• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا مقدمات کی آڈٹ رپورٹ تیار کر لی گئی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت مجموعی طور پر ایک لاکھ 34 ہزار 176 مقدمات فیصلہ طلب ہیں چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے رپورٹ تمام جج صاحبان کو بھجوا دی ہے جو انہیں کم از کم ایک سال کے عرصے میں نمٹانے کے لئے پرعزم ہیں زیر التوا مقدمات کی بھرمار صرف لاہور ہائیکورٹ کا نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کی اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ ماتحت عدالتوں میں بھی سالہا سال سے لاکھوں کی تعداد میں ایسےمقدمات موجود ہیں جن کی کسی نہ کسی وجہ سے سماعت مکمل ہوئی نہ ان کے فیصلے ہوئے یہ ہمارے ملک کے عدالتی اور قانونی نظام کا المیہ ہے کہ انصاف کے طلبگار سائل بڑی امیدیں لے کر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں مگر وہاں سے پیشیاں بھگتنے کے سوا کچھ ان کے ہاتھ نہیں آتا خاص طور پر دیوانی مقدمات اتنا طول کھینچتے ہیں کہ سائلوں کی کئی پشتیں گزر جاتی ہیں مگر مقدمے ہیں کہ وہیں پڑے رہتے ہیں اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں مثلاً ججوں کی تعداد اور عدالتی عملے کا کم ہونا، انوسٹی گیشن اہلکاروں کی سست روی اور پولیس کی ناقص تفتیش، وکلا کی جانب سے لمبی لمبی تاریخیں لینا اور بعض اوقات خود ایسے فریقوں کی جانب سے حیلے بہانوں سے مقدمات کو ٹالنے کی کوشش جن کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں ہوتا اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے طویل عرصے سے عدالتی اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے مگر اس جانب اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ضرورت اس امر کی ہے کہ مقدمات کے التوا کی وجوہات دور کرنے کے لئے جامع اصلاحات نافذ کی جائیں ججوں کی تعداد بڑھائی جائے مقدمے کے نوعیت کے مطابق اس کی سماعت کا دورانیہ اور فیصلے کا وقت مقرر کیا جائے اور عدالتی عملے سمیت جو لوگ غیر ضروری تاخیر کا باعث نہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے اس سلسلے میں انگریز کا یہ مقولہ یاد رکھا جائے کہ انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی ہے۔
,
تازہ ترین