• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ امر ہر محب وطن پاکستانی کیلئے باعث تشویش ہونا چاہئے کہ گزشتہ تین برسوں میں بھی پاکستان کے مجموعی قرضوں میں تقریباً 5,700 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے حالانکہ اس مدت میں سعودی عرب سے 1,5 ارب ڈالر کی رقوم ملیں، منفعت بخش اداروں کے حصص غیر ضروری طور پر فروخت کئے گئے اور عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں زبردست کمی ہونے سے تیل کی درامدات کی مالیت میں زبردست کمی ہوئی وگرنہ قرضوں کا حجم مزید بڑھ جاتا۔ موجودہ معاشی اشارئیے اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ معیشت کسی بھی بڑے داخلی یا بیرونی جھٹکے کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ پاکستان قرضوں کے شیطانی چکر میں پھنستاچلا جارہا ہے ان قرضوں کے ضمن میں چند چشم کشا حقائق نذر قارئین ہیں۔ 1۔آزادی کے 33 برس بعد جون 1980ء میں پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم صرف 155 ارب روپے تھا جو جون 2010 میں بڑھ کر 8911 ارب روپے ہوگیا۔ اس کے 6برس بعد جون 2016ء کو ان قرضوں کا حجم 11140ارب روپے کے اضافے کے بعد 20051 ارب روپے ہوگیا۔ صرف 6برسوں میں 11140 ارب روپے کا اضافہ اس لئے بھی تشویشناک ہے کہ آزادی کے 63 برس بعد جون 2010 میں قرضوں کا مجموعی حجم اس اضافے سے کم یعنی 8911 ارب روپے تھا۔
2 ۔آزادی کے 41برس بعد پاکستان کے بیرونی قرضوں و ذمہ داریوں کا حجم 12.9 ارب ڈالر تھا جو 30جون 2007ء کو بڑھ کر 40.5ارب ڈالر اور 30 جون 2016ء کو 72.98 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
3۔30جون 2016ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان کے بیرونی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں 7.8ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جو پاکستان کی 69سالہ تاریخ میں کسی بھی مالی سال میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ اس مالی سال میں ان قرضوں میں ہونے والے 7.8 ارب ڈالر کے اضافے کے مقابلے میں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں صرف 4.4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا یعنی بیرونی قرضوں کا ایک حصہ ادائیگیوں کے توازن کی مالکاری کیلئے استعمال ہوا۔
4۔2002ء میں وطن عزیز میں پیدا ہونے والا ہر بچہ تقریباً 63000/= روپے کا مقروض تھا جبکہ ملک میں آنکھ کھولنے والا ہر نوزائیدہ بچہ 107000/= روپے کا مقروض پیدا ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ 1980ء سے 2016ء کے 36برسوں میں بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک کی معیشت کی اوسط شرح نمو پاکستان کی 4.7 فیصد کی اوسط شرخ نمو سے یقیناً بہتر رہی لیکن اس مدت میں پاکستان کے قرضوں کا مجموعی حجم 155 ارب روپے سے بڑھ کر 20051 ارب روپے ہوگیا۔ ان قرضوں سے عام آدمی کو تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ان رقوم کا بڑا حصہ کرپشن، ٹیکس کی چوری، شاہانہ اخراجات، غیر ضروری درآمدات اور طاقتور طبقوں کو فیاضی سے دی جانے والی مراعات کی نذر ہوگیا، ان قرضوں کی مع سود ادائیگی بحرحال عوام کو ہی اپنے ٹیکسوں سے کرنا ہوگی۔
گزشتہ 3 برسوں میں پاکستانی معیشت کی اوسط شرح نمو نہ صرف جنوبی ایشیا کے 7ممالک کی اوسط شرح نمو بلکہ پاکستان کی 55 برس کی اوسط شرح نمو سے کم رہی جبکہ ملک کے قرضوں کا حجم بڑھتا رہا۔ گزشتہ دو برسوں میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم بھی گرا۔ گزشتہ تین برسوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، داخلی و قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کاری کی شرحیں بھی مایوس کن حد تک کم رہیں۔ خدشہ ہے کہ موجودہ مالی سال میں پاکستان آنے والی ترسیلات اور امریکی امداد میں کمی کا رجحان رہے گا۔ تخمینہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان ٹیکسوں، بچتوں اور سرمایہ کاری کی مد میں جی ڈی پی کے لحاظ سے سالانہ تقریباً 13000 ارب روپے کم حاصل کررہا ہے۔ یہی نہیں، ان رقوم کا دیانتدارانہ استعمال بھی نہیں ہورہا۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ ان شرحوں کو بڑھانے اور ان رقوم کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کیلئے جن بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے ان کو کرنے کی کوئی بھی حکومت خواہ ماضی کی یا موجودہ قطعی تیار نہیں رہیں۔ اس ضمن میں حکومتوں کو پارلیمینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی مکمل آشیرباد حاصل رہی ہے۔
پاکستان کیلئے 6.64 ارب ڈالر کے قرضوں کا تین سالہ پروگرام ناکام رہا ہے۔ پاکستان عملاً 1988ء سے آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل پروگرام کے تحت رہا ہے جس کا فلسفہ معیشت کی ترقی کے بجائے معیشت کا استحکام رہا ہے لیکن معیشت میں پائیدار بہتری آئی ہی نہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں آئی ایم ایف نے قرضے کی شرائط پوری نہ کرنے کو 16مرتبہ نظر انداز کیا اور آئی ایم ایف کے رویے کے نتیجے میں پاکستان میں اکائونٹنگ جادوگری اور لیپا پوتی کی معیشت کو فروغ ملا۔ دراصل 28ستمبر 2008 کو حکومت نے فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ ایک سودا کیا تھا جس کے تحت ملک کے اندر دہشت گردی کی جنگ امریکی حکمت عملی کے تحت لڑنے کے صلے میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ دلوایا گیا تھا۔ حکومت اسٹیٹ بینک اور پارلیمنٹ کئی ماہ تک قوم کو یہ یقین دلاتے رہے کہ فرینڈر آف پاکستان سے پاکستان کو رقوم ملیں گی۔ یہ معیشت کے شعبے میں پاکستان میں قوم سے کیا جانے والا سب سے بڑا دھوکہ تھا۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے 6.64 ارب ڈالر کا قرضہ گزشتہ حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے لئے ہوئے قرضے کی ادائیگی کیلئے حاصل کیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں سوات و جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہوئے اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن جاری ہے۔ خدشہ ہے کہ اس قرضے کی ادائیگی و اس قرضے کی شرائط اور حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ایک نجاتی پیکج کے تحت آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کیلئے رجوع کرنا پڑے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا جب دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کو پاکستان کی مدد کی نہیں بلکہ پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت قرضے کی شرائط کیلئے امریکہ کے ایماء پر آئی ایم ایف کی جو حکمت عملی ہوگی اس کے نتائج کا سوچ کر روح بھی کانپ جاتی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری سے پاکستان کی قسمت بدلنے کا خواب پورا کرنے کیلئے یہ ناگزیر ہے کہ 1۔منصوبے میں مکمل طور پر شفافیت رکھی جائے 2۔اس منصوبے کے ضمن میں چھوٹے صوبوں خصوصاً بلوچستان کے تحفطات دور کئے جائیں اور اس منصوبے کو کسی حالت میں بھی سیاسی نہ بننے دیا جائے۔ 3۔سمندری حدود میں منصوبے کو ریاستی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کیلئے چین کے تعاون سے موثر حکمت عملی وضع کی جائے اور 4۔معیشت کی بحالی اور اس منصوبے میں بڑے پیمانے پر حکومت ملکی سرمایہ کاروں اور سمندر پار پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کیلئے منصوبہ بندی کی جائے۔ یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ کرپشن پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی وضع کی جائے۔ نیب نے اپنے قیام کے بعد سے اب تک 274ارب روپے کی وصولی کا دعویٰ کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ نیب نے بینکوں کے قرضوں کی وصولی کا جو دعویٰ کیا ہے اسٹیٹ بینک اس کی تردید کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب کی کارکردگی کے ضمن میں سخت ترین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ معزز عدالت لوٹی ہوئی دولت کی وصولی کے ضمن میں نیب کے دعوئوں کا بھی جائزہ لے۔

.
تازہ ترین