• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت کے کسی ادارے کو توفیق نہیں ہوئی۔ البتہ نئی قائم شدہ حبیب یونیورسٹی نے برکلے یونیورسٹی میں پڑھانے والی گائتری جی کو کانفرنس میں شمولیت کے لئے بلایا۔ بہت مناسب موضوع تھا کہ سامراجیت کے زمانے کے بعد ہمارا سماجی ماحول کیسا رہا ہے اور کن کن سامراجی خرابیوں کو ہم یعنی ہندوستان اور پاکستان اب تک اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں۔ سماجی سطح پر اوّل تو ہم دونوں ملکوں نے انسانی بنیادی سطحوں کو نہ صرف قبول نہیں کیا بلکہ دنیا میں عالمی سطح پر جن منطقوں کی جانب تحقیق کی جا رہی ہے۔ان کی جانب ہم لوگوں نے کم کم توجہ کی ہے۔ یہ مسئلہ خاص کر پاکستان کی ماحولیات پر زیادہ منطبق ہوتا ہے کہ ہندوستان نے تو چین، فرانس اور پانچ دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر متوازی ورلڈ بینک بنانے کا جو فیصلہ کیاہے وہ عالمی منظر نامے کو یقیناً بدلے گا کہ سامراجیت نے جس طرح غریب ملکوں کی معیشت کو برباد کرنے کے طریقے اختیار کر رکھے ہیں اس کا متبادل وجود میں آنا چاہئے۔
یوں تو ندیم تارڑ نے فوک لٹریچر خاص کر لوک گیتوں شادی بیاہ اور بچوں کو سلانے کی لوریوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بیشتر گیت خود عورتوں کے تخلیق کردہ ہوتے تھے چونکہ ان کوکسی نے مرتب نہیں کیا ہے، اس لئے آج بھی بڑی بوڑھیوںتک سلامت ہیں، ورنہ فراموش کر دیئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر نعمان نے نہج البلاغہ کے توسط، حسن گفتار اور حسن اسلوب تحریر کو بیان کیا اور سن کر بہت لطف آیا۔ بہت لطف تو ناصر عباس نیئر کے خطاب سے آیا۔ مختصراً انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ تحقیق کے بغیر ہمارے نقاد نصابی بیانیہ پر زور دیتے ہیں جس کے باعث اردو تنقید میں وسعت نہیں آئی۔ میں نے یہ سن کر شکر کیا کہ چلو نقادوں کے طبقے میں تنقید کے اسلوب پربحث شروع ہوئی ہے میں ابھی اسی نکتے پر پہنچی تھی کہ ڈاکٹر انوارکی مرتب کردہ ’’فرحت اللہ بیگ‘‘ میرے ہاتھ میں آگئی۔ ڈاکٹر انوار اپنے بیانیہ میں بہت وسیع المطالب ہیں بلکہ شاعر کی طرح ایک جملے میں پورے پیرا گراف کا مغز پیش کر دیتے ہیں یہاں جب وہ اہل زبان اور غیراہل زبان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ایک دم مجھے سید محمد جعفری کا فقرہ یاد آگیا کہ تو یہ نور بجنوری، سرور بارہ بنکوی اور علی ہذا القیاس بے شمار نام کیوں چل رہے ہیں کہ اب تو ہم سب پاکستانی ہیں چاہے اب نام حیدر عباس رضوی ہو کہ سبزواری، یہیں یہ یاد آیا کہ بہت سے لوگ میرے بلند شہر کا ہونے پر برنی کا حاشیہ نہ لگانے پر ٹیڑھی نظروں سے دیکھتے ہیں بالکل ایسے جیسے سید نہ لکھنے پر معترض ہوتے ہیں۔ وہ تو شکر ہےکہ نہ محمد حسن عسکری نے نہ انتظار حسین نے اورکرار صاحب نے بلند شہر کا لاحقہ نہ لگایا۔ ہم اپنی ذات میں فرد ہیں۔کسی لاحقے کی کیا ضرورت ہے لیکن کچھ لوگوں کو یہ ضدہے کہ علاقائی نسبت ضرور رکھی جائے۔ جیسے ڈاکٹر انوار ہی کو لیجئے اسے اپنے سرائیکی ہونے کا تلازمہ بہت پسند ہے جبکہ اصغر ندیم سید کو نہیں ہے ویسے بھی اصغر کو لاہور رہتے ہوئے 40 برس ہو گئے ہیں۔ یہ بات سکھوں کے لئے ضروری نہیں سکھوں کے والدین،پاکستان میں پیدا ہوئے تھے وہ آج بھی یاد کرتے ہیں کہ ماں دھرتی دیکھنی ہے۔ ویسے سارے پنجاب (مشرقی) کے لوگوں کیلئے لاہور دیکھنا ایک خواب ہےبالکل ایسے جیسے گلزار صاحب کے لئے اپنی جم دھرتی دینہ کو دیکھنا ایک جذباتی مسئلہ ہے مگر وہ یہ کبھی نہیں کہتے کہ میں دینہ کا مہاجر ہوں ۔ارے بات تو ڈاکٹر انوار احمد سے شروع ہوئی تھی۔ انہوں نےفرحت اللہ بیگ کے مضامین کو نئے سرے سے مرتب کیا ہے ساتھ میں اس خواب کا ذکر بھی کیا ہے کہ اگر میرے پاس وسائل ہوں تو میں کم از کم تمام بچوں کو غالب، فرحت، پطرس اور منٹو کی اردو نثر پڑھنے میں مدد کروں۔ انوار صاحب ! آپ کو معلوم نہیں کہ کے پی میں پشتو کا مضمون نکال دیا گیا ہے۔ ابھی تو دوسرے صوبوں میں دیکھئے کیا کیا ہو گا۔ ہمارے بچوں کو بنیادی حقوق نہیں پڑھائے جاتے۔ یہ نہیں بتایا کہ آخر بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو کیوں پھانسی پر چڑھایا جا رہا ہے؟ مجھے پیٹرک مودیان جو کہ فرانسیسی ادیب ہیں جنہیں نوبل انعام دیا گیا ہے وہ یاد آرہے ہیں کہ انہوں نے نازیوں نے جو دوسری جنگ عظیم میں فرانسیسیوں پر ظلم ڈھائے تھے ان پر ناول لکھے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ تاریخ کتنی بھی گزشتہ ملے اس کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بنگلہ دیش میں 44برس بعد،اپنے زمانے کے بزرگوں سے بدلہ لینے کی روایت ڈالی جا رہی ہے اب جبکہ جاپان نے بھی امریکہ کو ایٹم بم گرانے پرمعاف کر دیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کو ان چھوٹی موٹی باتوں میں نہیں پڑنا چاہئے ہمیں گائتری جی کی بات پوسٹ کالونیلزم کے حوالے سے درست معلوم ہوتی ہے کہ ہم دونوں ملکوں نے آزادی حاصل کی تھی انگریزوں سے اس لئے تو نہیں کہ کالے انگریزوں کے غلام بن جائیں۔ انسانیت کو بھی فراموش کر دیں۔ دیوانگی کا یہ عالم ہے کہ ایک دوسرے ملک پرگولہ باری کرتے رہیں۔ جبکہ ہمارے ملکوں میں 40 فیصد غربت ہے جو کم نہیں ہو رہی بلکہ بڑھ رہی ہے۔ مجھے تو بیگم حسینہ واجد کو بھی یہ کہنا ہے کہ کینہ پروری مناسب نہیں۔ معاف کر دینا ہی انسان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ ٹیگور یا نذرالاسلام نے تو دشمن پرستی کو اختیار نہیں کیا تھا۔ ہم سارک ممالک ہیں اگر یونہی دشمنی کو فروع دیتے رہیں گے تو ہم چھوٹے ملکوں کو یکجا ہونے کا فائدہ کیا ہو گا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے بچے سارک کے دوسرے ملکوں میں جا کر پڑھیں اور اسی طرح پاکستان میں دوسرے ملکوں کے بچے آئیں۔ اب یہ جونئی یونیورسٹی حبیب یونیورسٹی کے نام سے قائم ہوئی ہے اس میں دوسرے صوبوں اور ملکوں کے طلبا و طالبات داخلہ لیں تو ذہنی طور پر ان کی سوچ میں وسعت آئے گی۔ پھر یہاں ڈاکٹر نعمان اور ڈاکٹر آصف فرخی جیسے استاد شامل ہونگے تو یقیناً سماجی شعور اور ذہنی بلوغت، وسعت حاصل کرے گی۔ جبھی سیکولر ازم اور کشادہ نظری ہماری لغت کا حصہ بنے گی۔ ہونا یہ چاہئے کہ تلخ واقعات بھول جایا کریں اور پر لطف واقعات کا اثر باقی رہے۔
تازہ ترین