• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعلیم کو بجا طور پر کسی بھی فرد ، سماج اور قوم کی ترقی کا ضامن تصورکیا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے تعلیم کو اولیت دے کر ہی پسماندگی سے نجات حاصل کی اور کامیابی کی منازل طے کرتے ہوئے مہذب اورترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہو گئے۔ ملائشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جسکی تمام تر ترقی ڈاکٹر مہاتیر محمد کی تعلیمی پالیسیوں کی مرہون منت تھی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کبھی بھی حکمرانوں کی ترجیح اول نہ بن سکا۔ گرچہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں تعلیم کو اہم ایجنڈا کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ بلندو بانگ وعدے اور اعلانات بھی کئے جاتے ہیں۔ تاہم بر سراقتدار آنے کے بعد ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے میں تغافل برتا جاتا ہے۔ فوجی ادوار ہوں یا جمہوری، کم و بیش تمام حکومتیں، کوئی واضح اور جامع تعلیمی پالیسی مرتب کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ اسی عدم توجہی کا شاخسانہ ہے کہ تاحال ہم سو فیصد پرائمری تعلیم جیسا بنیادی ہدف تک حاصل نہیں کر سکے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ علم و آگہی ہی اقوام عالم میں سر بلندی اور غلبے کا باعث بنتی ہے اور دور حاضر میں قوموں کی بقاء فوج اور ہتھیاروں سے کہیں زیادہ تعلیم کی مرہون منت ہے۔ اس کے باوجود ہم اس اہم معاملے کو فوقیت دینے سے قاصر ہیں ۔پاکستان کا شمار آج بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو بے حد محدود تعلیمی بجٹ کے حامل ہیں۔ یہی لا تعلق طرزعمل ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہواہے۔ جہاں تک ہمارے نظام تعلیم کا تعلق ہے بلاشبہ وہ بے شمار خامیوں اور کمزوریوں کا حامل ہے۔ ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کے کئی متوازی دھارے بہہ رہے ہیں۔ یہ تمام دھارے ایک دوسرے کے متضاد اور متصادم ہیں۔ ایک جانب ملک کے طول و عرض میں پھیلے دینی مدارس ہیں۔ جہاں قدیم اورپرانی وضع کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ان مدارس کے فارغ التحصیل طالب علم فقط دینی تعلیم سے شناسائی رکھتے ہیں جبکہ دنیاوی تعلیم سے قطعی بے بہرہ ہوتے ہیں۔ دوسری جانب غیر ملکی تعلیمی اداروں سے الحاق شدہ، مغربی نصاب اور ماحول کے حامل ادارے ہیں۔ یہاں کے تعلیم یافتہ افراد کا طرز فکر ہماری تہذیب و ثقافت اور مذہب سے قدرے بعید ہوتا ہے۔ مزید براں دوسرے اور تیسرے درجے کے انگریزی میڈیم ادارے ہیں جو حسب استعداد ان مغرب زدہ تعلیمی اداروں کی نقالی میں مصروف ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے بھی ہمارے نظام کا اہم حصہ ہیں۔ کم و بیش 73 فیصد طالب علم انہی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ گرچہ ان اداروں میں معمولی فیس وصول کی جاتی ہے تاہم یہاں کا معیارتعلیم بے حد نا قص ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں کے تعلیم یافتہ افراد جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ بسا اوقات یہ افرادی قوت مارکیٹ کی ضروریات پورا کرنے کے بجائے بیروزگاروں کی تعداد میں اضافے کا سبب ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ ہمارا نظام تعلیم بذات خودتقسیم اور تفریق کا حامل ہے اور ایسے شہری پیدا کرنے میں مصروف ہے جو نہ صرف علمی بلکہ فکری اورنظریاتی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم اس صورتحال میںمزید پیچیدگی کا باعث بنی۔ اس ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ وفاق کے دائرہ اختیار سے نکل کر صوبوں کی تحویل میں آگیا ہے۔ اگرچہ ترمیم سے قبل بھی شعبہ تعلیم کے انتظامی امور ، اساتذہ کی تربیت اور بھرتی جیسے دیگر معاملات صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھے۔ مگر آیئنی طور پراب نصاب سازی کا اختیار بھی صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے۔ نصاب،نظام تعلیم کی روح تصورہوتا ہے۔ جو افکار کی نمو اور نظریات کی تشکیل کا باعث بنتا ہے۔ ایسی صورت میں جب ہمارے ہاں قومی یکجہتی اور وحدت کا فقدان ہے اور ہم صوبائی، لسانی ،علاقائی اور عصبی اکائیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ نصاب سازی کا اختیار صوبوں کو تفویض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر صوبہ اپنی پسند اور میلان طبع کے مطابق نصاب میں کوئی بھی تبدیلی کر نے کے لئے آزاد ہے۔ اس طرح توہم سندھی، بلوچی، پنجابی، اور پٹھان طرز فکر کو پروان چڑھائیں گے اور پاکستانیت کہیں کھوجائے گی۔ ہمارے ہاں نئے صوبوں کی تشکیل کا معاملہ بھی اکثر زیر بحث رہتا ہے۔ اگر درجنوں صوبے تشکیل پا جائیں تو ہر صوبہ اپنے شہریوں کو الگ نصاب اور طرز فکر فراہم کرئے گا ؟ اس رحجان کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہونی چاہیے بلکہ مناسب پیش بندی بھی ۔ نظام تعلیم یکساں ہو نہ ہو ،نصاب تعلیم یکساں رکھنا ناگزیرامر ہے۔ جذبہ قومیت کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ نصاب سازی،صوبائی کے بجائے وفاقی اور قومی سطح پر کی جائے۔ خاص طور پر ان مضامین کی جن کا تعلق ہماری تاریخ ، تہذیب، مذہب اور سماج سے ہے۔
اسی تقاضے کو محسوس کرتے ہوئے چند ماہ قبل موجودہ وفاقی حکومت نے ایک اچھی کاوش کی تھی۔ تمام صوبائی وزراء تعلیم سے مل کر اس امر پر اتفاق رائے کیا گیا تھا کہ نصاب کی تشکیل کا عمل صوبوں اور وفاق کی باہمی رضامندی سے طے کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں با قاعدہ مفاہمتی یاداشت پردستخط بھی ہوئے۔ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نوازشریف نے بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو معاشرتی علوم، اردواور انگریزی کے نصاب کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دو ماہ کے عرصے میں پرائمری سے یونیورسٹی سطح تک کے نصاب میں تبدیلی لائی جائے گی۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ جسے بالعموم سراہا گیا ہے۔ اچھا ہو اگر اس کا دائرہ کار دیگر مضامین تک بڑھایا جائے اور نصاب کو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بھی حکمت عملی وضع کی جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے حکومتی فیصلے اکثر و بیشتر محض اعلانات اور کاغذی کارروائی تک محدود رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے مجوزہ داخلی سلامتی پالیسی کابینہ میں پیش کی تھی۔ اس پالیسی میں ایک اہم نکتہ دینی مدارس کی اصلاح احوال سے متعلق بھی تھا۔ وزارت داخلہ نے ارادہ ظاہر کیا تھا کہ مدارس کے نصاب کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا اور ایک سال کے عرصے میں ملک میں موجود 20 ہزار دینی مدارس کو حکومتی نگرانی اور انتظام کاری میں لایا جائے گا۔ اور ایسے مدارس کی گرفت کی جائے گی جو بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کے بجائے فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی ترویج میں ملوث ہیں۔ امیدتھی کہ ان اقدامات سے دہشت گردی اورانتہا پسندی کے واقعات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس عمدہ تجویز کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں وزارت داخلہ کیجانب سے اس پالیسی کی منظوری اور عمل درآمد پر توجہ نہ دی گئی اور تاحال یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہے۔ ایوب خان اورپرویزمشرف کے دور حکومت میں بھی مدارس کی اصلاح احوال کے لئے پختہ عزم کا اظہار کیاجاتا رہا تاہم عملی طور پر کچھ نہ کیا گیا۔ یہی رویہ رسمی تعلیم کے بارے میں بھی روا رکھا گیا۔
اب جبکہ وزیر اعظم نوازشریف نے نصاب کی اصلاح احوال کا عزم ظاہر کیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی اور یکسوئی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
تازہ ترین