• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کے دن 51سال پہلے پاک انڈیا سرحد پر‘ سمندر اور فضائوں میں معجزوں کا ظہور اور قوم کے ناقابل شکست عزم و ہمت اور ارادے کا اظہار تھا۔ دفاعی افواج کے جوانوں کے چوڑے سینے دشمن کے سامنے آہنی دیوار بن گئے اور قوم اپنے بہادر بیٹوں کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی رہی‘ ہمت اور عزیمت کی ایسی لازوال داستانیں تاریخ میں کم کم نظر آتی ہیں۔ جدید تاریخ تو ایسی مثالوں سے بالکل ہی خالی ہے۔ گزشتہ پانچ صدیوں میں آتشیں ہتھیار‘ ٹیکنالوجی میں برتری نے جنگ کے رنگ ڈھنگ بدل ڈالے ہیں لیکن پاک بھارت جنگ گزشتہ بارہ سو سال کے مسلم ہندو مقابلوں کی تاریخ کو بدل نہ سکی‘ نتیجہ وہی رہا جو پچھلے ہزار سال سے ہندو مسلم ٹکرائو میں ہوا کرتا تھا۔
تاریخ انسانی میں ہندوستان کبھی متحدہ ہندو ریاست نہیں تھی‘ یہ چھوٹی چھوٹی سینکڑوں حکومتوں میں تقسیم تھا‘ جن پر سینٹرل ایشیا سے آئے آریائوں کی حکومت ہوا کرتی۔ ہندوستان کو پہلی دفعہ ایک بڑی اور متحدہ ریاست کی شکل مسلمانوں نے دی‘ پہلے پہلے عرب مسلمان آئے پھر سینٹرل ایشیا کے افغان‘ مغل‘ چغتائی‘ تاتاری مسلمان حکمران بنے‘ آخری پانچ سو برس مغل بادشاہ حکمرانی کرتے رہے‘ 1857میں یورپ سے آئے انگریز فاتحین نے مغلوں سے ہندوستان چھین کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ برطانیہ عظمیٰ کے زوال کے بعد انہوں نے جاتے وقت ہندوستان کو مسلم اور ہندو کی الگ ریاستوں میں تقسیم کرکے کمزور اور میدان جنگ کے بھگوڑے ہندوئوں پر احسان کیا کہ مغرب میں پاکستان کے نام پر مسلمان ریاست چھوڑ گئے تاکہ افغانستان اور اس سے پرے آباد جنگجو مسلمانوں سے ہندوستان کے ہندو کچھ عرصہ کیلئے امان پائیں اور ان فاتحین کے راستے میں پاکستان نامی مسلمان ریاست ’’بفر‘‘ کا کام دے تاکہ ہندو آزاد ریاست میں چند صدیاں گزار کے آزاد قوموں کے رنگ ڈھنگ سیکھ سکیں کہ تین ہزار سال کی غلامی نے ان کی نفسیات کو بری طرح مجروح کر دیا تھا۔ چند ہی برسوں میں برہمنوں کے احمق خود کو انگریزوں کا جانشین اور برطانیہ عظمیٰ کا حقیقی وارث خیال کرنے لگے۔ پاکستان کی عمر صرف سترہ برس تھی لیکن پاکستانی قوم جغرافیہ کے علاوہ بھی ایک تاریخ رکھتی ہے‘ وہ مسلمان تھے اور مسلمان فاتحین کی اولاد جنہوں نے اپنے زور بازو سے ہندوستان کو فتح کر کے وہاں بارہ سو سال تک اپنی سلطنت قائم کئے رکھی تھی۔
انگریزوں نے بھارتی ہندوئوں کو (آبادی کے اعتبار سے) دنیا کی دوسری بڑی ریاست سونپ دی تھی اور آزادی کے چند سال بعد انہیں پاکستان ایک چھوٹی سی کمزور ریاست نظر آنے لگی‘ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی اس ریاست کو تباہ کر کے بھارت میں ضم کر لیا جائے تو ایک طرف اکھنڈ بھارت بن جائے گا اور دوسری طرف مسلمانوں سے ہزار سالہ شکست کا بدلہ اور ہندوئوں کی ہزیمت زدہ نفسیات میں تاب و توانائی پیدا ہو جائے گی۔ ان کے خیال میں یہ ایک اچھا موقع تھا اس لئے کہ ان کی بری فوج پاکستان کے مقابلے میں تین گنا تھی اور اسلحہ و بارود میں یہ نسبت شاید ایک اور بیس کی رہی ہوگی۔ انڈیا کی ایئرفورس کی تعداد پانچ گنا اور ان کے جنگی طیارے تعداد میں زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ معیار میں بہت اعلیٰ تھے۔ نیوی کی تو کوئی نسبت ہی نہیں تھی جو کم از کم ایک اور بارہ تھی‘ صرف ایک ’’غازی‘‘ آبدوز اور چند ایک چھوٹے بحری جہاز جو انڈیا کی نیوی کے جہازوں کے پیدا کردہ مدوجزر میں چھپ جائیں۔ روس کا عملی تعاون حاصل تھا جو پاکستان کی راکھ پر گرم پانیوں کی آرزو پال رہا تھا‘ تین سو برس سے اس نے گرم پانیوں کا سفر شروع کیا تھا‘ اب آخری رکاوٹ پاکستان، انڈیا کے تعاون سے زیر ہونے کو تھا۔ پھر ساری ترقی یافتہ دنیا کے ایندھن کی گزرگاہ روسی کیمونسٹ کے ہاتھ میں ہوتی اور وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو دن میں تارے دکھایا کرتا۔
6 ستمبر کی رات پچھلے پہر جب پاکستانی محو خواب تھے‘ چوروں کی طرح انہوں نے لاہور پر شب خون مارا‘ کمانڈر انچیف جنرل چوہدری کا حکم تھا‘ طلوع آفتاب تک لاہور فتح ہو کر پرسکون ہو جانا چاہئے تاکہ وہ لاہور جم خانہ میں صبح کا ناشتہ کرسکے‘ دوسری طرف سیالکوٹ پر قبضہ ہو چکا ہوگا‘ لیکن لاہور تو ابھی دور تھا ‘ بی آر بی پر میجر عزیز بھٹی کی چھوٹی سی ٹکڑی نے سورمائوں کے ڈویژن کو دے للکارا اور چند جوانوں نے بھارتی فوج کے قدم یوں روکے کہ ہندوئوں کیلئے گویا گردش لیل و نہار تھم گئی۔
ہندوستان کی مغل اور دکن کی تاریخ کے چشم دید تاریخ دان ’’برنی‘‘ نے تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے ’’احمد شاہ بہمنی کے بیٹے سلطان علائو الدین نے ’’برار‘‘ فتح کیا تو ’’بیجانگر‘‘ کے حاکم ’’دیو رائے‘‘ نے اپنے اراکین دولت اور برہمنوں کو طلب کیا اور کہا کہ ہمارا ملک طول و عرض میں سب سے بڑا ہے‘ ہمارا لشکر مسلمانوں سے کئی گنا‘ ہماری آمدنی ہزار گنا زیادہ‘ ہاتھی‘ گھوڑوں کی کثرت‘ ان سب باتوں کے باوجود یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جب کبھی جنگ ہوتی ہے تو فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہتی ہے تو راجہ کے ایک ’’مقرب‘‘ نے کہا کہ ہماری مذہبی کتابوں میں لکھا ہے کہ تیس ہزار(30,000) سال تک کیلئے خدا نے مسلمانوں کو ہندوئوں پر غالب کر دیا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اکثر اوقات ہمیں مغلوب کر لیتے ہیں۔‘‘
افواج کی تعداد‘ اسلحہ کی مقدار اور معیار‘ حملے میں پہل کا فائدہ‘ سارے اشارے پاکستان کو تباہ کرکے انڈیا کو فتح دلانے کیلئے کافی تھے لیکن نتیجہ پھر بھی وہی رہا جو ’’بیجانگر‘‘ کے راجہ کے سامنے رکھا گیا تھا۔
6 ستمبر 1965کی جنگ میں بہت سے سبق ہیں ہمارے لئے اور ہمارے دشمن انڈیا کیلئے بھی‘ کچھ سبق ہم نے سیکھے اور کچھ ہمارے دشمن نے لیکن ان کو صدیوں کی ہزیمت ازبر ہے اور 1965کی جنگ کا نتیجہ بھی‘ چنانچہ اس نے نہ صرف اپنی بڑی تعداد‘ اسلحہ کے معیار اور مقدار کی برتری کو برقرار رکھا بلکہ اس میں بے پناہ اضافہ کر کے بس نہیں کی بلکہ اپنے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا اور خطرناک اور دور مار میزائلوں سے بھی لیس کیا۔ اس میدان میں پاکستان نے مسابقت کی روایتی اسلحہ اور فوجوں کی تعداد میں برابری نہیں کر سکا لیکن غیرروایتی ہتھیاروں سے لیس ایٹمی ہتھیار اور ان کے لے جانے والے میزائل کے نظام میں اپنے دشمن کے مقابلے میں برتری حاصل کرلی اور ساتھ ہی اپنی ضرورت کے ہتھیار اور گولہ بارود کیلئے یورپ اور امریکا سے منافق دوست پر انحصار کم کرکے دفاعی ہتھیاروں کی پیداوار شروع کی۔ اب ٹینک‘ بکتر بند گاڑیاں‘ جنگی طیارے‘ دوران جنگ کیلئے ضروری ہتھیار اور گولہ بارود پاکستان کے اندر بننے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری دفاعی صلاحیت میں پہلے کے مقابلے میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن دشمن تاریخ اور حالیہ جنگوں سے کچھ سبق حاصل کر چکا ہے۔ اس نے براہ راست جنگ کا سامنا کرنے کی بجائے ’’خفیہ جنگ‘‘ کا راستہ اختیار کر لیا ہے‘ اب یہ جنگ پراکسی کے ذریعے لڑی جا رہی ہے‘ یہ براہ راست فوجی تصادم کی بجائے خفیہ ایجنسیوں کے پیداکردہ ایجنٹوں کے ذریعے مسلط کی گئی ہے‘ اس طریقہ جنگ میں پہل اور ہزاروں سال کی مکاری اور چالبازی نے دشمن کو فائدہ پہنچایا ہے‘ اس نے ہمارے تضادات کو ابھارا‘ غداروں کو تلاش کیا‘ گمراہوں کو مسلح کرکے پاکستان کے ایک حصے میں بغاوت کو فروغ دیا اور پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہو گیا‘ اب اسی طریقہ جنگ پر سارا انحصار ہے۔
دشمن کی چال اسی پر الٹ دینا ہی کامیابی ہے‘ جنگ ناگزیر ہو تو اسے ٹالتے رہنے کی بجائے‘ جواں مردی کے ساتھ سامنا کرنا چاہئے۔ قومیں جنگ سے نہیں جنگ کے بارے میں تذبذب سے تباہ ہوتی ہیں۔ امن کی تمنائیں دشمن کو رام کرنے میں ناکام رہی ہیں‘ اب یہ ناگزیر ہے کہ ہم پوری طاقت اور دلیری کے ساتھ اس کو للکاریں اور جنگ کے میدان میں اترنے پر مجبور کریں۔

.
تازہ ترین