• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قربانی کے معاشی فوائد پر ایک نظرڈالنے سے قبل یہ جانیں کہ اس وقت پوری دنیا میں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں؟ اسلامی دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک انڈونیشیا ہے۔ اس کی آبادی ساڑھے 25 کروڑ ہے اور اس میں سے 1 کروڑ 8 لاکھ 40 ہزار لوگ ہر سال قربانی کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر پاکستان ہے۔ آبادی قریباً 20 کروڑ اور ہر سال 1 کروڑ 22 لاکھ لوگ قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی 15 کروڑ 14 لاکھ اور 80 لاکھ 72 ہزارہر سال قربانی کرتے ہیں۔ مصر 8 کروڑ 5 لاکھ 24 ہزار آبادی اور 62 لاکھ 23 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ ترکی 7 کروڑ 46 لاکھ آبادی اور 48 لاکھ 20 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ ایران 7 کروڑ 38 لاکھ آبادی اور 21 لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔ مراکو 3 کروڑ 23 لاکھ آبادی اور 8 لاکھ 40 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ عراق 3 کروڑ 11 لاکھ آبادی اور 4 لاکھ 72 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ الجیریا 3 کروڑ 48 لاکھ آبادی اور 4 لاکھ 12 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ سوڈان 3 کروڑ 8 لاکھ آبادی اور یہاں 2 لاکھ 54 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ سعودی عرب 2 کروڑ 54 لاکھ آبادی اور یہاں حج کی وجہ سے سب سے زیادہ قربانی ہوتی ہے۔ قریباً 1 کروڑ 50 لاکھ 30 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ افغانستان 2 کروڑ 90 لاکھ آبادی اور 2 لاکھ 10 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ ازبکستان 2 کروڑ 68 لاکھ آبادی اور 1 لاکھ لوگ 60 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ شام 2 کروڑ 8لاکھ آبادی اور 1لاکھ قربانی کرتے ہیں۔ کویت کی 5 لاکھ آبادی اور 98 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ ملائشیا 1 کروڑ 70 لاکھ آبادی اور 95 ہزار قربانی کرتے ہیں۔ تونیسیا 1 کروڑ 34 لاکھ آبادی اور 87 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں اور یمن 2 کروڑ 8لاکھ آبادی اور 80 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ یہ وہ بڑے بڑے اسلامی ممالک ہیںجن میں قربانیوں کی تعداد دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہے تا ہم دیگر اسلامی ممالک جیسے فلسطین، لیبیا، اردن، جبوتی، موریطانیہ، گیمبیا، تاجکستان، آذر بائیجان، ترکمانستان، قازقستان، کرغزستان، قطر، بحرین، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے درجنوں ممالک ہیں جن میں قربانی ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض غیر مسلم ممالک میں بھی مسلمان قربانی کرتے ہیں۔ جیسے بھارت اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ بھارت کے 17 کروڑ مسلمانوں میں سے 1 کروڑ سے زائد لوگ قربانی کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہر سال 8 کھرب اور 4 ارب سے زائد کی قربانی کی جاتی ہے۔ اب آتے ہیں قربانی کے معاشی فوائد کی طرف! ’’جان مینارڈ کینز‘‘ کو دنیا کا نمایاں ترین ماہر معیشت سمجھا جاتا ہے۔ اس نے investment multiplier کے نام سے ایک نظریہ پیش کیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ حکومت یا عام آدمی جب اپنی جیب سے چند روپے نکالتا ہے تو معیشت کا پہیہ حرکت میں آجاتا ہے۔ ان چند رپوں کا فائدہ پورے معاشرے اور پوری معیشت تک پہنچتا ہے۔ کینز کے اس نظریے کو مغربی نظریہ ’’ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ کی بنیاد بنایا گیا۔ اس نظریے کے مطابق عیدالاضحی نجانے کتنا بڑا investment multiplier ہے۔ جس کی برکت سے ایک دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ سرمایہ کاری کی غلام گردشوں کا ایسا چکر ہے جس میں سراسر فائدہ غریب کا ہی ہے۔ ایک نظر خالص بزنس کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر فارمنگ انڈسٹری تیزی سے بڑھتی ہے۔ اس کے بعد کیٹل انڈسٹری کو عروج ملتا ہے۔ پھر لیدر انڈسٹری کا پہیہ حرکت میں آجاتا ہے۔ یہ تین انڈسٹریز تو براہ راست اس سے متحرک ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار انڈسٹریز کو اس موقع پر فائدہ پہنچتا ہے۔ اسلامی ممالک میں ابھی انڈسٹریز کو اتنا فروغ حاصل نہیں ہوا۔ ورنہ ان جانوروں کی اون، ہڈیوں، چربی اور انتڑیوں سے ایسے ایسے بزنس وجود میں آسکتے ہیں، جن سے لاکھوں افراد کو مزید روزگار میسر آسکتا ہے۔ حکومت تھوڑی سی بھی دلچسپی لے تو جانوروں کی باقیات سے روزگار کے سینکڑوں مزید مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ یقین جانیے جانوروں کی باقیات پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ان سے واٹر پروفنگ، آگ سلگانے، موم بتی بنانے، صابن اور کاسمیٹکس بنانے سے لے کر مختلف اجزاء میں ڈھالنے تک سینکڑوں ہزاروں پروڈکٹس بنائی جاسکتی ہیں۔ جن فضلات کو ٹھکانے لگانے اور شہر سے باہر ڈمپ کرنے پر ملک بھر کی میونسپلٹی اپنی توانائیاں جھونک دیتی ہے، ان کو کارآمد بناکر اربوں کے بزنس شروع کئے جاسکتے ہیں۔ بلاشبہ ان چیزوں سے اب بھی بے شمار اشیاء بنائی جارہی ہیں، مگر ذرا سی حکومتی توجہ اور تاجرانہ اپروچ اس کام کو ملک کی خوش حالی کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔ پھر شاید وہ وقت آجائے جب کمپنیاں خود ہی تمام گھروں سے باقیات جمع کررہی ہوں اور کچرے کے ڈھیر سے بزنس کے پہاڑ کھڑے کر رہی ہوں۔ آپ نے مشہور مقولہ سنا ہوگا: ’’ہمیں ایڈ نہیں، ٹریڈ چاہئے‘‘۔ غریبوں کو بھی امداد نہیں، باعزت روزگار چاہیے۔ قربانی کے جانور کون پالتا ہے؟ ان جانوروں کے چارے کا بندو بست کون کرتا ہے؟ سال بھر ان کی پرورش کا بکھیڑا کون پالتا ہے؟ مانتے ہیں کہ اب بڑے بڑے کاروباری گروپس بھی اس بزنس میں آگئے ہیں، مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ غریبوں کی آمدنی کا اس سے بڑا کوئی ذریعہ ہے؟ کوئی ایسا عالمگیر ایونٹ نہیں، جس میں بے کس، نادار اور بے سہارا و بے آسرا افراد کو اتنے بڑے پیمانے پر روزگار مل رہا ہو۔ ہم بڑے دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر کراچی میں 30 ارب کے جانور بکتے ہیں تو اس کا بڑا حصہ غریبوں کی ہی جیب میں جاتا ہے۔ اگر کچھ بڑے کاروباری گروپس اس بزنس میں آئے بھی ہیں تو بھی پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے لاکھوں غریب اور پس ماندہ افراد ہی ان جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ قربانی کا ایک جانور، پوری معیشت کا پہیہ گھما دیتا ہے۔ گندم کا ایک دانہ اپنے ساتھ کم ازکم 150لوگوں کا رزق لے کر اگتا ہے تو ایک بکرا یا بیل اپنے ساتھ سینکڑوں افراد کا رزق لیے پیدا ہوتا ہے۔ جب ایک غریب بکرے کو پالتا ہے تو اس کا چارا خریدنے دکان پر جاتا ہے۔ دکاندار وہ چارہ کسی ایجنٹ سے خریدتا ہے۔ ایجنٹ ، کسی کسان سے چارہ حاصل کرتا ہے۔ جانور بیمار ہوتو ڈاکٹر کو فیس دی جاتی ہے۔ پھر دوا خریدی جاتی ہے۔ جانور کو مویشی منڈی لاتے ہوئے ٹرک مالکان کا حصہ نکلنا شروع ہوتا ہے۔ پھر کرایہ پر جگہ خریدی جاتی ہے۔ کیمپ لگایا جاتا ہے، ڈیکوریشن اور چارہ پانی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ رسی، کیل کانٹے اور لکڑی کی صنعت میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ دیکھنے والے دور و نزدیک سے آتے ہیں۔ ان کے آنے سے دکانیں آباد، پیٹرول پمپس پہ رش اور فوڈ سینٹرز پہ کھوے سے کھوے چھلتا ہے۔ صرف ماسک فروخت کرنے والے بچوں کا ہی اندازہ لگائیں۔ جب جانور بکتا ہے تو پھرتجارت کے اس رحمانی دائرے کا بابرکت سفر عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ایک غریب خوش حال ہوجاتا ہے۔ سوزوکی یا مزدہ والے کو اس کا حصہ ملتا ہے۔ بکرا گھر آتا ہے تو بہت سے چہروں پر خوشی کھلکھلانے لگتی ہے۔ چارہ، دانہ دنکا اور خانساماں، رزق پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ اب عید کا دن آتا ہے۔ قصائی پہنچا۔ کھال اتری اور بکی۔ پوری لیدر انڈسٹری اس دن کی منتظر ہوتی ہے۔ کھال مدرسہ اور رفاہی ادارہ تک پہنچی۔ وہاں سے بک کر انڈسٹری میں پہنچی۔ صرف عید کے تین دنوں میں لیدر انڈسٹری کو اپنا 30 فیصد خام مال مل جاتا ہے۔ قربانی پر اعتراض کرنے والوں کو خوفِ خدا کرنا چاہیے، کیونکہ قربانی ایک مستقل واجب، عبادت اورشعائر اسلام میں سے ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے 10 سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی۔ صحابہ کرامؓ،تابعینؒ، تبع تابعینؒ، ائمہ مجتہدینؒ، اسلاف ؒ اور اکابرؒ غرض، پوری امت کا متوارث، متواتر اور مسلسل عمل بھی قربانی کرنے کا ہے۔

.
تازہ ترین