• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان بننے سے انکار کر کے ایک درست فیصلہ کیا ہے ۔ فیصلہ اس لیے بھی درست ہے کہ پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام میں کوئی بھی چیف الیکشن کمشنر شفاف انتخابات نہیں کرا سکتا ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا یہ کہنا صحیح تھا کہ ’’ پاکستان کے عوام نے اپنی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں جمہوریت تو حاصل کر لی ہے لیکن شفاف انتخابات کے ذریعہ قائم ہونے والی جمہوریت کے لیے ابھی اور جدوجہد کرنا ہو گی ۔ ‘‘ انتخابی دھاندلیوں کے ذریعہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی کو پاکستان میں سیاسی طور پر سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا ۔ 1988ء میں ہونے والے انتخابات میں جو تنائج سامنے آئے ، ان سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ انتخابی عمل پر ’’ غیر مرئی ‘‘ قوتوں کا مکمل کنٹرول ہو چکا ہے ۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی نے جیتی تھیں اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر وہ ہار گئی تھی ۔ نتائج بنانے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان تنائج کو عقل تسلیم نہیں کرے گی ۔ قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے والی پارٹی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کیسے ہار سکتی ہے ؟ 1988ء کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے ، ان کے نتائج کو آج بھی عقل تسلیم نہیں کرتی ہے ۔ جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم عرف فخرو بھائی نے چیف الیکشن کمشنر بن کر جو انتخابات کرائے ، ان انتخابات کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کے بعد تصدق حسین جیلانی اور رانا بھگوان داس کا فیصلہ غلط قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
پاکستان کے انتخابات میں دھاندلی اس طرح نہیں ہوتی ہے ، جس کی نشاندہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کر رہے ہیں ۔ یہ بات بھی عقل تسلیم نہیں کرتی کہ 2002ء کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا کے عوام جمعیت علمائے اسلام (ف) کو ووٹ دیتے ہیں ، 2008 ء کے انتخابات میں وہ عوامی نیشنل پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور 2013ء کے عام انتخابات میں وہ پاکستان
تحریک انصاف ان کی مقبول سیاسی جماعت بن جاتی ہے ۔ ہر الیکشن میں خیبر پختونخوا کے عوام پارٹی تبدیل کرتے ہیں ۔ یہی بات سمجھ سے بالا تر ہے ۔ اسی بات کا ادراک کر لیا جائے تو یہ باتیں بھی سمجھ آنے لگیں گی کہ انتخابی دھاندلی صرف وہ نہیں ہے ، جس کی عمران خان بات کر رہے ہیں بلکہ بڑے انتخابی فراڈ کے لیے بڑے سیاسی ڈرامے بھی کیے جاتے ہیں ۔ کوئی بھی چیف الیکشن کمشنر بن جائے ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ اگر کوئی حقیقی غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر ہو گا تو وہ بھی بے بس ہو گا اور اگر کوئی اسٹیبلشمنٹ کی بنائی گئی ’’ غیر جانبدار اور غیر متنازع ‘‘ شخصیت ہو گی تو اس کی ’’ نیک نامی ‘‘ کا بھی جنازہ نکلے گا کیونکہ لگتا ہے کہ یہاں کے انتخابی نظام پر قدیم روم کے دیوتا ’’ جانس ‘‘ ( Janus ) کا راج ہے ۔ یہ ایک غیر مرئی مگر دو چہروں والا دیوتا تھا ۔ پاکستان میں جن قوتوں نے 1977ء میں مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف بڑی تحریک چلوائی، ان قوتوں نے اس کے بعد کبھی شفاف انتخابات نہ ہو نے دیئے ۔ یہاں دھاندلی کے خلاف شور اس لیے مچایا جاتا ہے کہ بڑی دھاندلی کا جواز پیدا کیا جا سکے اور انتخابی نظام پر مزید کنٹرول حاصل کیا جا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دھاندلی کا شور مچانے والے وہ لوگ ہیں ، جن کے نظریاتی استاد وں نے 1977ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک اور 1988 ء کی انتخابی دھاندلی میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ انتخابات سے پہلے نتائج تیار کر لیے جاتے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کو یہ بتا بھی دیا جاتا ہے کہ انہیں کتنی نشستیں ملیں گی ۔ عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے تناظر میں یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ پاکستان کے وفاق میں کس سیاسی جماعت کی حکومت ہو گی اور صوبوں میں کس کس سیاسی جماعت کو اقتدار سونپا جائے گا ۔ پھر یہ بھی مد نظر رکھا جاتا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں کو کہاں کہاں ’’ ایڈجسٹ ‘‘ کیا جائے گا ۔ 1977ء کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں بننے دی گئی ۔ خیبرپختونخوا میں ہر مرتبہ نئی سیاسی جماعت کی حکومت ہوتی ہے ۔ بلوچستان میں ’’ نیپ ‘‘ کی حکومت کی برطرفی کے بعد 2013ء میں ’’ قوم پرستوں ‘‘ کو حکومت دی جاتی ہے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو کبھی حکومت دینے اور کبھی اپوزیشن میں بٹھانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ یہ سب ’’ قومی سلامتی کی حکمت عملی ‘‘ کے طور پر کیا جاتا ہے اور اس کے لیے بنیادی نظریہ یہ ہوتا ہے کہ شفاف انتخابات سے نہ صرف ملک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہو جائیں گے بلکہ پاکستان خارجی طور پر بھی مشکلات سے دوچار ہو جائے گا ۔ مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لیے ایسا سیاسی ماحول بنایا جاتا ہے ، جو ان انتخابی نتائج کو جواز فراہم کر سکے ۔ 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے ’’ دانش وروں ‘‘ کے تجزیے آنے لگے تھے کہ خیبرپختونخوا میں اے این پی اور جے یو آئی کی حکومت قائم ہوئی تو حالات قابو میں نہیں رہیں گے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ بلوچستان کے لوگوں کے احساس محرومی کے خاتمے کے لیے وہاں قوم پرستوں کی حکومت آ جائے تو اچھی بات ہو گی ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بنی تو بہت سے مسائل پیدا ہوں گے ۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کے لیے بھی کئی جواز پیدا کیے گئے اور کراچی کا امن قائم کرنے کے لیے تو ہمیشہ ایم کیو ایم کی کامیابی کو ناگزیر قرار دیا جاتا ہے ۔ جب انتخابی عمل ’’ حکمت عملی ‘‘ کے تابع ہو جائے گا تو چیف الیکشن کمشنر کیا کرے گا ۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے میں نہ الجھیں کہ چیف الیکشن کمشنر کون ہو گا ۔ ان کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ ایسی انتخابی اصلاحات کر ڈالیں ، جس میں ’’ حکمت عملی ‘‘ کی مداخلت نہ ہو ۔ شفاف انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی طرح اعلیٰ اختیارات کا حامل طاقتور الیکشن کمیشن ہو ۔ فوری طور پر پاکستان میں الیکٹرونک ووٹنگ مشینز حاصل کر لی جائیں اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ اس امر کو یقینی بنا لیا جائے کہ کسی بھی طرح جعلی ووٹ نہ بھگتائے جا سکیں ۔ اگر ان دونوں جماعتوں نے یہ کام فوری طور پر نہ کیا تو نہ صرف اگلا چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی کی طرح اپنے گھر میں محدود ہو جائے گا بلکہ اگلے انتخابات میں پاکستانی تاریخ کی بدترین انتخابی دھاندلی کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ اسی دھاندلی کے لیے پاکستان میں بڑا سیاسی ڈرامہ رچایا جا رہا ہے ۔ دیوتا جانس بہت مقدس اور طاقتور ہے مگر اس کے دو چہرے ہیں ۔
تازہ ترین