• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ دھرنوں نے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کیا ہے۔ اب اگر زمینی حقائق پر غور کیا جائے تو اُن کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے پاکستان میں معاشی، معاشرتی اور سیاسی عد م استحکام پیدا ہوا ہے۔ ان دھرنوں سے جو پاکستان کی سیاست میں احتجاجی اکھاڑ پچھاڑ کی خطرناک صورتحال ہے اس نے ریاست کے وجود اور سلامتی کو غیر یقینی حالت سے دوچار کردیا ہے۔ کچھ دن پہلے تک یہ حال تھا کہ ہر شخص الیکٹرونک میڈیا کا اسیر ہوگیا تھا اور یہ توقع کررہا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت اب گئی اور تب گئی۔جب کسی بھی ملک میں ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں تو بیرونی طاقتیں مختلف طریقوں سے اپنے مفاد میں مداخلت کرنےلگتی ہیںاور حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کی بڑی مثال امریکہ ہے جو دھرنوں سے پہلے بھی اور دھرنوں کے دوران بھی واضح طور پر پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے اور ان کا پاکستان میں سفیر اتنا زیادہ متحرک رہا ہے کہ وہ سفیر کم اور وائسرائے زیادہ لگتا تھا اور یہ اس لئے ہوا کہ دھرنوں نے عدم استحکام کی صورتحال پیدا کردی ہے۔
اب جو پینٹاگون کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ امریکہ جس کی افغانستان میں پاکستان نے جان بچائی ہے،وہ پاکستان کے خلاف کیا عزائم رکھتا ہے۔ اگر پاکستان سوات میں جنوبی وزیرستان میں اور شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کرتا جس کی وجہ سے افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں پرطالبان کا دبائو کم ہوا وہ افغانستان سے اسی طرح نکلنے کی کوشش کررہا ہوتا جیسی روس نے کی تھی۔یہ رپورٹ کہ پاکستان شدت پسندوں کو بھارت اور افغانستان کے خلاف استعمال کررہاہے۔ پینٹاگون اور CIA کی یہ نئی حکمت عملی ہے جس کا مقصد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو مزید خراب کرنا لگتا ہے۔علامہ طاہر القادری کا دھرنا تو لپٹ گیا ہے اور عمران خان کا دھرنا بھی ختم ہوجائے گا لیکن ان دھرنوں سے پاکستان کے سیاسی استحکام کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ بھارت نے جس طرح اپنا رویہ تبدیل کیا ہے اس کو پینٹاگون کی سازش سمجھنا چاہئے وہ افغانستان کے لئے سیٹ اپ کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔اس کے لئے انتہائی دانشمندانہ روش کی ضرورت ہے۔ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر شدید احتجاج سے کام نہیں چلے گا اس کے لئے اسٹرٹیجک سیاسی پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ چین سے اس مداخلت پر مشاورت کی جائے۔چین اس علاقے میں امریکی اثرات کے پھیلائو کو ناپسندیدہ رویہ سمجھتا ہے۔ امریکہ کا موجودہ صدر کمزور ترین صدر ہے اور یہ میں دلائل سے اپنے کالموں میں لکھتا رہا ہوں۔ اب کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اقلیت میںآجانے سے امریکن صدارت پر بڑا شدید دبائو بڑھ گیا ہے۔ اس رپورٹ کا اجراء ایسے وقت میں جب پاکستان سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے بڑا معنی خیز ہے۔
جس طرح پاکستان کے لئے امریکی حکومت کی پالیسیاں سمجھنا ضروری ہے اسی طرح پاکستان کو امریکہ میں رپبلکن کے Mind کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ وہ صدر اوباما کے آنے والے دو سال میں ایسی حکمت عملی آگے بڑھائیں گے جس سے صدر اوباما کو وہ ایک ناکام صدر ثابت کردیں۔ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ صدر اوباما کے لئے آنے والے دو سال بہت مشکل کے سال ہوں گے۔ ریپبلکن پارٹی کی کانگریس میں 52نشستیں ہیں جبکہ ڈیموکریٹس کی 44ہیںسینیٹ میں رپبلکن پارٹی کو پہلے ہی اکثریت حاصل ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ۔ احتجاجی دھرنوں سے پاکستان میں مہنگائی بڑھی ہے،معاشی ترقی کو دھچکہ لگا ہے، بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔ میاں نواز شریف کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عام لوگوں کے استعمال کی اشیاءسستی کرنے کی ضروت ہے۔گیس، پیٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل مزیدسستا کیا جائے۔اس طرح عوام ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوں گے۔دھرنوں کی وباء سکھوں سے ہمیں ملی ہے۔ سکھ اکثر کبھی نہر روکو کبھی سڑک روکومورچہ لگاتے تھے لیکن اُن کی وہ سیاست کامیاب نہیں ہوئی، نہ وہ تعمیرکرسکے اورنہ ہریانہ کے قیام کو روک سکے۔یہاں بھی اس کو کامیاب نہیں ہونا تھا ایک اورمعاشرتی خرابی ان دھرنوں سے یہ ہوئی کہ سیاست میں اور روزمرہ کی زندگی میں غیر پارلیمانی بیان و زبان کو رواج مل گیا۔مولانا فضل الرحمٰن نے، جن خواتین نے دھرنوں میں شرکت کی اُن کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ یقینی طور پر سخت لہجے میں کیا۔ اس کو اپنی تہذیبی اور دینی اقدار اورخواتین کی عزت و حرمت کو مدنظر رکھ کر بیان کیا جاسکتا ہے۔ اسلام نے عورت کو جو مقام اور عزت عطا کی ہے یہ مولانا سے زیادہ کون جانتا ہے۔ عورتیں علامہ صاحب کے دھرنے میں تھیں اور عمران خان کے دھرنے میں بھی لوگ رویوں اور فرق کو محسوس کررہے تھے۔ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے اور اچھی روایات کو فروغ دینا چاہئے۔
ابھی تو الیکشن نہیں ہورہے لیکن اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے نفاق کی نہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے اس مشکل وقت میں اہم کردار ادا کیا اور کررہے ہیں۔ انہوں نے اگر تھوڑا سا حصہ بھی اس بحران کو ختم کرنے میں ڈالا ہے تو یہ ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اصل بات یہ ہے، کہ احتجاج کی ساری سیاسی کوشش بغیر کسی منصوبہ بندی کے اور نتائج کو سامنے رکھ کر کی گئی تھی۔ اس احتجاج کے نقصانات اور فائدے کا پیمانہ اس سے پیدا ہونے والے نتائج ہوں گے جو آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا اسٹرٹیجک نقصان عالمی سطح پر پہنچ سکتا تھا اور کسی قدر پہنچا بھی ہے لیکن چین کی قیادت نے پاکستان سے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو منفی رویوں سے نہیں دیکھا۔ اس کا ثبوت نواز شریف کا چین کا دورہ ہے اگر چین کے صدر اسلام آباد آتے تو اس کا بڑا impact ہوتا۔ ان کا دورہ دھرنوں کی وجہ سے ختم ہوا اور عمران خان کی کمزور بنیادوں پر کھڑی کی گئی تحریک مہندم ہونے جارہی ہے۔ اس کی شروعات تو ہوچکی ہے۔
جہاں تک نظام کے تبدیل ہونے کا سوال ہے کوئی نظام اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتا جب تک معاشرہ تبدیل نہ ہو ، لوگ تعلیم یافتہ نہ ہوں، اچھے برے کی تمیز نہ رکھتے ہوں، کہا جاتا ہے کہ 1970ء کے انتخابات شفاف تھے یہ صرف خام خیالی ہے مشرقی پاکستان میں اتنی بڑی دھاندلی ہوئی کہ وہاں پاکستان کے حامی بنگالیوں کو آزادی سے ووٹ ڈالنے ہی نہیں دیئے گئے۔ عوامی لیگ کے حامیوں نے دوسری جماعتوں کے ووٹروں کو گھروں تک سے نکلنے نہیں دیا ۔جن سیاسی پارٹیوں نے دھرنے دیئے ہیں ان کا سیاسی مستقبل داو پر لگ گیا ہے۔ یہ دھرنے کس طرح ختم کردیئے گے یہ راز زیادہ دنوں تک راز نہیں رہے گا سب کچھ سامنے آجائے گا۔
تازہ ترین