امریکہ نے ڈالر کے بدلے سونا دینے سے صاف انکار کردیا تو رسیدیں ہی مستقل مال اور کرنسی بن گئیں۔ اب کرنسی کے پیچھے کوئی حقیقی مال نہیں۔ یہ پیپر کرنسی ہے جو حکومت کی ضمانت سے قیمتی ہے ورنہ کچھ نہیں۔ آج کسی ملک پر دوسرا ملک قابض ہوکر کرنسی بدل دے تو اس ملک کے ارب پتی ایک دن میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔اب کرنسی خالص کاغذی حیثیت اختیار کرگئی ہے جس کی اپنی ذاتی قدر کچھ بھی نہیں، لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہ کاغذی کرنسی اب ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کی شکل میں کاغذی مالیت بھی کھوتی جارہی ہے۔ اب یہ صرف اعدادو شمار ہیں جو بینکنگ سسٹم کے اندر درج ہیں جو طاقت ان اعدادو شمار پر دسترس رکھتی ہوگی وہ بغیر کسی حملے اور لڑائی کے دنیا کے کسی بھی شخص کو لمحے بھر میں غریب کردینے کا اختیار رکھتی ہوگی۔ یہ تو ان کا احسان ہے کہ وہ کالعدم کرنے کے بجائے فی الوقت منجمد کرنے پر اکتفا کرتی ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ’’ایس ڈی آر‘‘ کاغذی سونے کا نظام متعارف کروایاتھا۔ یہ ڈالر، یورو، پائونڈ کا ہم پلہ قرار دیا گیا۔ باقی دنیا کی کرنسیاں ان کی زیر نگیں بن گئیں۔ ان اداروں کے چارٹر میں 3 مقاصد درج ہیں۔ یہ عالمی تجارت میں توازن پیدا کریں گے۔ رکن ملکوں کی کرنسیوں کی شرح تبادلہ طے کریں گے۔ کرنسیوں کی قیمت گرنے پر مسلسل نظر رکھیں گے۔ در اصل اس کا مقصد یہ تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اب تعین کریں گے کہ کن ملکوں کو کب کون کون سی تجارت کرنا ہوگی؟ کرنسیوں کی شرح تبادلہ میں بڑے ملکوں کو سبقت دے کر غریب ملکوں کو دیوالیہ کیا جانے لگا۔ کمزور کرنسیوں کے حامل ملکوں پر ننگی تلواریں لٹکا دی گئیں۔ کاغذی سونے میں امریکہ کا حصہ 17.6 فیصد ، جاپان کا 6.5 فیصد، جرمنی کا 6.2 فیصد، فرانس کا 5.1 فیصد، انگلینڈ کا 5.1 فیصد، اٹلی کا 3.3 فیصد، سعودی عرب کا 3.3 فیصد، کینیڈا کا 3.2 فیصد، چین کا 3.2 فیصد اور روس کا شیئر 2.8 فیصد قرار پایاتھا۔ یوں دنیا کے دس ملکوں کے ذخائر 56 فیصد اور باقی 190 ملکوں کے ذخائر 44 فیصد تسلیم کئے گئے۔ ان 10ملکوں کی رائے تمام دنیا پر بھاری اکثریت سے مان لی جانے لگی۔ ورلڈ بینک، یو ایس ایڈ، آئی ایم ایف اور باقی ماندہ بینک، کارپوریشنیں اور بین الاقوامی ’’امدادی‘‘ کاموں میں مصروف حکومتیں ہمیں یہ بتاتی نہیں تھکتے وہ’’ احسن طریقے‘‘ سے اپنا کام کررہے ہیں اور ان کی خدمات کی بدولت دنیا بھر میں ترقی ہوئی ہے، لیکن اس ترقی سے فائدہ اُٹھانے والے اپنی جان کو رورہے ہیں۔ ان عالمی امدادی اداروں نے جس کو بھی امداد فراہم کی، وہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہوسکا، بلکہ اگرکسی نے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے اور ان کے قرضے کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے نشانِ
عبرت بنادیا گیا۔ چاہے وہ پانامہ کا صدر ٹوری جوس ہو، ایکواڈور کا جیمی اولڈوس ہو، گوئٹے مالا کا حکمران اربینز ہو یا چلی کا ایلندے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سودی نظام سے خیرکی کوئی اُمید لگانا الٰہی و تکوینی قانون سے جان بوجھ کر نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ سود کی خرابی صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لئے ہے۔ IMF کے چکر میں ایک دفعہ پھنسنے کے بعد کسی ملک کا وہی حال ہوتا ہے جو ہائوس بلڈنگ کا لون لینے والے شخص کا ہوتا ہے کہ بالآخر اسے وہ مکان ہی واپس کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی تاریخ دراصل تیزی سے زمین بوس ہوتی ہوئی معیشت کی روداد ہے۔ اس پر عالمی بینکوں نے نہایت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ان 16 ماہ میں ہمارا قرضہ 140 ارب ڈالر سے بڑھ کر 149 ارب ڈالرز ہوگیا ہے۔ بیرونی قرضہ 65 ارب ڈالر اور اندورنی قرضہ 84 ارب ڈالر کا گراف عبورکر گیا ہے۔ جون 2013ء میں ہمارے وزیر خزانہ نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ہمارے ملکی قرضوں کی شرح ایک سال میں 63.5 سے کم کر کے 62 فیصد اور اگلے 3 سالوں میں 58 فیصد تک لے آئی جائے گی، جبکہ آج ایک برس بعد یہ 63.5 سے بڑھ کر 64.27 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ہر پاکستانی85 ہزار کا مقروض ہوگیا ہے۔ ہمارے کل ٹیکس کا 2 تہائی یعنی 65 فیصدآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو سود اور قرضہ لوٹانے پر خرچ ہورہا ہے۔ صرف 35 فیصد سے ملک چلایا جارہا ہے۔ متعلقہ اداروں کی مصدقہ رپورٹوں کے مطابق صرف سندھ میں اتنا تیل اور کوئلہ ہے کہ پاکستان کے سارے قرض اُترسکتے ہیں۔ صرف بلوچستان میں اتنا گیس اور سونا ہے کہ پاکستان کی پوری آبادی کو بآسانی تعلیم اور علاج کی اعلیٰ ترین سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ پنجاب کی زرخیز ترین زمین جیسی زمین دنیا میں نہیں۔ سرحد کے قیمتی پتھروں سے بھرے پہاڑ چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کا 600 میل لمبا سمندری کنارہ جو دنیا کے بہترین ساحل اور قدرتی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سب اضافی مراعات ہیں۔ ان میں سے ایک چیز بھی دنیا کے جس ملک کے پاس ہے، وہ ترقی یافتہ ہے، مگر ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہا ہے۔ جنوبی امریکہ کے ان ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی وافر قدرتی وسائل کے باوجود توانائی کا بحران ہے جو حل ہونے میں نہیں آتا۔ حکمراں سے عالمی استعمار کے خلاف کسی جرأت مندانہ اقدام کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ 2012ء میں ایک ذرا سی کوشش ہوئی تھی کہ ہمارے ملک میں بجلی فراہم کرنیوالے اداروں کو اپنے ملک کا سستا ایندھن فراہم کردیا جائے تو اسی وقت حوصلہ افزائی کے بجائے منظورشدہ قرض بھی روک دیاتھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ریشہ دوانیوں اور ہمارے لیڈروں کی عاقبت نا اندیشوں سے ہم ایک بند گلی میں مقید ہوکررہ گئے ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت رکھنے والے ملک چین کی سرپرستی میں 22 ممالک کی جانب سے ایک نئے بینک کا قیام تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔اس کی کامیابی سے اقتصادی غارت گروں کی چوہدراہٹ ختم نہیں توکم ضرور ہوجائے گی۔
تازہ ترین