• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم تمام دوست اپنے میزبانوں کے ساتھ صوبہ ’’اُندلس‘‘ کے تاریخ ساز شہر غرناطہ کے ’’الحمرا‘‘ محل کے داخلی دروازے سے گزرتے ہوئے اپنے چاروں اطراف میں مسلمانوں کے طرز تعمیر کے خوبصورت شاہکار دیکھتے ’’سرو‘‘ کے پودوں کے اعلیٰ ترتیب سے بنائی گئی ’’لائنوں‘‘ کو داد دیتے ہوئے محل کے درودیوار پر بنائے گئے نقش و نگارکے سحر میں مبتلا ہوتے جارہے تھے۔ ’’اندلس‘‘ اسپین کا وہ نام تھا جو مسلمانوں نے اپنے دور میں رکھا تھا لیکن اب اندلس اسپین کا ایک صوبہ ہے۔ الحمرا محل مسلمانوں کی ملکیت تھا لیکن 1492میں اس کی چابیاں اس وقت کے عیسائی بادشاہ فرنیندو اوراس کی ملکہ عیسیٰ بیل کے سپرد کردی گئیں تھیں الحمرا محل کی سپردگی کے ساتھ ہی مسلمانوں کا اسپین میں موجود آخری نشان بھی مٹ گیا۔ محل کے اندر جو سب سے نمایاں چیز تھی وہ تھا دیواروں پر خوبصورت انداز میں لکھا ہوا عربی میں ’’ولا غالب الا اللہ‘‘ جس کا مطلب ہے کہ اور کوئی غالب نہیں سوائے اللہ کے اور یہ صرف مسلمانوں کا ہی ایمان ہے جو سب کے دلوں میں ہمیشہ رہے گا۔ محل کے بہت سے حصوں کو محفوظ رکھنے کے لئے انہیں دوبارہ مرمت کیا گیا ہے تاکہ یہ تاریخی اثاثہ ہمیشہ محفوظ رہ سکے۔ محل کے صدر دوازے سے اسپین کے بادشاہ ’’کارلوس‘‘ کے دور میں بنائے ہوئے چرچ تک پہنچنے تک ہمیں آدھا گھنٹہ لگا، ہم محل کے تمام حصوں کو شام ہونے سے پہلے مکمل طور پر دیکھنا چاہتے تھے، ورنہ ایک حصہ دیکھتے اور اس کو سوچتے ہوئے کہ یہ کس طرح بنایا گیا ہوگا ایک دن درکار ہوتا ہے۔ ہمارے پروگرام میں یہ بھی شامل تھا کہ شام کو ہم محل کے اس جانب جائیں جہاں سورج غروب ہونے کا منظر دنیا میںسب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ امریکن صدر بل کلنٹن نے یہ منظر دیکھ کر ایسا ہی کہا تھا۔ محل کے ساتھ ساتھ بنائی گئی مضبوط دیوار بھی اپنی مثال ہے۔ محل کو اس طریقے بنایا گیا ہے کہ اس کے اندر کھڑے ہو کر پورا شہر نظر آتا ہے اس محل کی تعمیر میں لکڑی اور سنگ مر مر کا استعمال انتہائی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ بادشاہ ’’کارلوس‘‘ کی رہائش گاہ کے ساتھ ہی ایک تالاب ہے جو دیکھنے کے لائق ہے۔ ہم محل کے مختلف حصوں کو دیکھتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں تازہ پانی کا فوارہ لگایا گیا ہے اور یہاں پانی نیچے سے اوپر آتا ہے یہ حیران کن اس لیے ہے کہ محل زمین سے بہت اونچائی پر ہے۔ فوارے کے ساتھ ہی ہمیں وہ جیل یا قید خانہ نظر آیا جہاں باغیوں کو قید کیا جاتا تھا۔ حالانکہ مسلمانوں کے آخری بادشاہ نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کر کےاس سے اقتدار چھینا تھا۔ محل میں آپ موبائل سے ویڈیو بنا سکتے ہیں لیکن مائیک کے استعمال اور پروفیشنل کیمرے سے فلم بندی کے لئے پہلے سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ محل کی بڑی دیوار کے ساتھ شہر ’’غرناطہ‘‘ کی جانب منہ کئے کھڑی اس دور کی ’’توپیں‘‘ بھی اپنی جگہ کسی عجوبے سے کم نہیں ہیں۔ الحمرا محل کے تمام حصوں میں سیاحوں کی کثیر تعداد اس بات کی غمازی کررہی تھی کہ یہ محل تاریخ کے اوراق میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ غرناطہ میں سورج تقریباً 9 بجے سے ساڑھے نو بجے تک غروب ہوتا ہے اس لیے ہم نے غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے محل سے کچھ ہی فاصلے پر مسلمانوں کے چھوٹے سے قبرستان جانے کو ترجیح دی جہاں ایک ایسی شخصیت دفن ہے جس کے بارے میں لوگ کم جانتے ہیں۔
الحمرا محل کے باہر بنی پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہم قبرستان کی طرف روانہ ہوگئے، قبرستان کے انتظامات ایک سپینش مسلمان عبدالعزیز احمد کے سپرد ہیں جو قبرستان کے دروازے پر ہمارا منتظر تھا کیونکہ اسے ہماری آمد کی اطلاع ہمارے میزبان نے دے رکھی تھی۔ قبرستان کے باہر ’’روضہ غرناطہ‘‘ کی تختی آویزاں ہے۔
احمد ہمیں ساتھ لے کر قبرستان کی طرف چل پڑا۔ قبرستان کے اندر ہم نے دیکھا کہ تقریباً 110 قبریں بنی ہوئی تھیں جن پر باقاعدہ نمبر لکھے گئے تھے۔ کوئی قبر دوسری قبر سے بلند یا علیحدہ نظر نہیں آرہی تھی سب قبریں زمین کے برابر تھیں اور ان کے ’’سرہانے‘‘ صرف مرحوم کا نام لکھ کر کتبہ آویزاں تھا۔ احمد کے ساتھ ہم مختلف قبروں میں دفن لوگوں کے نام اور وفات کی تاریخ پڑھتے آگے بڑھ رہے تھے ہمیں تلاش تھی اس مسلمان کی قبر کی جو یہودیت چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا اور پھراس مرد ِ مجاہد نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے اپنی خدمات کوپیش کیا تھا۔
ہم قبر نمبر 54 پر پہنچے۔ یہ وہی قبر تھی جس کی تلاش میں ہم یہاں آئے تھے۔ قبر کے سرہانے جو کتبہ نصب تھا اس پر مرحوم کا نام ’’محمد اسد‘‘ کندہ تھا۔ محمد اسد 12جولائی1900میں لیم برگ گلیسیا آسٹریا میں ایک یہودی کے گھر پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی۔ والد مذہبی آدمی تھے اس لئے وہ چاہتے تھے کہ اسد بھی مذہبی اسکالر بنے لہٰذا انہوں نے اسد کو اپنی مذہبی تعلیم کے لئے آمادہ کرلیا۔ محمداسد کا دل پڑھائی میں نہ لگاوہ 1922میں مڈل ایسٹ چلے گئے۔ سعودی عرب کی سیر کی ۔ وہاں مسلمانوں کا طرز ِ زندگی دیکھا۔ 1926تک وہیں رہے اور اسلام قبول کرکے اپنا نام ’’محمد اسد‘‘ رکھ لیا۔
برصغیر پاک و ہند میں محمد اسد 1932سے 1952 تک رہے۔ ان میں سے کچھ سال انڈیا اور باقی سال پاکستان میں رہے۔ جرمنی میں تعلیم حاصل کرتے وقت ان کی ملاقات شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے ہوئی۔ یہی دوستی انہیں ہندوستان لے آئی جہاں علامہ اقبال کی قربت نے انہیں اسلام پر کتابیں لکھنے کی ترغیب دی۔ محمد اسد نے اپنی زندگی میں تقریباً 40کتابیں لکھیں لیکن ان کی دو کتابوں کو دنیا بھر میں بہت پذیرائی ملی جن کے نام ’’دی میسج آف قرآن‘‘ اور ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ ہیں۔ 14اگست 1947کو جب پاکستان بنا تو محمد اسد پہلے غیرملکی تھے جنہیں پاکستان کی شہریت دی گئی۔ اب محمد اسد آسٹرین اور پاکستانی نیشنل تھے۔ پاکستانی شہریت ملنے کے بعد محمد اسد کو قائداعظم محمد علی جناح کے بنائے گئے ادارے ’’اسلامک ری کونسٹریکشن‘‘ کا ڈائریکٹر لگایا گیا اور وہ ڈپٹی سیکرٹری مڈل ایسٹ ڈویژن بھی رہے۔ محمد اسد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں پہلے نمائندے مقرر ہوئے۔
محمداسداپنی تمام عمر دنیا بھر کے مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کو قائم کرنے میںاپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کی تمام کتابیں اسلام، مکہ، قرآن کے پیغام اور مسلمانوں کےفرائض پر مبنی ہیں۔
محمد اسد نےاپنی زندگی کے آخری ایام اسپین میں اپنی مسلمان اور تیسری بیوی پاولا حمیدہ اسد کے ساتھ گزارے۔ محمد اسد کی دوسری بیوی کا تعلق سعوی عرب سے تھا جن کے بطن سے طلحہ اسد پیدا ہوئے جو ابھی زندہ ہیں اور وہ بھی اپنے باپ محمداسد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت ِمسلمہ کے اتفاق و اتحاد کے لئے کوشاں ہیں۔ محمد اسد 20فروری 1992 میں 91 سال کی عمر میں دنیائے فانی سے کوچ کرگئے اور غرناطہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
ہم نے محمد اسد کی قبر پر فاتحہ پڑھی اور بارسلونا واپسی کے لئے قبرستان سے باہر آگئے۔ قبرستان کے باہر ہمیں ایک طرف غرناطہ شہر اور دوسری طرف الحمرا بھی نظر آ رہا تھا۔ ہماری نظریں آسمان کی طرف مرکوز تھیں جبکہ ہمارا ذہن ہمیں مسلمانوں کے دو رِ حکومت میں جھانکنے پر مجبور کر رہا تھا۔


.
تازہ ترین