• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاسی جماعتیں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں کر سکی ہیں ۔ حالانکہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے ، جو طے نہ کیا جا سکے ۔ سپریم کورٹ نے پہلے حکم دیا تھا کہ13 نومبر تک چیف الیکشن کمشنرکا تقررکردیا جائے لیکن حکومت اور اپوزیشن کی جماعتیں 13 نومبر تک یہ طے نہ کر سکیں کہ پاکستان کا چیف الیکشن کمشنر کون ہو گا ۔ اب سپریم کورٹ نے 24 نومبر تک حتمی مہلت دے دی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے پیدا ہوتا ہے یا نہیں ۔ یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ماضی کی طرح چیف الیکشن کمشنر کا تقرر عدلیہ کرے گی ۔ اگر معاملہ عدالت تک نہ پہنچا تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر تو ہو جائے گا لیکن سیاسی جماعتوں کے مکمل اتفاق رائے سے نہیں بلکہ محض آئینی طریقہ کار کے مطابق ضابطے کی کارروائی کے طور پر یہ تقرری ہو گی ۔
آئین میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے جو طریقہ کار دیا گیا ہے ، اس کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی وسیع تر مشاورت کے ساتھ ایک ایسی شخصیت کو اس عہدے پر فائز کیا جائے، جو نہ صرف سب کے لئے قابل قبول ہو بلکہ وہ شخصیت حقیقی معنوں میں قابل احترام ہو اور اس کی دیانت داری اور غیر جانب داری کو سب تسلیم کرتے ہوں لیکن چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر جب مشاورت کا عمل شروع ہوتا ہے تو آئین کی منشاء پوری نہیں ہوتی کیونکہ مشاورت کے عمل کے دوران اور تقرری سے قبل ہی چیف الیکشن کمشنر کو متنازع بنادیا جاتاہے ۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ جو شخص اس عہدے کے لئے نامزد ہوتا ہے ،وہ متنازع ہے بلکہ سیاسی جماعتیں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہی شخص غیر جانبدار ہے ، جس کا انہوں نے نام دیا ہے ۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے نامزد لوگ جانبدار نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اس کھینچاتانی کی وجہ سے وہ لوگ متنازع بن جاتے ہیں ، جن کے نام سیاسی جماعتوں نے دیئے ہوئے ہوتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں بہت نقائص ہیں ۔ ماضی میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں، ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انتخابی عمل پر بہت ساری قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر کوئی چیف الیکشن کمشنر مکمل دیانت داری اور غیر جانبداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام بھی دے تو بھی انتخابی عمل پرلازماً سوالات اٹھتے ہیں ۔ اگر کوئی چیف الیکشن کمشنر اپنی تقرری سے پہلے متنازع نہیں بنتا ہے تو انتخابی نتائج کے بعد وہ ضرور متنازع بن جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کر لی ہے ۔
18 ویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ کو یہ دوسرا موقع ملا ہے کہ وہ آئینی طریقہ کار کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے لئے صدر مملکت کو کوئی متفقہ نام پیش کرے لیکن پہلی دفعہ بھی پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہوئیں اور دوسری مرتبہ بھی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں ۔ لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ جو پارلیمنٹ18 ویں آئینی ترمیم پر متفق ہوسکتی ہے، وہ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر پر متفق کیوں نہیں ہو سکتی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ذہنوں میں یہ بات موجود ہے کہ انتخابی نظام میں بہت نقائص ہیں لہٰذا وہ اپنی مرضی کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کرانا چاہتی ہے۔ بار بار کے تنازعات سے بچنے کے لئے بہتر یہی ہے کہ انتخابی نظام میں نقائص دور کئے جائیں ۔ ایک ایسا شفاف انتخابی نظام وضع ہونا چاہئے ،جس پر کوئی چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے دیگر افسران ، ریٹرننگ ،پریذائیڈنگ اور پولنگ افسران اور غیر مرئی قوتیں اثر انداز نہ ہوسکیں ۔ ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں، جہاں دنیا میں روزانہ کہیں نہ کہیں انتخابات ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک جمہوری عہد ہے ۔ ہمیں دنیا کے تجربات کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ دنیا میں اس طرح عوامی مینڈیٹ نہیں چرایا جاتا ہے ، جس طرح پاکستان میں ہوتا ہے ۔ دنیا میں اس قدر جعلی ووٹ نہیں بھگتائے جاتے،جس قدر پاکستان میں بھگتائے جاتے ہیں۔ دنیا میں ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ، ایجنسیاں اور عالمی قوتیں انتخابات پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن وہ براہ راست انتخابی نتائج تبدیل نہیں کرتیں اورنہ ہی ان کی مداخلت پولنگ اسٹیشنوں یا ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں نظر آتی ہے ۔ دنیا میں انتخابات سے پہلے عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کی جاتی ہے لیکن کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ ڈالے گئے ووٹوں کے برعکس انتخابی نتائج کا اعلان کردیا جائے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا ہے ۔ دنیا میں ووٹ ڈالنے سے لے کر حتمی نتائج مرتب کرنے تک سارا عمل شفاف ہوتا ہے اور اس شفافیت کو جدید ٹیکنالوجی سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ دنیا کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنے انتخابی نظام میں نقائص دور کرنا چاہئے تاکہ جعلی ووٹ بھگتانے یا اصلی ووٹوں کو چھپانے کا کوئی راستہ نہ رہے ۔ یہ راستہ بند ہو جانے سے نہ صرف غیر مرئی قوتوں کا انتخابی عمل پر کنٹرول ختم ہو جائے گا بلکہ قوم کو اس مسئلے میں الجھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کہ چیف الیکشن کمشنر کون ہو ۔ کسی بھی محترم اور اچھی ساکھ کے حامل شخص کو چیف الیکشن کمشنر بنایا جاسکتا ہے۔ سسٹم مضبوط ہو تو چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ کبھی متنازع نہیں بن سکتا ۔ الیکشن سے پہلے انتخابی عمل اورعوامی رائے عامہ پر غیر قانونی طریقے سے اثر انداز ہونے کے امکانات کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے لئے الیکشن کمیشن کو اس قدر بااختیار بنانا چاہئے جس قدر ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں الیکشن کمیشن بااختیارہے۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی وہاں کوئی بھی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن کو یہ مکمل اختیار ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق اور انتخابی قواعد کی خلاف ورزی کرنے والی سیاسی جماعتوں اور افراد کو سزا دے سکے۔ وہاں ایسی سزاؤں کی بے شمار مثالیں ہیں۔ الیکشن کے اعلان سے حتمی نتائج مرتب ہونے تک بھارت میں تمام مرکزی اور ریاستی حکومتیں الیکشن کمیشن کے احکامات کی پابند ہوتی ہیں ۔ الیکشن ڈیوٹی کرنے والے سرکاری افسران اور اہلکار اس دوران حکومتوں کے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے احکامات مانتے ہیں ۔ جعلی ووٹ روکنے کے لئے دنیا بھر میں جدید الیکٹرونک مشینیں ایجاد ہو چکی ہیں اور ان کی وجہ سے شفاف انتخابات کا انعقاد تقریباً ممکن ہو چکاہے۔ لہٰذا چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے معاملے پر الجھنے کے بجائے قومی سیاسی جماعتوں خصوصاً پارلیمنٹ کو انتخابی اصلاحات پر کام کرنا چاہئے ۔
تازہ ترین