• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج حالات یہ ہیں کہ بجلی کا بل آتا ہے تو لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ بیچارے لوگ کہاں سے بل دیں گے۔ یہ الفاظ میاں نواز شریف کے ہیں جو انہوں نے عام انتخابات سے صرف تین دن قبل راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ادا کئے تھے۔وزیر اعظم بننے کے بعد وہ اپنے انتخابی منشور کی طرح غالبا یہ سب بھول چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں توانائی کے بد ترین بحران کی ذمہ داری پیپلز پارٹی کی حکومت پر ڈالی گئی اور کہا گیا کہ پانچ سال میں بجلی کی قیمتوں کو دگنا کردیا گیا ہے۔نہ صرف بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کریگی بلکہ مناسب نرخوں پر ان کی فراہمی یقینی بنائیگی۔موجودہ حکومت کے تقریبا ڈیڑھ سالہ دورکے بعد آج زمینی حقائق یہ ہیں کہ عوام کی حقیقت میں چیخیں نکل گئی ہیں،پہلی بار سردیوں میں گیس کیساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نےانہیں احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایات پر جاری کردہ نئے لوڈ مینجمنٹ پلان کے تحت ملکی تاریخ میں پہلی بار پنجاب کی صنعتوں کو گھریلو صارفین پر ترجیح دی گئی ہے جس کے اثرات گھروں کی بتیاں اورچولہے بجھنے کی صورت میں ظاہربھی ہو چکے ہیں۔جنھیں وزیر ماہرین کی ٹیم سمجھتے تھے ان میں سے ایک کہتے ہیں کہ عوام موجودہ حکومت سے سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کی توقع کرتے ہیں،دوسرے گویا ہوئے کہ آئی ایم ایف نے تو بجلی کی قیمت 59پیسے فی یونٹ بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا ،ہم نے تو صرف 30پیسے بڑھائی ہے۔ تیسرے فرماتے ہیں کہ آئندہ ماہ تو گیس کی قیمتیں ہر صورت میں بڑھائینگے۔اضافی بلوں کی کہانی بھی اتنی پر اسرار ہو چکی ہے کہ وزیر اعظم کے احکامات کے باوجود دو آڈٹ ٹیمیں بھی تاحال یہ گتھی سلجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ متعلقہ وفاقی وزیر سے کابینہ میں باز پرس ہوئی تو اس نے ملبہ سیکرٹری پر ڈال دیا سو اس نے قبل از ریٹائرمنٹ چھٹی لے کر گھر جانے میں ہی عافیت جانی۔ عوام سے لئے گئے یہ اضافی اربوں روپے کب اور کیسے واپس ہوں گے اس کا بھی کوئی مؤثر میکانزم نہیں بنایا گیا۔ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ وزیر اعظم نے جب مستقبل میں بجلی کے بلوں کو کم کرنے کی ہدایات دیں تو وزارت پانی و بجلی کےماہرین نے اس کا آسان حل یہ نکالا ہے کہ سردیوں میں بھی طویل دورانیے پر مبنی لوڈ شیڈنگ شروع کردی ہے۔حالانکہ سردیوں میں پندرہ دسمبر سے نہروں کی بھل صفائی کے لئے بندش کی وجہ سے ہائیڈل پاور جنریشن میں کمی واقع ہوتی تھی۔حکومت کا یہ دعوی ہے کہ ڈیڑھ سال میں صرف ایک بار بجلی کے ٹیرف پر نظر ثانی کی گئی ہے جس سے بجلی کی قیمت میں 30 سے 34 فیصد اضافہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے بجلی کی قیمت کے معاملے پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے۔بجلی کے ٹیرف کا تعین اگرچہ نیپرا کی ذمہ داری ہے لیکن گزشتہ اکتوبر میں حکومت نے اسے نظر انداز کر کے ملٹی سلیب سسٹم ختم کر کے ون سلیب سسٹم متعارف کرانے کا انتہائی غلط فیصلہ کیا۔ بعد میں سپریم کورٹ کی مداخلت پر نوٹیفکیشن نیپرا سے جاری کرا دیا گیا۔اس فیصلے کا اثر بجلی کی قیمت میں100 گنا سے بھی زائد اضافے کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔آسان الفاظ میں اگر سمجھنا ہو تو اس وقت بجلی کی فی یونٹ قیمت1 سے100 یونٹ تک پانچ روپے اناسی پیسے، 101 سے 200 یونٹ تک آٹھ ر وپے گیارہ پیسے، 201 سے 300 یونٹ تک بارہ روپے نو پیسے، 301 سے 700 یونٹ تک سولہ روپے اور 700 یونٹ سے اوپر تک 18 روپے ہے۔اب اگر ایک گھر میں 400 یونٹ بجلی استعمال ہوتی ہے تو اسے تمام یونٹ کا بل16 روپے کے حساب سے ہی ادا کرنا پڑےگا۔ موجودہ حکومت سے پہلے ملٹی سلیب سسٹم کے تحت تین سو یونٹ تک الگ نرخ چارج کئے جاتے تھے جو کم ہوتے تھے جبکہ اوپر کے ایک سو یونٹ پر زیادہ نرخ الگ چارج ہوتے تھے اس طرح مجموعی طور پر بل کی رقم موجودہ نظام کے مقابلے میں کافی حد تک کم ہوتی تھی۔
عوام کو بجلی کی قیمت کے ساتھ اب تقریبا25 فیصد تک مختلف ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتے ہیں جن میں اب نیپا کی مخالفت کے باوجود ایکولائزیشن سرچارج کا اضافہ بھی کر دیاگیا ہے۔ عوام کی جیبوں پر جو ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اس میں بجلی چوری سمیت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 22 سے 24 فیصد نقصانات اور نادہندہ سرکاری اداروں کے ذمہ 552 ارب روپے کے خطیر واجبات کی رقم بھی شامل ہے۔ وزیر مملکت پانی و بجلی کیا قوم کو بتائیں گے کہ انہوں نے کتنے نادہندہ سرکاری اداروں کی بجلی منقطع کی ہے اور آج تک ان سے کتنی ریکوری کی گئی ہے۔نندی پور پاور پروجیکٹ پر گزشتہ حکومت کے لتے لینے والے کیا عوام کو جواب دہ ہونگے کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے بغیر انہوں نے وزیر اعظم سے425میگاواٹ کے پاور پلانٹ کی افتتاحی تختی لگوا کر عوام کو دھوکہ کیوں دیا اور 58 ارب روپے تک لاگت پہنچنے کے باوجود تاحال منصوبے سے بجلی کی پیداوار کیوں شروع نہیں کی جا سکی۔ قائد اعظم سولر پارک منصوبہ جسے اب عدالت میں چیلنج بھی کر دیا گیا ہے اسے ماہرین کی وارننگ کے باوجود دنیا بھر کی طرح آف گرڈ لگانے کی بجائے آن گرڈ کیوں لگایا جارہا ہے۔ ماہرین جب بتا چکے کہ اس سولر پارک میںایکہزار میگاواٹ کے وسائل خرچ کر کے صرف 160میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے تو اس منصوبے سے صرف نظر کیوں نہیں کیا گیا۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی جن رینٹل پاور منصوبوں کے خلاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے انہوں نے اب انہی رینٹل پاور منصوبوں کی بحالی اور نئے چھوٹے رینٹل پاور پلانٹ لگانے کی سمری پر وزیر اعظم سے کیوں دستخط کرائے۔ دبئی کے حکمرانوں کی طرف سے دیا گیا پاور پلانٹ کا تحفہ کیوں بے کار پڑا ہے اور چیچو کی ملیاں میں450 میگا واٹ کا منصوبہ کیوں ختم کردیا گیا۔ پاکستان اسٹیٹ آئل کی پاور سیکٹرکے ذمہ رقم 100 ارب روپے تک کیسے پہنچ گئی۔ گردشی قرضہ ایک بار پھر بڑھ کر 278 ارب روپے تک کیسے ہوگیا،آئی پی پیز متعدد بار حکومت کو ساورن گارنٹیز ضبط کرنے کے نوٹس کیوں بھجوا چکی ہیں۔این ٹی ڈی سی اور پیپکو کے مستقل ایم ڈی کیوں نہیں لگائے جاتے، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو کی تقرری میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کو کیوں غیر فعال کردیا گیا ہے۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے بحران پر قابو پانے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے ہنگامی اقدامات کرتی لیکن بجلی کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے اور سردیوں میں بھی طویل لوڈ شیڈنگ سے ان کی زندگی مزید ابتر کردی گئی ہے۔ دوسری طرف حکومتی بابو عوام کو یہ دلاسہ دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے دورہ چین میں چینی سرمایہ کاروں نے بجلی کے شعبے میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کے معاہدے کئے ہیں۔ان منصوبوں کی تکمیل سے 2018ء میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائےگی،جرمنی اور برطانیہ نے بھی توانائی کے شعبہ میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جس کے بعد عوام کو سستی بجلی میسر ہوگی۔ بجلی کے بحران پر قابو پانے کی حکومتی کوششیں اپنی جگہ ،چاہئے حکومت طویل المعیاد منصوبے بناتی رہے لیکن ہماری وزیر اعظم صاحب سے گزارش ہے کہ ان کی حکومت نے بجلی کے بلوں میں جو کرنٹ دوڑایا ہے اس کے خاتمے کے لئے فوری طور پر ون سلیب سسٹم کے متعارف کرائے گئے نظام کو ختم کرنے کی ہدایات جاری کریں،ورنہ بجلی یاد رکھیں کہ اسی کرنٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا تھا۔
تازہ ترین