• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہو جس پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا جا سکے یا جس میں بہتری کی گنجائش نہ ہو لیکن ایک مسئلہ ایساہے جس نے ہمیشہ پورے ملکی نظام کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ۔ اس ’’سدا بہار‘‘ مسئلے کا نام ہے ’’بے یقینی‘‘۔ بظاہر شاید یہ بڑا مسئلہ دکھائی نہ دیتا ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے یقینی کی وجہ سے نہ صرف ملکی نظام مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے بلکہ ترقی کا پہیہ بھی جام ہو جاتا ہے، معیشت آگے نہیں بڑھ پاتی، باہر کے ملکوں سے آنے والی سرمایہ کاری سُست پڑ جاتی ہے اور عالمی برادری میں بے یقینی کے شکار ممالک کا اعتبار کمزور ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں اس بے یقینی کا سب سے بڑا سبب تو یہی ہے کہ جمہورت ہمیشہ ڈانواں ڈول رہی۔ 1973 کے آئین کے بعد وقفے وقفے سے انتخابات تو ہوتے رہے لیکن کسی بھی منتخب حکومت کو اپنی آئینی معیاد پوری نہ کرنے دی گئی۔ اس کے برعکس فوجی آمروں نے کئی کئی سال حکومت کی۔ اگرچہ اب فضا بدل گئی ہے۔ فوجی قیادت نے بھی نئے دور کے تقاضوں کو اچھی طرح پہچان لیا ہے پہلے جنرل کیانی اور اب جنرل راحیل شریف اسی اصول پر کاربند ہیں۔ فوجی قیادت کی پوری توجہ پیشہ ورانہ امور پر مرکوز ہے اور وہ سیاسی جھمیلوں سے کنارہ کشی اختیار کر چُکی ہے۔
لیکن بے یقینی ہے کہ ختم نہیں ہو رہی۔ 14اگست سے شروع ہونے والے دھرنوں نے اس بے یقینی میں زبر دست اضافہ کیا۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ حکومت کسی بھی لمحے ختم ہو سکتی ہے۔ بیورو کریسی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی ۔ باہر کے ممالک سے آنے والے معزز مہمانوں نے معذرت کر لی۔ سرمایہ کاری کا سفر تھم گیا۔ ریاستی رٹ مفلوج ہو گئی اور میڈیا نے ایسا تماشا لگایا کہ اسلام آباد کے دھرنے پوری ملکی فضاء پر محیط ہو گئے۔جو کچھ ان دھرنوں کے دوران کہا گیا اور جو کچھ ان دھرنوں کے شرکاء کرتے رہے اب وہ پوری قوم کے سامنے آ چکا ہے۔ ان دھرنوں کے سبب پاکستان کے مفادات کو کتنی تقویت ملی یا کتنا نقصان پہنچا، یہ بھی واضح ہو چکا ہے۔ اچھا ہوا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے محسوس کر لیا کہ انقلاب قبریں کھودنے، کفن پہننے اور بھڑکیلی تقریریںکرنے سے نہیں، ووٹ کے ذریعے ہی آئے گا۔ انہوں نے آئندہ ہر سطح کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور دھرنا چھوڑ کر بیرونِ ملک روانہ ہو گئے۔
عمران خان کا دھرنا اب بڑی حد تک سُکڑ چکا ہے۔ ڈیڑھ دو سو لوگ رات کو آتے اور ایک روایتی تقریر سُن کر چلے جاتے ہیں۔ میڈیا کے اندر بھی پہلے جیسا جوش و خروش نہیں رہا۔ آپے سے باہر ہو جانے والے ٹی۔وی اینکر وں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ خان صاحب کی پٹاری خالی ہے۔ اس کے باوجود عمران خان ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا بیان ضرور دیتے ہیں جس سے بے یقینی میں اضافہ ہو۔ اب اُنہوں نے 30نومبر کو اسلام آبا دمیں بڑا سیاسی شو کر نے کا اعلان کر دیا ہے اور ساتھ ہی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں کہ 30نومبر کے بعد اُن کے کارکن پُرامن نہیں رہیں گے۔ 30نومبر یا اس کے بعد کیا ہوتاہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن پی۔ٹی۔آئی کے کارکن پہلے بھی پُر امن نہیں رہے۔ دھرنوں کے دوران وہ آپس میں اُلجھتے اور مارکٹائی کرتے رہے۔ صحافیوں کو نشانہ بنایا۔
پڑوس میں واقع جیو کے دفتر پر روز سنگ باری کرتے رہے۔ پی۔ٹی۔وی پر حملے کی’’فوٹیج‘‘ میں پی۔ ٹی۔ آئی کے کارکن مخصوص رنگوں والے لباس اور جھنڈوں سے صاف پہچانے جا سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس پر حملے میں بھی وہ دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ عمران خان نے ریڈ زون نہ جانے کی تحریری ضمانت دی تھی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب کو بھی ضمانت دی تھی لیکن انہوں نے یہ وعدہ بھی توڑا اور قانون شکنی بھی کی۔
خان صاحب کی تازہ دھمکی نے ایک بار پھر بے یقینی کی دُھند گہری کر دی ہے۔ یہ پیغام باہر کی دنیا میں بھی جارہا ہے۔ وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین کے دوران 45ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے۔ دورہ جرمنی کے دوران جرمنی کے صنعت کاروں نے بھی توانائی کے کئی منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کی لیکن جرمنی کی چانسلر نے ’’سکیورٹی‘‘ کی صورت حال کا حوالہ دیا۔ ظاہر ہے کہ روایتی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ دھرنوں کے باعث پیدا ہونے والا سیاسی بحران بھی ’’سکیورٹی‘‘کی تشویش ناک صورتِ حال کا حصّہ بن گیا ہے۔
عمران خان صاحب کے اندازِسیاست کا یہ پہلو سب کیلئے تشویش ناک ہے کہ وہ ہر قومی اِیشو پر منفی روّیہ اختیار کر رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر بھی ایک ایسا ہی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ آئین کے تحت یہ صرف وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کا اختیار ہے کہ وہ باہمی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کریں۔ اگر وہ مفاہمت کیلئے دوسری جماعتوں کوبھی مشورے میں شریک کر لیں تو یہ اچھی روایت ہے لیکن آئین اس کا تقاضا نہیں کرتا۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کیلئے وزیر اعظم نے تین اور سید خورشید شاہ نے دو نام تجویز کئے۔
پانچوں حضرات سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان ہیں۔ خان صاحب نے ان پانچوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا نتیجہ یہ کہ پہلے جسٹس بھگوان داس نے اور بعد ازاں جسٹس تصدق جیلانی نے معذرت کر لی حالانکہ دونوں شخصیات پر نہ صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بلکہ تمام دوسری جماعتوںکا اتفاق رائے بھی ہو چکا تھا۔ اب جسٹس طارق پرویز کا نام آر ہا ہے لیکن عمران خان اڑے ہوئے ہیں کہ نیا الیکشن کمشنر جسٹس ناصر اسلم زاہد ہی ہو جنہیں خود اُنہوں نے نامزد کر دیا ہے۔
ایک بات اب ہر گلی کُوچے میں کہی جار ہی ہے کہ خان صاحب نے سیاست میں پھر سے غیر شریفانہ زبان اور نفرت کے کلچر کو پروان چڑھا یا ہے۔ اب اُن کے پلیٹ فارم سے کھلے عام جلائو گھیرائو اور مارو کی تلقین ہور ہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر معاملے میں بے لچک روّیہ بھی تحریکِ انصاف کی پہچان بنتا جارہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تحریک انصاف کی سینئر رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنی جماعت کے مجروح ہوتے تشخص پر غور کریں۔ ’’بے یقینی‘‘ تو خیر بڑھ رہی ہے جس سے ملک و قوم کے مسائل مزید بڑھیں گے لیکن انقلاب یا تبدیلی کی علمبردار ہونے کے حوالے سے تحریک انصاف کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رُکا تو عین ممکن ہے لاکھوں عوام کی اُمیدوں کا مرکز یہ جماعت، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے بھی کئی درجے نیچے جا کر اپنا وجود کھو بیٹھے۔
تازہ ترین