• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھر کی صورت حال کے حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اورصوبائی وزیر منظور حسین وسان کی جو رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے ، اس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ پاکستان میں اس وقت ’’ گورننس ‘‘ سے بڑا کوئی اور ایشو نہیں ہے ۔خراب حکمرانی کی وجہ سے نہ صرف جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے بلکہ جمہوریت پر لوگوں کا یقین بھی متزلزل ہورہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ منظور حسین وسان نے اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور منظور حسین وسان کو جاری کردہ شو کاز نوٹس بھی واپس لے لئے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے منظور حسین وسان کو تھر کی صورت حال کے بارے میں انکوائری کرنے کی ہدایت کی تھی ۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اورسابق صدرآصف علی زرداری نے تھر کی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے پارٹی کے ایک سینئررہنما کو حقائق جاننے کی ذمہ داری سونپی اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس معاملے میں گہری دلچسپی لی ۔ ایسے اقدامات سے اپنی پارٹی اور حکومت میں احتساب کا ایک ایسا نظام قائم ہوتا ہے، جو اکثر سیاسی جماعتوں میں نہیں ہے۔ اگر پارٹی اورحکومت کے عہدیداروں کو اس بات کا احساس ہو کہ ان کی کارکردگی کوئی چیک کررہا ہے تو وہ بہتر طور پر اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس وقت میڈیا کی توجہ اگرچہ تھر کی صورت حال پرزیادہ مرکوزہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ہرعلاقے میں گورننس کے وہی مسائل ہیں ، جن کا ذکر منظور حسین وسان کے حوالے سے منسوب رپورٹ میں کیا گیا ہے ۔ ہرجگہ فنڈ خورد برد یا کرپشن اوربدعنوانی کی نذرہوجاتے ہیں، عوام کیلئے خریدی گئی گاڑیوں اور دیگرسامان کو وزراء یا بیوروکریٹ استعمال کرتے ہیں، فنڈ کے استعمال میں شفافیت اور احتساب کا کوئی نظام نہیں ہے اور اکثر مستحق افراد امداد سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ بے حسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ آنکھوں کے سامنے عظیم انسانی المیے رونما ہوتے ہیں اور ہمارے گورننس سسٹم میں کسی پرذمہ داری کا تعین نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں پر اگرذمہ داری عائد ہوتی بھی ہوتو انہیں سزا نہیں ملتی ۔ لوگ معطل ہوتے ہیں اور تھوڑے عرصے بعد انہیں بحال کرکے کسی دوسری جگہ اہم عہدہ دے دیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت کے لئے بے مثال جدوجہد ہوئی ہے اور اس جدوجہد میں لوگوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ 1988 ء کے بعد قائم ہونے والی جمہوری حکومتوں کی گورننس بتدریج خراب ہوتی رہی ہے۔ یہاں ہم آمرانہ حکومتوں کی بات اس لئے نہیں کریں گے کہ وہ جمہوری اور عوامی احتساب کو تسلیم ہی نہیں کرتیں۔ اس لئے انہیں آمریت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ہم جمہوری حکومتوں کی بات کررہے ہیں ، جن کی گورننس اس وقت بہت بڑا سوال بنی ہوئی ہے ۔ ہمارے سامنے حال ہی میں ’’ بیڈ گورننس ‘‘ کے بہت بڑے واقعات رونما ہوئے لیکن کسی کا احتساب نہیں ہوا ۔ پاکستان کے غریب عوام سے بجلی کی مد میں اوور بلنگ کرکے 7 ارب روپے سے زائد رقم وصول کی گئی مگر اس پر کوئی ایکشن نہیں ہوا ۔ گردشی قرضوں کی مد میں600 ارب روپے قومی خزانے سے چلے گئے۔ کسی کو پتہ نہیں ہے کہ یہ رقم کہاں گئی اور اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کا فائدہ کیا ہوا۔ بجلی کے منصوبوں میں کئی دیگر اسکینڈل سامنے آئے لیکن سب خاموش ہیں ۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں 14 افراد کو قتل کردیا گیا ۔ اب تک ذمہ داری کا تعین نہیں ہو سکا ۔ سارا ملبہ گلو بٹ پر ڈال کر سب لوگ ایک طرف ہوگئے ۔
سیاسی جماعتوں اور سرکاری اداروں میں نہ صرف احتساب کا نظام موجود نہیں ہے بلکہ عوامی سطح پراحتساب کا نظام بھی نہیں بننے دیا گیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں ایسے نظام قائم کرنے کا عزم ہی نہیں ہے۔ اگر عزم ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔ یہاں پرجنوبی امریکہ کے ملک پیرا گوائے کی ایک مثال پیش کرنا بہت ضروری ہے ۔ پیرا گوائے ہماری طرح طویل عرصے تک آمرانہ حکومتوں کے عذاب میں رہا ۔ وہاں بھی ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے ۔ کرپشن، اقرباء پروری، سفارش کی بنیاد پر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تقرریوں، فنڈ کے استعمال میں غیر شفافیت، احتساب کے نظام کی عدم موجودگی سمیت وہ تمام برائیاں بدرجہ اتم موجود تھیں جو ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہیں ۔ 1989ء میں جنرل الفریڈو کی بد ترین آمریت کا خاتمہ ہوا اور آزادانہ انتخابات منعقد ہوئے ۔ 1991ء میں وہاں مقامی ( بلدیاتی ) اداروں کے انتخابات منعقد ہوئے ۔ پیرا گوائے میں بھی دو بڑی سیاسی جماعتیں کولراڈو پارٹی اور لبرل پارٹی ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں اور وہ بھی گورننس کے ایشوز پر زیادہ توجہ نہیں دیتی تھیں۔ 1991ء کے بلدیاتی انتخابات میں ایک پرعزم نوجوان فیلی زولا ( Filizzola ) پیرا گوائے کے شہرآسنشن ( Ausuncion ) کا میئرمنتخب ہوا۔ اس نے اپنی میونسپلٹی میں گڈ گورننس اور احتساب کا ایسا نظام قائم کیا جو نہ صرف پوری دنیا کے لئے مثال بن گیا بلکہ پیرا گوائے کے دیگر بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت نے بھی اسی نظام کو اختیار کیا ۔ فیلی زولا کا تعلق ان دونوں سیاسی جماعتوں سے نہیں تھا۔ اس نے ’’ انسینٹرونیشنل ‘‘ نامی اپنی ایک الگ پارٹی بنائی۔ ایک میئر کی حیثیت سے اس نے سب سے زیادہ توجہ فنڈ کے استعمال میں شفافیت اور لوگوں کو سرکاری کاموں میں شریک کرنے پردی۔ اس نے پورے شہر میں کمیونٹی گروپ بنائے، جنہیں اسکولوں،اسپتالوں،دیگر بلڈنگوں اور پلوں کی تعمیر وغیرہ کے کام سونپ دیئے۔ اس نے میونسپلٹی سے ایک ایسا قانون منظور کرایا ، جسے ’’ سن شائن آرڈی ننس ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس آرڈی ننس کے مطابق ہرشہری میونسپلٹی کا ریکارڈ اور اکاؤنٹس چیک کرسکتا تھا ۔ اسے یہ کام کرتے ہوئے بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے یہ کام کر کے دکھایا ، جس کی وجہ سے عوامی احتساب کا نظام ڈرامائی طورپر انتہائی مستحکم ہو گیااور یہ نظام از خود پورے ملک میں پھیلنے لگا اور دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ’’ آسنشن ماڈل ‘‘ کو اختیار کیا گیا ۔ پاکستان میں گورننس اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی ، جب تک احتساب خصوصاً عوامی احتساب کا نظام قائم نہیں ہوجاتا ۔ بلاول بھٹوزرداری ایک نوجوان لیڈر ہیں اور انہیں ایک بڑی سیاسی جماعت ورثے میں ملی ہے۔ اس سیاسی جماعت کی جمہوریت کے لئے جدوجہد اور قربانیوں کی قابل فخر تاریخ ہے۔ قربانیوں کی وجہ سے پاکستان کے عوام کے ساتھ اس پارٹی کا روحانی رشتہ ہے ۔ یہ پارٹی ملک کی آج بھی سب سے بڑی پارٹی ہے اوراس میں یہ بھی جوہرموجود ہے کہ وہ لوگوں کو دوبارہ جذباتی طور پر اپنے ساتھ جوڑسکتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بہادر بھی ہیں اور پرعزم بھی ہیں۔ انہوں نے اور ان کے والد آصف علی زرداری نے تھر کے ایشو پرپارٹی کے اندر احتساب کا جوعمل شروع کیا ہے، اس کو گورننس کے ہر شعبے تک وسعت دینی چاہئے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو گڈ گورننس پر خصوصی توجہ دینی چاہئے اور خاص طور پر پیپلز پارٹی سے لوگ اس معاملے پر کچھ زیادہ ہی توقعات رکھتے ہیں۔ پیراگوائے کے فیلی زولا نے اکیلے یہ کام شروع کیا تھا اور اسی کام کی بنیاد پراپنی پارٹی بنائی تھی جبکہ بلاول بھٹو زرداری کے پاس ایک بڑی پارٹی اچھے نام کے ساتھ پہلے سے موجود ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ فیلی زولا سے زیادہ عزم اور بڑے وژن کے حامل ہیں۔
تازہ ترین