• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آبادمیں پاکستان تحریک انصاف کا آزادی دھرنا جاری ہے لیکن اس میں پہلے والی رونق نہیں رہی ہے ۔ 15 اگست 2014 ء کو وفاقی دارالحکومت کے ڈی چوک پر دو دھرنے دئیے گئے تھے۔ ایک انقلابی دھرنا اور دوسرا آزادی دھرنا تھا ۔ پڑوس والا انقلابی دھرنا اپنے ’’ مقاصد ‘‘ حاصل کرنے کے بعد ختم ہوچکا ہے ۔ چونکہ اس دھرنے کے شرکاء کی تعداد زیادہ تھی اور ان میں سے اکثریت نے وہاں مستقل رہائش اختیار کرلی تھی ، اس لئے زیادہ رونق رہتی تھی۔ انقلاب دھرنے نے آزادی دھرنے کا بھرم بھی رکھا ہوا تھا ۔آزادی دھرنے کے لوگ شام کو میوزک شو میں تفریح کے لئے آتے تھے اور چند گھنٹے گزارنے کے بعد واپس چلے جاتے تھے ۔ انقلاب دھرنا ختم ہوتے ہی وہاں کی رونق بھی ختم ہو گئی۔ آزادی دھرنا والے اب بھی شام کو محفل سجاتے ہیں لیکن نہ تو پہلے والا جوش و خروش ہے اور نہ ہی لوگوں کی بڑی تعداد میںشرکت ہے۔ اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مسلسل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم سے استعفیٰ لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے اور دھرنا جاری رہے گا ۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ عمران خان دھرنے کو جاری رکھتے ہوئے کچھ عرصے کے لئے بیرون ملک بھی جانے والے ہیں ۔
اس صورت حال میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ 1987ء میں جاپان کے ایک پہاڑی علاقے سے ایک معمر شخص کو گرفتارکیا گیا تھا وہ اپنی پرانی بندوق سے وہاں سے گزرنے والے ہوائی جہازوں کو نشانہ بناتا تھا۔ اس شخص سے پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے تو اس نے کہا کہ وہ جاپانی فوج کا سپاہی ہے اور اپنی ڈیوٹی کررہا ہے ۔ اس سے پوچھا گیا کہ اسے کس نے اور کب اس ڈیوٹی پر لگایا تھا جس پر اس کا جواب یہ تھا کہ 1945ء کی جنگ عظیم میں اس کی یہاں ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ اسے کسی نے واپس نہیں بلایا ہے۔ لہٰذا وہ یہاں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے۔ اس کو بتایا گیا کہ جنگ عظیم کو ختم ہوئے چالیس سال سے زیادہ کاعرصہ ہو چکا ہے ۔ جاپان نے عظیم تباہی سے دوچار ہونے کے بعد اپنی تعمیر نو کی ہے اور وہ اب دنیا کی بڑی معاشی طاقت ہے ۔ جنگ عظیم کے اس ’’ ہیرو ‘‘ کو ہوائی جہازوں پر فائرنگ کرنے کی کوئی سزا نہیں دی گئی بلکہ فرض شناسی پراسے ایوارڈ دیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اسے واپس نہ بلانے کی ذمہ داری ان فوجی افسروں پرڈال دی گئی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس افسر نے اسے وہاں پہاڑی علاقے میں بھیجا ہو، وہ ریٹائر ہوگیا ہے اور نئے آنے والے افسر کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ سابق افسر نے کس کی کہاں ڈیوٹی لگائی تھی ۔ بہرحال 42سال تک جس فوجی جوان نے اپنی ڈیوٹی نبھائی ،اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں ، جوعمران خان سے بھی زیادہ اپنی دھن کے پکے تھے۔ یہ فرض شناسی کا عظیم کارنامہ ہے کہ اگر کوئی واپس نہ بلائے تو 42 سال تک ایک ہی جگہ ڈیوٹی انجام دی جاتی رہے اور اس بات کی پرواء بھی نہ کی جائے کہ ڈیوٹی لگانے والا ریٹائر یا فوت ہو چکا ہے ۔ ہمارے عمران خان صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ وہ بھی اپنے عزم اور اپنی دھن کے پکے ہیں ۔ انشاء اللہ اس ماہ کی 14تاریخ کو آزادی دھرنے کے تین مہینے مکمل ہو جائیں گے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انہیں یہاں کسی نے بٹھایا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ انہیں یہاں سے ہٹانے والے کچھ لوگ ریٹائر ہو چکے ہیں ۔14اگست 2014ء کو پاکستانی سیاست کی جو جنگ عظیم شروع ہو ئی تھی ، وہ بھی ختم ہوچکی ہے ۔
عمران خان صاحب کا یہ نعرہ ہے کہ وہ ’’اسٹیٹس کو ‘‘ کے خلاف ہیں اور تبدیلی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں ۔ کوئی ان سے یہ سوال بھی کرسکتا ہے کہ جب دھرنے میں لوگ شریک ہی نہیں ہو رہے تو کیا اسے جاری رکھنا ’’ اسٹیٹس کو‘‘ نہیں ہے ؟ عمران خان صاحب ایک اسپورٹس مین کی حیثیت سے ہمیشہ ’’ فیئر پلے ‘‘ کی بات کرتے رہے ہیں اور انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق جیسے صلح جو اور رکھ رکھاؤ والے سیاست دان کو بھی تلخ باتیں سنادیں اور کہا کہ ’’ سراج الحق وکٹ کے دونوں طرف نہ کھیلیں ‘‘ لیکن ان سے کوئی دوسرا سوال یہ بھی کر سکتا ہے کہ امپائر نے انگلی نہیں اٹھائی ، کھیل کا فیصلہ بھی نہیں ہوا اور کھیل کا وقت بھی ختم ہو گیا ۔ اس کے باوجود بھی میدان میں موجود رہنا کہاں کا فیئر پلے ہے ۔ دھن کا پکا ہونا ایک الگ خاصیت ہے اور اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرنا انسانی شخصیت کا ایک دوسرامثبت جوہرہے ۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری دھرنا سمیٹ کر چلے گئے،یہ ان کی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ ہے ۔ عمران خان صاحب کو بھی بالآخریہی کرنا ہے۔ سیاست اور کھیل دونوں شعبوں میں کامیابیاں بھی ہوتی ہیں اور ناکامیاں بھی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ ناکامی کو تسلیم نہیں کرتا ہے تو اس کے بارے میں دوسروں کی رائے یہ ہوتی ہے کہ اس شخص میں ’’ اسپورٹس مین شپ ‘‘ نہیں ہے ۔ جیت کا عزم رکھنا اچھی بات ہے لیکن ہارنے کی صورت میں گراؤنڈ میں بیٹھ جانے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ پاکستان کی سیاست میں ’’اسٹیٹس کو ‘‘ ختم ہوچکا ہے ۔ احتجاج ، دھرنوں اور لانگ مارچوں سے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لئے جو ’’اسٹیٹس کو ‘‘ قائم کیا گیا تھا، وہ اب نہیں رہا ہے ۔ سیاسی ماحول تبدیل ہو چکا ہے ۔ اسٹیٹس کو والی قوتیں کمزور ہوچکی ہیں۔ اس تبدیلی کو تسلیم نہ کرنے والے ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کے حامی کہلائیں گے ۔ جمہوری عمل سے ہی کرپشن کا خاتمہ ہوگا ، شفاف انتخابات ہوں گے اور حقیقی احتساب کا نظام وجود میں آئے گا ۔ اب وہ لوگ بھی نہیں ہیں ، جو دھرنا دینے والوں سے کہیں کہ اب یہ دھرنا ختم کردیں ۔
تازہ ترین