• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1930 ء اور 1940ء کے عشروں میں کراچی کی بندرگاہ سے شہر کی طرف آنے والی شاہراہ پر ایک بڑا سا بورڈ نصب تھا ۔ یہ بورڈ اس قدر نمایاں تھا کہ ہر آنے جانے والے کی نظر اس پر ضرور پڑتی تھی ۔ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن ( کے ایم سی ) کی طرف سے ہی یہ بورڈ نصب کیا گیا تھا ، جس پر انگریزی زبان میں درج ذیل عبارت تحریر تھی ۔
"South African Europeans are not welcome to Karachi in view of the racial discrimination made in their country and the Anti-Indian legislation passed by them."
یعنی ’’ جنوبی افریقا کے یورپی باشندوں کو اس امر کے پیش نظر کراچی میں خوش آمدید نہیں کہا جاتا ہے کہ ان کے ملک میں نسلی امتیاز روارکھا جاتا ہے اور انہوں نے ہندوستان کے خلاف قانون منظور کیا ہے ۔ ‘‘ اس عبارت کے اوپر ’’ KMC ‘‘ تحریر تھا ، جس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ نسل پرستی کے خلاف یہ پالیسی بیان کراچی کی شہری حکومت کا ہے اور کراچی مجموعی طور پر نسل پرستی کو مسترد کرتا ہے اور نسل پرستی کے شکار جنوبی افریقا کے مقامی سیاہ فام باشندوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے ۔ یہ بورڈ ایک ایسی شاہراہ پر نصب تھا ، جہاں جنوبی افریقا کے یورپی باشندوں کی آمد و رفت ہو سکتی تھی ۔ انہیں شہر میں داخل ہوتے ہی یہ باور کرا دیا جاتا تھا کہ کراچی نہ صرف نسل پرستی سے نفرت کرتا ہے بلکہ نسل پرستوں کی یہاں آمد پر خوش بھی نہیں ہے ۔ اس بورڈ کی تصاویر مختلف اداروں کے آرکائیوز میں موجود ہیں ۔ یہ بورڈ طویل عرصے تک اس شاہراہ پر موجود رہا ۔ اس دوران کراچی کے کئی میئرز آئے اور چلے گئے لیکن کراچی کی شہری حکومت کی نسل پرستی کے خلاف پالیسی تبدیل نہیں ہوئی ۔ واضح رہے کہ کراچی سٹی میونسپل ایکٹ 1933ء میں منظور ہوا تھا اور کراچی میونسپل کارپوریشن کا سربراہ میئر ہوتا تھا ۔ جمشید نسروانجی مہتا سے لے کر حکیم محمد احسن تک کئی پارسی ، ہندو ، عیسائی اور مسلمان میئر بنتے رہے لیکن کبھی اس شہر میں رنگ ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر کراچی کے شہریوں کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا ۔
اس وقت صرف کراچی ہی نہیں بلکہ بر صغیر کے زیادہ تر علاقے برطانیہ کے نوآبادیاتی تسلط میں تھے ۔ برطانیہ سے آئے ہوئے نو آبادی انگریز حکمرانوں کا سب سے بڑا مسکن کراچی تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا ، جب یورپ کی نو آبادیاتی اور استعماری قوتوں کے خلاف دنیا بھر میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں اور یورپی باشندے رد عمل میں اپنی پوری استعماری تاریخ میں سب سے زیادہ اور خطرناک نسل پرست بن گئے تھے ۔ اسی زمانے میں نسل پرستی کے خلاف بات کرنے والوں کو یورپی باشندے باغی تصور کرتے تھے لیکن کراچی شہر کی سیاسی قیادت نے انتہائی جرات مندی کا مظاہرہ کیا اور اسی راستے پر یہ بورڈ نصب کر دیا ، جس راستے سے یورپی باشندوں کی آمد و رفت تھی ۔ اس بات کا علم شاید اس وقت کے جنوبی افریقا کے سیاہ فام باشندوں خصوصاً افریقن نیشنل کانگریس ( اے این سی ) کے رہنماؤں کو بھی نہیں ہو گا کہ کراچی لوگ اپنے یورپی حکمرانوں کے قہر و غضب کی پروا کیے بغیر ان سے یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ یہ غالباً 1944ء کا سال تھا ، جب جنوبی افریقا میں نوجوان حریت پسند رہنما نیلسن منڈیلا نے ’’ اے این سی یوتھ لیگ ‘‘ کے صدر کی حیثیت سے اپنے تاریخی سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا ۔ کراچی اس سے بہت پہلے نیلسن منڈیلا کے موقف کی حمایت کر رہا تھا ۔ اس وقت عظیم نیلسن منڈیلا یا جنوبی افریقا کے دیگر باشندوں کو نسل پرستی کے خلاف کراچی کی نفرت کا علم ہو یا نہ ہو لیکن یورپی باشندوں کو اس بات کا علم تھا کہ کراچی کے لوگ اور کراچی کی سیاسی قیادت کیا سوچ رہی ہے ۔ کراچی کی سیاسی قیادت کو بھی یہ علم تھا کہ بورڈ نصب کرنے کے کیا مضمرات ہیں ۔ اس سیاسی قیادت کا اپنا ایک وژن تھا ۔ جمشید نسروانجی مہتا ، ٹیکم داس وادھومل ، قاضی خدا بخش ، خان بہادر اردشیرایچ ماما ، درگھا داس بی آڈوانی ، حاتم اے علوی ، آر کے سدھوا ، لال جی ملہوترا ، محمد ہاشم گزدر ، سہراب کے ایچ کیٹرک ، شامبو ناتھ مولراج ، یوسف عبداللہ ہارون ، مینوئل مسکیٹا ، وشرم داس دیوان داس اور حکیم محمد احسن جیسے قائدین یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ شہروں کی ایک ظاہری خوبصورتی ہوتی ہے اور ایک باطنی خوبصورتی ہوتی ہے ۔ انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ طاقت ور مغربی اور یورپی اقوام بے شک اپنے سامراجی اور نو آبادیاتی عزائم کے لیے باقی دنیا میں نسلی ، مذہبی ، لسانی اور فرقہ ورانہ منافرت کو فروغ دیتی ہیں اوروہ درندگی کی حد تک نسل پرست ہیں لیکن وہ اپنے شہروں میں کسی قسم کے امتیاز کو برداشت نہیں کرتی تھیں ۔ کراچی کی اس وقت کی قیادت نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ پوری دنیا یورپی شہروں میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ وہاں انسانوں کی رنگ نسل یا مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں ہوتی اور ہر ایک کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوتے ہیں ۔ کراچی کی سیاسی قیادت کو اس بات کا احساس تھا کہ یورپی شہروں کا یہی رویہ نہ صرف ان کا باطنی حسن ہے بلکہ ان کی اصل طاقت ہے ۔ وہ کراچی کو بھی دنیا کا عظیم شہر بنانا چاہتے تھے اور انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ ایک رنگا رنگ ، متنوع اور روادار معاشرہ ہی کسی شہر یا ملک کو عظمت کی اعلیٰ ترین منزل تک پہنچا سکتا ہے لیکن کراچی کی 1930 ء اور 1940 ء کی سیاسی قیادت کے وژن کے مطابق یہ شہر نہ بن سکا ۔ آج اسی شہر کراچی میں گندے نالوں اور کچرے کے ڈھیر سے انسانوں کی لاشیں ملتی ہیں ۔ مرنے والے زیادہ تر افراد نسلی منافرت کا شکار ہوتے ہیں ۔ بقول کسے ’’ میری شناخت ہی میرے قتل کا سبب ہے ۔ ‘‘ اس شہر میں نسلی منافرت کی بنیاد پر صرف زندگیاں ہی نہیں چھینی جاتی ہیں بلکہ لوگوں کے کاروبار بھی تباہ کیے جاتے ہیں اور انہیں روزگار ، تعلیم ، صحت اور بنیادوں سہولتوں کے حقوق سے بھی محروم کیا جاتا ہے ۔ صرف نسلی ہی نہیں بلکہ مذہبی اور فرقہ ورانہ منافرت کا زہر بھی اس شہر کی زندگی کو مفلوج کر چکا ہے ۔ کراچی میں اگرچہ جنوبی افریقا کی طرح ہیروں اور سونے کی کانیں نہیں ہیں لیکن یہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور ارد گرد کے وسائل کی وجہ سے دنیا کا امیر ترین شہر بن سکتا تھا ۔ کراچی کے ارد گرد ایسے شہر آباد ہو گئے ہیں، جہاں لوگ ہیروں اور سونے کے باتھ رومز بناتے ہیں اور سونے کی بنی ہوئی گاڑیاں چلاتے ہیں ۔ کراچی کی اس صورت حال پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عظیم نیلسن منڈیلا کی پارٹی نے بھی کراچی کے لوگوں کے ساتھ اسی طرح یکجہتی کا اظہار نہیں کیا ، جس طرح کراچی نے ان کے ساتھ کیا تھا ۔ کراچی کے لوگوں کے اپنے دکھ اپنی جگہ ، مگر انہیں اے این سی کے رویہ پر زیادہ دکھ ہو رہا ہے ۔
تازہ ترین