• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے ہم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی بھی دیکھی ، حکمرانوں کی طوطے کی رِٹ بھی سنی اور عوام کے عظیم جذبے اور ولولے بھی دیکھے اور اِس نتیجے پر پہنچے کہ ہماری ریاست مضمحل ہوتی جا رہی ہے جبکہ اربابِ اختیار کی آنکھوں پر چربی چڑھی ہوئی ہے۔ واہگہ جہاں بھارت اور پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں، وہاں غروبِ آفتاب سے پہلے پرچم اُتارنے کی تقریب دونوں طرف منعقد ہوتی ہے اور اِس میں ہزاروں شائقین اپنے اہلِ خانہ اور دوستوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان کی طرف وہ تقریب دید کے قابل ہوتی ہے ، خاص طور پر اتوار کے دن ایک میلے کا سماں ہوتا ہے اور ہزاروں مرد ، خواتین اور بچے وفورِ جذبات سے اﷲ اکبر ، پاکستان زندہ باد اور فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے اور اپنے وطن سے لازوال محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ واپسی پر اُن کے چہرے خوشی سے کِھلے اور سینے تازہ ولولوں سے معمور ہوتے ہیں ، مگر نومبر کی دو تاریخ اور اتوارکی شام واہگہ سرحد پر جو المناک واقعہ رونما ہوا اور اِس کے بعد اعلیٰ شخصیتوں اور متعلقہ اداروں کے جو بیانات اور اقدامات سامنے آئے، اُن سے اُمید کی نبض ڈوبتی چلی گئی۔ تقریب کے اختتام پر لوگ واپس آ رہے تھے کہ ایک دہشت گرد نے اپنے آپ کو بارود سے اُڑا لیا اور خودکش جیکٹ سے جو ہلاکت خیز مواد پھٹا اور دور دور تک پھیلا ، اِس سے اب تک 63شہری موت کی آغوش میں سو چکے ہیں جن میں دو درجن کے قریب عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ تقریباً دو سو کے لگ بھگ زخمی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ہم اُن کے لئے مغفرت اور صحت یابی کی دعا کرتے ہیں اور یونیورسٹی لا کالج کے پروفیسر ڈاکٹر امان اﷲ خاں سے اظہارِ تعزیت کرتے ہیں کہ اُن کی بھتیجی ، اُس کے بچے اور پانچ رشتے دار اِس حادثے میں لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ اِس انسانی المیے پر پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہبازشریف کا بیان آیا:’’سانحۂ واہگہ بارڈر کے ذمے دار سزا سے نہیں بچ سکیں گے‘‘۔ یہی بیان اُن کی طرف سے اُس وقت بھی آیا تھا جب سانحۂ ماڈل ٹاؤن میں دس شہری گولیوں کا نشانہ بنے تھے اور اسّی کے قریب زخمی ہوئے تھے ، لیکن ابھی تک قاتل گرفتار کیے جا سکے نہ فاضل جج باقر نجفی کی تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے۔ انہی الفاظ پر مشتمل ہمارے وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خاں نے بیان اِس وقت دیا تھا جب اسلام آباد میں دہشت گرد ضلع کچہری میں گھس گئے تھے اور اُن کی گولیوں کی بوچھاڑ سے ایک جج،اُن کے محافظ اور چند راہگیر گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔عوام اِس قسم کے لایعنی بیانات سے بہت اُکتا چکے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ایک جامع حکمت ِعملی کا تقاضا کر رہے ہیں۔
ہمارے جری رینجرز اور ہماری بہادر مسلح افواج بلاشبہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا بڑی پامردی سے مقابلہ کر رہے اور بھارت کی چیرہ دستیوں کا بھی منہ توڑ جواب دے رہے ہیں ، ڈی جی رینجرز کے اِس بیان سے قدرے مایوسی بھی ہوئی جس میں اُنہوں نے فخریہ انداز میں کہا کہ خودکش حملہ آور اور آگے چلا جاتا ، تو بہت زیادہ نقصان ہوتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو نقصان ہو چکا ہے ، اِس سے زیادہ اور کیا نقصان ہوتا۔ دراصل اِس قسم کی باتیں اِس اہم ترین سوال سے توجہ ہٹانے کے لئے کی گئی ہیں کہ انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے دہشت گردی کے حملے کی واضح وارننگ آ جانے کے بعد سیکورٹی انتظامات میں اتنی بڑی خامی کا ذمے دار کون ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اِس خوفناک حادثے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے ، مگر اِس کی کیا حیثیت ہے؟ جب قومی سلامتی ، قانون نافذ کرنے اور انٹیلی جنس کے اداروں میں مؤثر اور خودکار رابطوں کا فقدان ہو اور پولیس فورس اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارۂ ابرو کی منتظر دکھائی دیتی ہو ، تو دہشت گردی کے عفریت سے کیسے نجات پائی جا سکتی ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے انسدادِ دہشت گردی کی تمام تر ذمے داری عسکری قیادت پر ڈال دی ہے اور اُسے داخلی سلامتی کی جامع پالیسی بنانے، اِس پر عمل درآمد کے لئے فنڈز فراہم کرنے اور سول انتظامیہ اور پولیس کے اندر نئی روح پھونکنے میں بہت کم دلچسپی ہے۔ اِسے یہ بھی ادراک نہیں کہ عسکریت پسندی صرف فاٹا اور سوات کا نہیں، پورے پاکستان کا ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت پنجاب کا ترجمان مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں کے ٹھکانے خال خال ہیں اور اُن کا اصل منبع شمالی وزیرستان ہے۔ اِس غلط فہمی کی مصنوعی دھند میں انتہا پسندوں نے پنجاب کے قصبوں اور دیہات کے علاوہ شہروں میں بھی اپنے مراکز قائم کر لئے ہیں۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق ضلع قصور کے ایک دہشت گرد نے کامرہ ایئر بیس میں اواکس طیارے تباہ کر دیئے تھے۔
سانحۂ واہگہ میں چند ایسی باتیں اُبھر کر سامنے آئی ہیں جو گہرے غوروفکر کا تقاضا کرتی ہیں۔ پہلی بار اِس واقعے کی ذمے داری تین جہادی تنظیموں نے قبول کی ہے جن میں جند اﷲ ، جماعت الاحرار اور طالبان کا محسود گروپ شامل ہیں۔تین تنظیموں کی طرف سے بیک وقت ذمے داری قبول کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اِس حادثے کا اصل محرک اُن کے علاوہ ہے، کیونکہ اِن تنظیموں نے پنجاب میں اِس سے پہلے کوئی بڑی کارروائی نہیں کی ہے ، چنانچہ بعض قائدین کی یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ خودکش حملہ آور کو بھارت کی حمایت حاصل تھی جو کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی پیدا کرنے کے بعد لاہور کے قرب و جوار میں آپریٹ کرنا چاہتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جنگی جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں اور جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان جناب نوازشریف نے تنازع کشمیر پر اذہان کو متاثر کرنے والی جو تقریر کی ہے ، اِس کا جواب وہ بلوچستان کے علاوہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی دینا چاہتے ہیں۔
اِس دل دہلا دینے والے واقعے کا ایک اور پہلو بھی بے حد غور طلب ہے۔ دراصل دہشت گردی کے دو مظاہر ہیں:ایک فکری اور دوسرا عسکری۔ ملک میں غربت، جہالت اور بے روزگاری اور ہولناک طبقاتی تقسیم نے ایک ایسا مائنڈ سیٹ تیار کیا ہے کہ معاشرے کی تمام خرابیوں کا علاج شریعت میں ہے جس کا نفاذ اب صرف طاقت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اِسی فکری بنیاد پر طالبان وجود میں آئے اور اُن کے نام نہاد دانشوروں نے اپنا ایک علم کلام ایجاد کیا ہے جو حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کے خوارج سے بڑی مشابہت رکھتا ہے۔ ہم اِس علم کلام کے محدود اثرات فوج میں بھی دیکھتے ہیں اور یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب راولپنڈی میں جی ایچ کیو ، کراچی میں نیول بیس اور کامرہ ایئر بیس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ، تو یہ خبر بھی آئی تھی کہ اندر کے لوگ اُن سے ملے ہوئے تھے۔ خیال آتا ہے کہ واہگہ پر حملہ کرنے والے دہشت گرد کو خودکش جیکٹ آس پاس ہی سے فراہم کی گئی ہو۔ اِس پہلو سے بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔اِس وقت ہمارے سیکورٹی کے اداروں کا سارا زور طاقت کے استعمال پر ہے جبکہ نظریاتی طاقت کو مسخر کرنے کے لئے اِس سے بہتر نظریاتی قوت کا فروغ لازم ہے۔انتظامی سطح پر ہمیں فوری طور پر ڈپٹی کمشنر کا نظام واپس لانا چاہئے جس کے ذریعے امنِ عامہ کی صورتِ حال بہتر ہو گی اور دہشت گردی کی مؤثر نگرانی کی جا سکے گی۔ اِسی طرح وی آئی پی کلچر کے تمام نشانات مٹانے ہوں گے اور دینی مدارس میں ذہنی کشادگی لانے کے لئے جدید تعلیم اور کھلی فضا کی سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ یہ امر بڑا خوش آئند تھا کہ حادثے کے دو روز بعد واہگہ بارڈر پر پرچم اُتارنے کی تقریب اعلیٰ درجے کے حسن انتظام اور قوتِ ارادی سے منعقد ہوئی اور اِس میں کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان اور ڈی جی رینجرز پنجاب خان طاہر علی خاں کی شرکت نے عوام کے اندر غیر معمولی اعتماد پیدا کیا۔ وہ جوق درجوق والہانہ انداز میں آئے اور فلک شگاف نعروں سے بھارتی نیتاؤں اور دہشت گردوں کو پیغام دیا کہ وطن کے محافظ پوری طرح بیدار اور پوری طرح پُرعزم ہیں۔
تازہ ترین