• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمیں چند سال قبل ذاتی مصروفیت کی وجہ سے روزنامہ جنگ کی 16 سالہ رفاقت کو خیرباد کہنا پڑا۔ اس دوران بعض ہمعصر اخبارات نے ہمیں کالم لکھنے پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی لیکن ہم تمام تر کوششوں کے باوجود خود کو قائل نہ کر سکے۔لیکن اچانک جب ہمارے دیرینہ ساتھیوں نے ہمیں روزنامہ جنگ میں ہی دوبارہ کالم لکھنے کیلئے پُرزور اصرار کیا تو ہم ان سے غیرمعمولی احترام کی وجہ سے انکار نہ کر سکے۔ انشاء اللہ اب ہمارا کالم باقاعدگی سے ہر اتوار کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا کریگا۔ ہم اللہ کے فضل و کرم اور تاجدارِ کائناتﷺ کے صدقے سے پہلے کی طرح قارئین کے معیار پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
گزشتہ دنوں ہمیں آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس کے ایک سینئر افسر ملنے آئے، ملاقات کے دوران ہم نے ان سے پوچھا کہ پچھلے چند سالوں سے پبلک اکائونٹس کمیٹی میں کسی سرکاری محکمہ کا کوئی قابل ذکر معاملہ زیر بحث نہیں آیا،کیا اس کی وجہ سرکاری محکموںکے معاملات سدھر گئے ہیں یا آڈٹ ڈپارٹمنٹ نے ان کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کر دیا ہے؟ متذکرہ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات شروع کی اور کہا کہ کیا آپ کو علم نہیں ہے کہ موجودہ آڈیٹر جنرل رانا بلند اختر کیخلاف ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم جوڈیشل کونسل میں مس کنڈکٹ پر کارروائی ہو رہی ہے اوران کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے دو شو کاز نوٹس جاری ہو چکے ہیں، جن میں سے ایک صدر پاکستان کی جانب سے جبکہ دوسرا پاکستان آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس گریڈ20 کے ایک آفیسر کی شکایت پر جاری کیا گیا ہے ہم نے کہاکہ سنا تو ہے لیکن اس بارے میں ہمیں تفصیلات کا علم نہیں۔ اس پر انہوں نے اپنے کمپیوٹر بیگ سے ایک فائل نکال لی اور کئی سو صفحات پر مشتمل ریفرنس ہمارے سامنے رکھ دیا اور ایک خفیہ ایجنسی کی ریکارڈنگ کی کاپی بھی ہمارے حوالے کر دی‘ جس میں نام لئے بغیر یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ ایک وفاقی انٹیلی جنس ایجنسی نے ان کو ایسا مواد فراہم کیا تھا جس سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ پاکستان آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک بہت بڑے افسر اور نوید نامی افسر مل کر افسران کی پوسٹنگ ٹرانسفر کے ذریعے مال حرام اکٹھا کر رہے تھے اور متذکرہ بڑے افسر نے اپنے خلاف ہونے والی قانونی کارروائی کو روکنے کیلئے سابق حکومت کی ایک اعلیٰ حیثیت کی خاتون کو پہلے 25کروڑ روپے بطور رشوت ادا کئے تھے اور اب مزیدمطالبے پر مزید 20کروڑ روپے ادا کر رہے تھے۔ ہم یہ ریفرنس پڑھ کر ششدر رہ گئے اور اپنے دوست سے پوچھا کہ کیا نیب اور ایف آئی اے نے اس معاملے کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا، اس پر وہ بولے کہ کیا نیب اور ایف آئی اے نے اپنا آڈٹ نہیں کروانا ہوتا اور کیا ان کے معاملات اتنے شفاف ہیں کہ ان کو آڈٹ کی کوئی پروا نہیں ہو گی؟ اس کے بعد انہوں نے ہمیں کچھ ایسی سرکاری دستاویزات دکھائیں کہ ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ اور کیا آڈ ٹ ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بھی جس کا کام ہی دوسرے سرکاری محکموں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنا ہوتا ہے، اپنی قومی ذمہ داریاں پس پشت ڈال کر ایسا طرزِعمل اختیار کر سکتا ہے جو دستاویزات ہماری نظر سے گزریں‘ ان کے مطابق آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پر جو الزامات سامنے آئے‘ ان کے مطابق رانا بلند اختر کا بطور آڈیٹر جنرل تقرر قانون کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کر کے کیا گیا تھا، ان کی تقرری کے وقت ان پر کینیڈا کی خلافِ قانون شہریت حاصل کرنے، بیک وقت 3قابل استعمال پاکستانی پاسپورٹ اور ایک کینیڈین پاسپورٹ رکھنے، متعدد بار بغیر سرکاری اجازت کے بیرون ملک سفر کرنے، ایک ماتحت خاتون افسر کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے، نیشنل مینجمنٹ کالج کی جانب سے دی گئی انتہائی کم اسکور والی رپورٹ کی مو جودگی میں گریڈ21میں ترقی پانے، سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود گریڈ21 میںدو سال کی کم از کم مقرر کردہ مدت پوری کئے بغیر سابق وزیراعظم کی دوستی کے بل بوتے پر گریڈ22 میں ترقی اور استحقاق نہ رکھنے کے باوجود بطور آڈیٹر جنرل تعیناتی جیسے سنگین الزامات تھے۔ ان کے جو معاملات ان کی بطور آڈیٹر جنرل تعیناتی کے بعد کے ہیں، ان کے مطابق انہوں نے آڈیٹر جنرل بننے کے بعد بطور آڈیٹر جنرل اٹھائے جانے والے حلف کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور ملکی قوانین کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ افسروں کو کرپشن سمیت ہر قسم کی غیرقانونی حرکتوں کی نہ صرف کھلی چھٹی دی بلکہ کھل کر ان کی پشت پناہی بھی کی، جبکہ ان افسران پر جو اُن کی پالیسیوں سے اختلاف رائے رکھتے تھے، عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا۔ چند ماہ قبل رانا بلند اختر نے گریڈ18 کے ایک افسر کو، جو پہلے بھی دو دفعہ مالی اور اخلاقی بد عنوانیوں کی وجہ سے نوکری سے برطرف ہو چکے تھے اکائونٹینٹ جنرل پنجاب کی گریڈ21 کی پوسٹ پر تعینات کر دیا تھا، متذکرہ افسر نے ایک پروجیکٹ میں 47کروڑ کا مبینہ فراڈ کیا اور اگر کنٹرولر جنرل اکائونٹس بروقت کارروائی نہ کرتیں تو اس رقم کی سرکاری خزانے میں واپسی تقریباً ناممکن ہو جاتی، اس وقت یہ کیس نیب پنجاب کے زیرتفتیش ہے مگر اصل ملزمان کیخلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہ نیب نے کی ہے اور نہ ہی رانا بلند اختر نے۔ اب ذرا احوال ان افسران کابھی سنئے جو رانا بلند اختر کے عتاب کا شکار ہوئے۔ قانون کے مطابق کسی بھی محکمہ میں انضباطی قوانین کا استعمال صرف اور صرف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کیا جانا چاہئے مگر مقام افسوس ہے کہ جو ریکارڈ ہمیں دکھایا گیا، اس سے صاف طور پر عیاں ہے کہ رانا بلند اختر نے انضباطی قوانین کا استعمال محض اپنی پسند وناپسند کی وجہ سے کیا، ان کے دفتری ریکارڈ سے صاف عیاں ہے کہ انہوں نے اپنی پسند کے افسران کو ترقی دلانے کیلئے ان افسران سے سینئر افسران کیخلاف بے بنیاد اورخلاف قانون چارج شیٹیں جاری کیں، یہاں تک کہ وزیراعظم پاکستان کے واضح حکم کے باوجود بھی وہ اپنی جاری شدہ غیرقانونی چارج شیٹوں کو واپس لینے کو تیار نہیں۔ اس معاملے کی ایک بدترین مثال تب سامنے آئی جب گریڈ20 کے ایک نہایت سینئر افسر کو انہوں نے بغیر کسی انکوائری کے، بغیر شو کاز نوٹس جاری کئے، بغیر ذاتی شنوائی کا موقع دئیے اور لاہور ہائیکورٹ کے حکم امتناعی کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے سزا سنا دی، حالانکہ وزیراعظم نے مئی 2014ء میں ان کی سزا ختم کر دی تھی، رانا بلند اختر نے ابھی تک وزیراعظم کے حکم پر عملدرامد نہیںکیا۔ ہمیں رانا بلند اختر کی جانب سے اپنے آپ کو ملکی قوانین سے بالاتر ثابت کرنے کیلئے ان کی جانب سے جاری کیا گیا ایک تحریری حکم بھی دکھایا گیا جس میں انہوں نے اپنے ان تمام افسران کو جو وفاقی محکموں کا آڈٹ کرتے ہیں، ایسے احکامات دیئے تھے کہ ان میں سے کوئی بھی تاحکم ثانی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کریگا۔ اس حکم کا پس منظر ہمیں یہ بتایا گیا کہ اس سال مارچ میں پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ان اطلاعات پر کہ رانا بلند اختر نے اپنی تنخواہ اور مراعات میں خود ہی غیرقانونی طور گرانقدر اضافہ کر لیا تھا، ان کیخلاف تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جو بار بار رانا بلند اختر کو طلب کرتی رہی مگر انہوں نے اسکے سامنے پیش ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا کہ نہ تو وہ پاکستانی پارلیمنٹ اور نہ ہی حکومت پاکستان کے تابع ہیں۔ ان کے اس طرزِعمل کی وجہ سے صدر پاکستان اس بات پر مجبور ہوئے کہ رانا بلند اختر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس دائر کریں جس کی سماعت ابھی ہو رہی ہے اور یہ حکم انہوں نے اسی پس منظر میں جاری کیا تھا۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ اس ساری صورت میں ملکی ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟ اس پر وہ افسردگی سے بولے کہ ایجنسیوں کو سب کچھ معلوم ہے مگر وہ حکومت کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ ہم نے کہا اس کا کیا مطلب ہوا تو وہ بولے کہ کچھ دن پہلے ایک وفاقی وزیر نے رانا بلند اختر سے ان کے دفتر میں ملاقات کی تھی مگر اس ملاقات کے بعد بعض معتبر ذرائع تو یہ بھی کہتے سنے گئے کہ اصل میں وہ رانا بلند اختر کو یہ یقین دہانی کرانے کیلئے آئے تھے کہ اگر وہ آئی پی پی اور میٹروبس کے آڈٹ کی ضد چھوڑ دیں تو چاہے سپریم جوڈیشل کونسل ان کیخلاف فیصلہ ہی کیوں نہ کر دے، حکومت ان کو ان کے عہدے سے برطرف نہیں کریگی۔ ممکن ہے یہ ساری باتیں محض قیاس آرائیاں ہی ہوں مگر ایک سوال بہرحال وضاحت طلب ہے اور وہ یہ کہ ایک طرف تو حکومت نے رانا بلند اختر کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے جو ابھی زیرسماعت ہے، پھر اس صورتحال کے تناظر میں ایک اہم وفاقی وزیر کا رانا بلند اختر کے دفتر میں جا کر ان سے ملاقات کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے۔ اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے تاکہ اس معاملے سے متعلق شکوک و شبہات دُور ہو سکیں۔ اب نیب اور ایف آئی اے کا ذکر ہو جائے جن کے بارے میں اُوپر ذکر کیا گیا تھا۔ ملک کے سب سے بڑے احتساب کے ادارے نیب کے موجودہ چیئرمین اس ولولے اور جذبے کیساتھ آئے تھے کہ وہ نیب کو واقعی مثالی ادارہ بنا دینگے لیکن ان کا آتے ہی سابق حکومت کے من پسند‘ نااہل اور ’’مثالی شہرت‘‘ کے حامل افسروں سے واسطہ پڑ گیا جو انہیں کامیاب کرانے کی بجائے ناکام بنانے پر لگ گئے۔ لگتا یہی ہے کہ جو افسر نیب میں پہلے سے موجود ہیں اور اپنی غربت مٹانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، انہیں نکالنے کا اختیار غالباً چیئرمین نیب کو حاصل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک ایسے افسروں سے نیب کو پاک نہیں کر سکے، جو ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کی بجائے ادارے کی بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ وہ اس وجہ سے اس قدر بے بس اور بے اختیار نظر آتے ہیں کہ ابھی تک لاہور نیب کے ’’مثالی شہرت‘‘ کے حامل اور کورٹ مارشل کی سزا کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کرنیوالے ڈی جی سمیت گزشتہ دورِ حکومت کے وزیراعظم کی سفارش پر لگنے والے گریڈ21 کے نیب پر مسلط افسروں کو بدلنے کی جرأت بھی نہیں کر سکے۔ اس سے یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ نیب اب صرف دُشمنوں کا احتساب کرنیوالا ادارہ بن کر رہ گیا ہے، موجودہ اور سابق حکومتوں کے نیب میں التواء میں پڑے ریفرنسوں پر منوں کے حساب سے گرد پڑ چکی ہے۔ اب تک تو صرف لاوارث سرکاری افسران اور اہلکار ہی نیب کی زَد میں آتے ہیں ۔ جب تک نیب میں موجودہ اور سابق حکمرانوں کی بدعنوانیوں کو سامنے لانے کیلئے انتہائی دیانتدار ججوں، پولیس اور ٹیکنیکل افسران پر مشتمل خصوصی اور بااختیار کمیشن نہیں بنایا جاتا جو ان کا کچا چٹھا عوام کے سامنے لائے اور ان پر خصوصی ٹربیونل میں مقررہ مدت کے دوران فیصلہ نہیں ہوتا، اس وقت تک نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کی ساکھ اور وقار بحال نہیں ہو سکتا۔
تازہ ترین