• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے بڑی حکمت آموز بات کہی تھی کہ میں اپنے حافظے کی الماریوں میں تمام الم غلم سجا کر نہیں رکھتا۔ ضروری چیزوں کو محفوظ رکھتا ہوں باقی سب غیرضروری باتوں کو محو کردیتا ہوں۔ مولانا کا ارشاد بجا مگر بعض مناظر اپنی اثر انگیزی کے اعتبار سے ناقابل فراموش ہوتے ہیں اور ان کے نقوش ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ کے حافظے کی دیواروں پر ثبت ہوجاتے ہیں۔
چند روز پہلے تحریک انصاف کے دھرنے کو ناکام بنانے کے لئے لاہور میں شاہدرہ سے لے کر گورنر ہائوس تک سڑکوں پر ایک رات پہلے ہی کنٹینر لگا کر راستے سیل کر دئیے گئے تھے۔ دھرنے والے روز ٹیلی وژن اسکرین پر ایک باپ کو روتے اور پولیس والوں کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے دیکھا۔ پولیس والوں نے اوپر کے احکامات کی تعمیل میں ایمبولینس کو بھی راستہ دینے سے انکار کردیا کیونکہ انہیں سڑکوں کو مکمل طور پر سیل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اس منظر کو دیکھ کر میرے ذہن کی اسکرین پر مناظر کی ایک فلم چل گئی۔ آج سے کئی سال پہلے جب ہم طائف سعودی عرب میں مقیم تھے۔ ایک جمعتہ المبارک کے روز بعد نماز جمعہ میں ڈرائنگ روم میں اپنے ایک دوست کے ساتھ محو کلام تھا کہ اچانک میرے دوست نے چونک کرکہا کہ اسے کسی بچے کی سسکیوں کی آواز آرہی ہے۔ میں لپک کر سیڑھیوں میں آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرا چھ سات سالہ بیٹا ڈیوڑھی میں نیم بے ہوش پڑا سسکیاں لے رہا ہے۔ میں نے ننگے پائوں بچے کو گود میں اٹھایا میرے دوست نے اسٹیرنگ سنبھالا اور ہم کنگ فیصل اسپتال طائف کی ایمرجنسی کی طرف نہایت تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی بھگاتے ہوئے روانہ ہوئے۔ راستے میں کئی چوراہے آئے اور ہر چوراہے پر میں نے شرطے کو بتایا ’’طفل مریض شدید‘‘ یہ سن کر پولیس مین ہر طرف کا ٹریفک روک کر ہمارے لئے راستہ فراہم کردیتا۔ کئی پولیس والوں نے ایمبولینس منگوانے کی پیش کش بھی کی مگر ہم کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اسپتال کی ایمرجنسی پہنچنا چاہتے تھے جو زیادہ دور نہ تھی۔
بچے کو فی الفور ایمرجنسی میں داخل کرکے اس کے مختلف معائنے اور ٹیسٹ شروع کردئیے گئے۔ اس دوران میرا دل دھڑک دھڑک کر دعائیں کررہا تھا اور رب ذوالجلال کے حضور بچے کی صحت و سلامتی کے لئے گڑگڑا رہا تھا۔ جب تک ڈاکٹروں نے بچے کے خطرے سے باہر ہونے کی نوید نہیں سنا دی اس وقت تک میری کیفیت ڈوب ڈوب کر ابھری نائو والی تھی۔
اس روز ایمبولینس میں دم توڑتے بچے کا باپ سڑک پر تڑپ رہا تھا اور ادھر مجھ سمیت ہزاروں باپ گھروں میں تڑپ رہے ہوں گے تاہم جب ایک ٹی وی رپورٹر نے یہ مناظر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو دکھائے اور ان سے سوال کیا کہ جناب اگر یہ بچہ دم توڑ جاتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔ اس المناک اور غم ناک منظر پر کسی قسم کا اظہار افسوس یا اظہار تشویش کرنے کے بجائے رانا صاحب نے نہایت cold blooded جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس کا ذمہ دار ایک پاگل اور ایک مولوی ہوگا‘‘۔ بالآخر بچہ ایمبولینس میں دم توڑ گیا تو پھر خادم اعلیٰ نے بھی جھرجھری لی اور تین افسران بالا کی کمیٹی قائم کردی اور چوبیس گھنٹے میں رپورٹ طلب۔ وطن عزیز میں اس طرح کی رپورٹیں طلب کرنا حکمرانوں کا شیوہ ہے۔ شاعر نے ایسے ہی مواقع کے لئے کہا تھا۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
میں تو یہ سوچتا ہوں کہ جب ساری دنیا نے ایمبولینس میں دم توڑتے بچے کے مضطرب و پریشان باپ کی تصویر ِبے بسی اور حکمرانوں کی سنگ دلی دیکھی ہوگی تو وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔جو ممالک ہمارے حکمرانوں کے خوابوں کے دیس ہیں اور جہاں ہمارے یہ جمہوری بادشاہ عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے جائیدادیں اور محلات خریدتے ہیںاور اپنا علاج معالجہ کرواتے ہیں وہاں انسانوں کے ہی نہیں جانوروں کے بھی ناقابل یقین حقوق ہوتے ہیں۔ واشنگٹن کے پنسلوانیا ایونیو سے پیدل گزرتے ہوئے اچانک ایک زخمی کتوبر کہیں سے آکر میرے سامنے گرا یہ دیکھ کر میرے پیچھے سے ایک خاتون کی چیخ فضا میں بلند ہوئی۔ اوہ مائی گاڈ… اس کے ساتھ ہی خاتون نے پرس سے موبائل فون نکالا اور کوئی ایمرجنسی نمبر ملایا۔ چند ہی منٹوں میں ایک ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی آئی، ویٹرنری ڈاکٹر نے باہر نکل کر جلدی سے زخمی کتوبر کو سنبھالا اور ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی اسپتال کے لئے رواں دواں ہوگئی۔ وہاں جانوروں کی ایمبولینس کے لئے جگہ جگہ انسان راستہ بناتے ہیں اور یہاں تڑپتے انسانوں کی ایمبولینس کو ’’انسان‘‘ ہی راستہ دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ یوں لاہور میں دو بچے اور راولپنڈی میں ایک حاملہ خاتون حکومتی کنٹینروں کی نذر ہوگئے۔ گزشتہ دنوں پنجاب میں بچوں کے اغوا ہونے کی خبریں آئیں۔ صرف چندماہ کے دوران لاہور سے سینکڑوں بچے اغوا یا لاپتہ ہوئے۔ پہلے تو حکمرانوں، ان کے اہل کاروں، پولیس کے افسروں کے بیانات اور اخبارات میں شائع ہونے والے سرکاری اشتہاروں کے ذریعے بچوں کے اغوا کو تسلیم کرنے سے تقریباً انکار کردیا گیا اور لاپتہ ہونے والے بچوں کی ذمہ داری ان کے والدین کی ناقص تربیت پر ڈال دی گئی اور یوں حکومت وقت اور ریاست بری الذمہ ہوگئیں۔ اس دوران اغوا اور لاپتہ ہونے والے والدین اور ان کے متعلقین پر جو قیامت ٹوٹی اور جس طرح وہ روز مرتے اور روز جیتے تھے اس سے حکومت لاتعلق ہوگئی۔ ان دنوں بھی مجھے حکمرانوں کے ’’دیس‘‘ امریکہ کا ایک واقعہ یاد آتا رہا۔ امریکی ریاست اریزونا کے ایک ٹائون سے ایک پانچ چھ سالہ بچہ لاپتہ ہوگیا۔ حکومتی اداروں نے بچے کی تلاش میں رات دن ایک کردئیے۔ اس تلاش میں ہیلی کاپٹروں اور سراغ رساں کتوں سمیت ہر ذریعہ استعمال کیا گیا مگر دنوں کے بعد ہفتے اور ہفتوں کے بعد مہینہ گزر گیا مگر بچے کا کہیں کوئی سراغ نہ ملا۔ اس تلاش میں ریاست اریزونا کے ساتھ امریکہ کی فیڈرل حکومت اور سارے ملکی و ریاستی ادارے شامل ہوگئے۔ سوشل این جی اوز نے بھی غم زدہ والدین کی دل جوئی میں کوئی کمی نہ کی اور تلاش کے عمل میں اپنی خدمات بھی پیش کردیں۔ اس ساری تلاش کے دوران حکومتی یا نجی کسی ادارے یا شخصیت نے والدین کو مطعون کیا اور نہ ہی یہ کہا کہ ایک بچہ ہی تو ہے، اس کی تلاش پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بچے کے نقوش پا سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ صحرا کی جانب گیا ہے۔ جب تقریباً سب ادارے بچے کی زندگی سے قدرے مایوس ہوگئے تب بھی ایک جرمن نژاد امریکی خاتون نے اپنے کتوں کے ساتھ صحرا میں تن تنہا بچے کی تلاش جاری رکھی۔ تقریباً پانچ ہفتوں کے بعد ایک روز اس خاتون کو کتوں کی نشاندہی پر جھاڑیوں میں ایک کٹی پھٹی بچے کی قمیض نظر آئی۔ قریب پہنچے تو وہی گمشدہ بچہ تھا جس کا جسم نیلا پڑ چکا تھا خاتون نے اس کی نبض ٹٹولی تو وہ رک رک کر چل رہی تھی۔ اس نے فوری طور پر ریاستی اداروں کو اطلاع دی۔ تھوڑی ہی دیر میں کئی ہیلی کاپٹر آن پہنچے۔ بچے کو فی الفور اسپتال منتقل کیا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں کی انتھک کوششوں سے بچے کو بچا لیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جب ایک کتیا نے بے ہوش بچے کو دیکھا تو اس نے اسے اپنا دودھ پلانا شروع کردیا اور یوں جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ زندہ اور ترقی یافتہ ممالک میں انسانی ہی نہیں حیوانی زندگی کی بھی کتنی قدر دانی کی جاتی ہے اور یہاں حکمران اپنے لئے تو فائیو اسٹار نہیں سیون اسٹار محلات بناتے ہیں، اپنے جہازوں میں آسائش و آرائش کا ہر سامان مہیا کرتے ہیں اور اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج کروڑوں ڈالر کے مصارف سے ترقی یافتہ ممالک میں جاکر کراتے ہیں۔
رہے بیس کروڑ عوام تو انہیں وہ حشرات الارض سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ وہ پاناما لیکس اور کرپشن کے دوسرے میگا اسکینڈلوں میں ملوث پائے جائیں اور کوئی ان پر انگلی اٹھائے تو وہ تنقید کا جواب دینے کے بجائے اس انگلی کو کاٹ دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ قارئین کو حیرت ہوگی کہ آج میں نے شاید پہلی مرتبہ اپنے کالم کا عنوان انگریزی میں کیوں لکھا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ میرے ایک فوٹو گرافر دوست نے اپنے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگتے باپ کی تصویر نہ صرف مجھے بلکہ کئی ملکی و غیرملکی اخبارات کو اس کیپشن کے ساتھ ارسال کی۔
A Father Begging Life For His Dying Son.

.
تازہ ترین