• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ دہشت گردی کا تھیٹر جو خیبر پختونخوا کی سماجیات کو ادھیڑ کر کوئٹہ سمیت بلوچستان اور کراچی سمیت سندھ منتقل ہوگيا ہوا لگتا ہے، نے اب ایک بار پھر پنجاب کا رخ کرتے ہوئے واہگہ پاک بھارت سرحد پر پچاس سے زائد بے گناہ شہریوں جن میں رینجرز کے جوان بھی شامل تھے کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ بہت ہی خطرناک، تشویشناک لیکن علامتی بڑی واردات ہے کہ پاکستان کے اصل دشمن یعنی انتہا پسند تشدد نے پاک بھارت سرحد پر پرچم کی تبدیلی والے دن کی پریڈ کے ہجوم کو نشانہ بنایا ہے۔ اس دہشت گردی سےبے چارے معصوم شہری اور جوان لقمہ اجل بنے ہیں۔ اورپاکستان کے اصل دشمن انتہا پسندی نے پیغام یہ دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ واہگہ سرحد پر کسی بھی قسم کی سرگرمیاں ، پھر شہری ہوں کہ فوجی انہیں پسند نہیں۔
طالبان سمیت تین سے زائد انتہاپسند گروپوں نے واہگہ د ہشت گردی کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ اور ان کی صوبائی حکومت شہریوں کے تحفظ اور ان پر دہشت گردوں کے حملوں کی روک تھام میں مکمل ناکامی کی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ آئی جی مشتاق سکھیرا کی کارکردگی یہاں بھی بلوچستان والی کارکردگی جیسی نکلی ۔بلکہ واہگہ پر دہشت گردوں کا حملہ نتیجہ ہے پنجاب میں حکومت کے اس رویئے اور نرم پالیسیوں کا جو انہوں نے اپنی حکومتوں کے روز اول سے دہشت گرد اور انتہاپسند گروہوںاور نام نہاد کالعدم تنظیموں کی طرف اختیار کیا ہواہے۔ بالکل اس دبنگ ایس ایچ او کی طرح جو جرائم پیشہ لوگوں سے ایک غیر تحریر شدہ سمجھوتہ کرلیتا ہے کہ وہ جرائم کی وارداتیں اس کے تھانے کی حدود میں نہیں کریں گے بلکہ اس کی حدود اختیار سے باہر جا کر کریں گے باقی ان کے طعام و قیام کے بندوبست پر اس کی حدود تھانہ میں ایس ایچ او کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔ یعنی کہ نہ چھیڑ ملنگان نوں۔ یہاں تو ہے ہی شب و روز ملنگیوں کی حکومت۔ یا کہ باقی وہ جو دہشت گردی خودکش ہو کہ خود رو کسی اور وزیر اعلیٰ یا پارٹی کے حدود اختیار میں جا کر کریں تو سانوں کیہ ۔ وہی لائل پور مرحوم (حال حیات فیصل آباد) کے عظیم عوامی پنجابی شاعر بابا عبیر ابوذری والی بات:
نال عبیرا فیدہ کِی
وَگدے ہوئے ناسُور تے چِیرا فیدہ کِی
مُردہ ہندیاں جَان حیاتاں سانوں کیہہ
چھَڈّو جی ایہہ گَلاّں بَاتاں سانُوں کیہہ
اچھا ہوا کہ بابا عبیر ابوذری پنجابی طالبان سے بہت ما قبل بات ہے۔آپ کو یہ بھی یاد ہوگا جب خادم پنجاب نے طالبان سے کہا تھا کہ وہ دھماکے پنجاب میں نہ کریں۔ ہم خدانخواستہ یہ نہیں کہتے کہ پنجاب میں طالبان نے دھماکے کیوں نہیں کئےیا انہیںکیوں نہیں کرنے چاہئیں۔ لیکن عرض یہ کرنی ہے کہ شریف حکومت پھر وفاقی تھی کہ صوبائی ان کا رویہ عسکری انتہاپسند تنظیموں کی طرف انتخابی اتحادی والا تھا۔ بلکہ کالعدم تنظیموں سے مسلم لیگ نون کا اتحاد ان کاکو ئی کھلا یا چھپا راز بھی تو نہیں۔ پرانی بات ضرور ہے۔داتا دربار پر دھماکے، سری لنکا کے کرکٹ، ایف آئی اے کے دفاتر ہوں کہ آئی ایس آئی کے، گورنر سلمان تاثیر کا قتل ، اقلیتوں کی عبادت گاہیں تھیں کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کے قتل، بے شمار دہشت گردانہ وارداتوں میں شہباز شریف حکومت ان کی روک تھام اور اب تک قاتلوں اور دہشت گرد حملہ آوروں کی بیخ کنی اور پکڑ میں مکمل طرح ہی ناکام رہی۔طاہر القادری (قطع نظر ان کی دھرنے گرد ڈرامہ باز رنگ باز انقلابیت کے) کے لوگوں کے خلاف جون والی ریاستی دہشت گردی ہو کہ وٹے مارنے پر غریب پنجابی بستی پر ہلاکو خان اسٹائل پولیس کے حملے کہ جس سے گسٹاپو بھی شرما جائے تخت لاہور کے ہرکاروں اور گماشتوں کے فسطائی ہونے کا پردہ چاک کرتی ہے۔ گلو بٹ کی سزایابی یا رانا ثناء اللہ جو کہ خود آمر مشرف کی فوجی آمریت کا براہ راست ذائقہ چکھ چکے ہیں کی فراغت خطی سے کیا ہونا تھا۔
لیکن یہ واہگہ کے شہید ہیں کوئٹہ کے ہزارہ خاک نشیناں کا خون تو نہیں جو لبیک یا حسین کی کالی چادروں اور نعروں میں قبروں کی قطاروں تلے ٹنوں مٹی میں جذب اور ہر دفعہ فراموش ہوجاتا۔ ہزارہ کہ جن کا دشمن ان کے عقیدے سے زیادہ ان کی شکل شبیہ، رنگ و نسل بن گیا ہے۔کون نہیں جانتا کہ ہزاروں کے قاتل ہوں کہ واہگہ پر دہشت گردی کے دعویدار گروپ یا نام نہاد کا لعدم تنظیمیں ان کا آن اور آف بٹن کہاں نصب ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ پنجاب میں ایسی تنظیموں کے بڑے بڑے جلسے ہور ہے تھے۔ چندے کھالیں جمع ہور ہی تھیں، پولیس کمانڈو ان کی ڈیوٹی پر متعین تھے۔یہ سوال عبث ہے کہ وہ پنجاب میں حملے کیوں نہیں کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جب چاہیں،جہاں چاہیں جائیں ان سے کہیں بھی کسی بھی وقت ہیوی ڈیوٹی لی جاسکتی ہے۔ یہ گھوڑے ظلمات کے کسی بھی بحر میں دوڑانے والے دوڑا سکتے ہیں۔ واہگہ پر بھی چار چیک پوسٹیں آرام سےکراس کرنے کے بعد یہ دہشت گرد اپنے ٹارگٹ ایریا پر پہنچے۔ پیشگی انٹیلی جینس اطلاعات کے باوجود بھی وہ حملہ کرنے میں کامیاب گئے۔ رینجرز ہوں کہ دیگر ریاستی ادارےکسی نےبھی اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ نہیں گھمائی۔ پچاس افراد بشمول رینجرز کے جوان جان سے گئے۔ ظاہر ہے یہ بزدلانہ کارروائی ہے۔ دہشت گرد کبھی دلیر نہیں ہوتا۔نہتے لوگوں کو مارنا کوئی بہادری نہیں۔سندھ اور پنجاب کی حکومتیں محرم کے مہینے میں بھی کتنی الرٹ ہیں کہ مرحوم ذاکرین اور مولویوں کو مجلسوں کیلئے بلیک لسٹ کیا ہوا ہے۔ زندہ دہشت گرد خودکش جیکٹیں پہنے گھوم رہے ہیں۔ بڑے شہروں میں آکر چھپے ہوئے ہیں یا چھپائے گئے ہیں۔ واہگہ حملہ اور اس پر طالبان کے ترجمان کا بیان تمام تر دعوئوں اور اداروں کے جوانوں کی قربانیوں کے باوجود اس کی قلعی کھلتی کہ طالبان اپنے نیٹ ورک سمیت زندہ و موجود ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ چند برس قبل سوات آپریشن کے وقت طالبان سمیت انتہاپسند گروہوں کو دریائے سندھ کے ساتھ والے علاقوں اور سرائیکی بیلٹ منتقل کیا گیا تھا۔ سخی سرور جیسی جگہ کو اور ڈیرہ غازی خان کے رستے دریائے سندھ کے دائیں کنارے کچے کے علاقوں سے ان لوگوں نے سندھ اور بلوچستان اور آخرکار سندھ کے دارالحکومت میں ڈیرے ڈال لئے تھے۔اغوا،قتل اور خودکش حملوں اور اقلیتوں کے پروفیشنل افراد اور علماء پر حملے ، بھتے یہاںتک کہ کراچی سے لے کر اسلام آباد تک بھتے کا نیٹ ورک ان لوگوں نے قائم کرلیا تھا۔ یہ چوروں پر موروں کی طرح آئے کہ ایک شہری لسانی تنظیم یعنی ایم کیو ایم بھی چیخ اٹھی کہ طالبان کی طرف سے ان کو بھی بھتے کی چٹھیاں موصول ہوئی ہیں۔ فوج نے انہیں علاقہ غیر کی سنگلاخ پہاڑوں میں جا تو لیا ہے لیکن انہوں نے کب سے شہری گوریلا جنگ اختیار کی ہوئی ہے۔اب مقامی اور عالمی انتہاپسندی کا انتہائی بدترین شکاراور آماج گاہ ایک جگہ ہونے والے پاکستان میں داعش بھی دہائی ہے کہ آنے کو ہے۔ان سب کالعدم گروہوں اور تنظیموں کی نئی نانی اماں بننے کو ہے۔
کون نہیں جانتا کہ جو لوگ امریکہ سمیت دنیا بھرکو مطلوب ہیں اب یہ ان کے اثاثے سندھ ایکسپورٹ کردیئے گئے ہیں۔ یہ گروہ یا افراد بوکو حرم اور داعش کی طرح کا اسلام لانا چاہتے ہیں۔جس کا ایک مظاہرہ حال ہی میں سندھ کے آخری شہر ڈہرکی میں ہوا ہے جہاں بارہ سالہ ہندو بچی انجلی کو مبینہ طور پر اغوا کر کے اس کا زبردستی مذہب تبدیل کر اکے اغو اکار کے ساتھ ہی اس کا نکاح پڑھوا دیا گیا ہے۔ اسکول سرٹیفیکٹ کے مطابق انجلی کی عمر بارہ سال ہے۔ وہ دو ہزار دو کو پیدا ہوئی۔ سندھ کے ہندو کو اپنی سرزمین سے محبت کی وہ سزا ملی ہے جو اس پر واجب بھی نہیں تھی۔
انجلی غریب ترین میگھواڑ قبیلے سے تعلق رکھتی ہے جس کے والدین کا جینا مرنا یہاں ہے۔ مقامی جج نے فیصلہ یہ سنایا کہ اگرچہ انجلی کی عمر بارہ سال ہے لیکن وہ شہر میں ’’خونی فساد کے خدشے‘‘ کے پیش نظر اسے اس کے والدین کے حوالے نہیں کرسکتے۔ بچی بھری عدالت میں بلکتی رہی کہ وہ اپنے والدین کے پاس جانا چاہتی ہے۔ بچارے انجلی کے ورثا اور ہم شہری ہزاروں کی تعداد میں تھانے کے سامنے پر امن احتجاج کرتے رہے۔ ان کے بینروں پر آویزاں تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گیلانی ان کے ساتھ ہونے والی اس بڑی زیادتی کا نوٹس لیں۔ ان غریبوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ جسٹس گیلانی کب کے ریٹائرڈ ہو بھی چکے ٹوئٹ کا شہزادہ بلاول اپنے محل میں ہندوئوں کے ساتھ دیوالی تو مناتا ہے لیکن ان کو اور ان کی بیٹیوں کو تحفظ نہیںدے سکتا۔ واہ رے سندھ اورپنجاب کے حکمرانوں، بادشاہو! اگر اقلیتوں کے ساتھ ایسا سلوک ہے تو پھر آپ کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ نریندر مودی گجرات میں ایک ہزار مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔بہرحال میرے ایک دوست نے ایسے لوگوں کو پاکستان کے مودی کہا ہے۔
تازہ ترین