• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس امر کو تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرہ ایک متنوع المزاج جگہ ہے اس لئے یہاں کے مسائل بھی اسی اعتبار سے علیحدہ توجہ کے طالب ہوتے ہیں آپ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیے ہر شہر ہرقریہ کی اپنی کہانی ہے میں سیاحت کا انتہائی شوق رکھتا ہوں اور بقول شخصیـ’’ میری آوارگی نے مجھ کو آوارہ بنا ڈالا‘‘ کہ مصداق اپنے ملک کو دریافت کرنے میں بھی ایک الگ مزہ ہے۔ چند ہفتے قبل ایک دوست سے معلوم ہوا کہ خوشاب میں ضلع جوہر آباد کے قریب ملک کا دوسرا بڑا قدرتی جنگل موجود ہے تو یہ معلومات میرے لئے خاصی حیران کن اور نئی تھی اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ اس جگہ سے دور رہا جائے۔ مولانا محمد علی جوہر کے نام سے منسوب ضلع خوشاب کا ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر جوہر آباد پاکستان کے ان چند شہروں میں شامل ہے جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنایا اور بسایا گیا تھا،صحرا تھل کے مشرقی علاقے میں واقع یہ شہر سطح مرتفع پوٹھوہار اور پنجاب کے سرسبز میدانوں کے سنگم پر موجود ہے جس کے جنوب مشرق سے دریائے جہلم گزرتا ہے۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے میں یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ 1948ء میں بابا ئے قوم محمد علی جناح اور وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے اس علاقے کو بطور دارالحکومت ترقی دینے کا حکم دیا تھا جسے بعد ازاں یک جنبش قلم فیلڈ مارشل ایوب خان نے منسوخ کرتے ہوئے اسلام آباد کو دارالحکومت بنادیا اور آج بھی ان دونوں شہروں کا نقشہ ایک سا ہی ہے جسے ایک جرمن فرم نے بنایا تھا۔ اس جرمن فرم کی جانب سے اس جگہ کے انتخاب کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ علاق زلزلے سے محفوظ ہے۔ خوشاب ریزرو فارسٹ (Khushab Reserve Forest) کے نام سے پہچانے جانے والا جنگل شاید وہ سب سے غیرمعروف جگہ ہے جہاں جوہرآباد آنے والے جاتے ہیں مختلف النواع کے درختوں سے بھرپور یہ جگہ قدرتی مناظر کے دلداہ افراد کے لئے بہترین جگہ قرار دی جاسکتی ہے ۔مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے جب ہندوستان کی سیر کا موقع ملا تو چندی گڑھ کے قریب ایک ایسے ہی جنگل میں جانے کا اتفاق ہوا جو6 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے ان دونوں جنگلات میں جو قدر مشترک ہے وہ ان کا قدرتی اُگائو ہے ۔ شاید ہماری نفسیات بن چکی ہے کہ ہم قدرت کی جانب سے عطیہ کردہ ہر چیز کو ضائع کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور یہی رویہ اس خطہ ارض کے ساتھ بھی روا رکھا گیا ہے۔ اتنے بڑے علاقے پرمحیط ہونے کے باوجود نہ تو کبھی اسے سرکاری طور پر محفوظ بنانے کی کاوش کی گئی ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کے کچھ امکان نظر آتے ہیں۔
چندی گڑھ میں موجود جس جنگل کاقارئین کے سامنے ذکر کیا گیاہے وہاں پر بھارتی حکومت کی جانب سے سیاحت کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے باعث سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کی جا رہی ہے۔ میں نے جب وہاں موجود ایک بھارتی فارسٹ آفیسر سے اس کا سبب دریافت کیا تو اس نے مجھے بتایا کہ سیاحوں کی یہاں آمد کی واحد وجہ اس جنگل کا قدرتی ماحول ہے اور ہم نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ ہم جو سہولتیں یہاں فراہم کی جائیں ان کی وجہ سے اس کے قدرتی پن کو کوئی نقصان نہ پہنچے یہاں تک کے یہاں پر سیاحوں کے لئے تعمیر کئے جانے والے ہٹ میں بجلی بھی فراہم نہیں کی گئی اور یہی چیز ملکی اور بالخصوص غیر ملکی سیاحوں کو یہاں کھینچ کر لاتی ہے ۔
میرے خیال میں کچھ ایسے ہی اقدامات یہاں بھی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاحوں کو اس جانب بھی راغب کیا جاسکے لیکن ظلم کی انتہا یہ ہے کہ یہ جنگل تیزی سے بڑھنے کی بجائے اسی تیزی سے غائب ہورہا بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ غائب کروایا جارہا ہے۔ مجھ سمیت بہت سے اورصحافی دوستوں کو جو چیز عام سیاحوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہمارا سیاحتی صحافی ہونا ہے اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک علاقے کا دورہ کیا جائے اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات نہ ہو دوران سفر و قیام جن مقامی دوستوں سے ملاقات رہی ان کا کہنا تھا کہ عجیب بات یہ ہے کہ صوبائی وزیرجنگلات ملک آصف بھاء کے علاقے میں ہونے کے باوجود اس کا اتنی تیزی سے اپنے اختتام کی جانب بڑھنا خود ایک سوالیہ نشان ہے یہاں سے روزانہ لاکھوں روپے کی قانونی یا غیرقانونی لکڑی دوسرے شہروں بھجوائی جارہی ہے لیکن تباہی قدرت کی کی جارہی ہے اور میرے خیال میں اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ جب قدرت سے چھیڑ خانی کی جائے تو وہ کس ردعمل کا اظہارکرتی ہے ۔ مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں موجود بہت سے دیہات ایسے ہیں جو تقسیم ہند کے وقت آنے والے مہاجرین آباد کاروں نے آباد کئے جن کی تعداد تقریباً 75 ہے ۔ایسے ہی ایک دیہات میں ایک میزبان کی چوپال میں موجود ایک بزرگ جو کہ پہلے برٹش انڈین آرمی میں صوبیدار تھے اور بعدازاں وہ پاک فوج کے ساتھ منسلک ہوئے نے بتایا کہ ہم نے صحرا سے زمین چھین کر فصلیں اُگائی ہیں تھل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے ان افراد کو 15ایکڑ تک اراضی دی گئی جن میں بڑی تعداد ان سابق فوجیوں کی شامل تھی جو برٹش انڈین آرمی سے پاکستان آرمی میں آئے تھے۔
مقامی آبادی کے مسائل یقینا اپنی جگہ لیکن آباد کاروں کے ان 75 دیہاتوں کی آبادی جو کہ10 سے 15 ہزار نفوس پر مشتمل ہے کا گلہ تھا کہ یہ ضلع ملک کے ان چند اضلاع میں شامل ہے جس کی شرح خواندگی 80 فیصد سے بھی زائد ہے لیکن ہمارے ساتھ ظلم یہ ہے کہ ہمیں پینے کو صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ 50سال قبل علاقے میں ہیلتھ سینٹر بنائے گئے مگر آج تک کسی ڈاکٹر کو وہاں تعینات نہیں کیا گیا۔ واٹر مینجمنٹ منصوبہ تو موجود ہے لیکن لوگوں کی اس تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی ۔ ایک صاحب نے مزید اضافہ کیا کہ پینے کے پانی کا مسئلہ تو اپنی جگہ رہا ہمیں تو اپنی فصلوں تک کے لئے پانی میسر نہیں ہے اور علاقے میں پکی نہر ہونے کے باوجود بیشتر دیہات اس کے پانی سے محروم ہیں۔ بہت سوں نے الزام لگایا کہ دیہات نمبر این بی 45 سے این بی 50 تک کے آباد کاروں کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی سزا دی جا رہی ہے اور میرے لئے یہ بات خاصی حیرت کا باعث تھی۔ ان کے مطابق بقیہ تمام دیہاتوں کو 9 انچ قطر کے پائپ سے پانی کی فراہمی کی جارہی ہے جبکہ ان دیہاتوں کو صرف 3 انچ پائپ سے پانی کیوں فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ وہ بھی مکمل طور پر دستیاب نہیں ہے۔ ایک جوشیلے نوجوان نے بتایا جب ہم نے اس حوالے سے علاقہ کے ایم پی اے سے بات کی تو اس نے کہا کہ آپ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت 9 انچ قطر کا پائپ نہر سے منسلک کر لیں اور جب ایسا کیا گیا تو محکمہ آبپاشی کی جانب سے پانی چوری کے الزام میں ہمیں لاکھوں روپے کا نہری پانی کا بل بھجوا دیا گیا ۔اپنی مرضی سے ووٹ دینا ہمارا حق ہے لیکن ٹوانہ فیملی کو ووٹ نہ دینے کی سزا اس طرح دی جائے گی اس کا ہمیں علم نہیں تھا ۔اس نے مزید اضافہ کیا کہ جناب ہم پیدائشی مسلم لیگی ہیں ہمارے بزرگوں نے اپنی جنم بھومی اس سرزمین کی تشکیل کے لئے چھوڑی تھی یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ گائوں والے کسی اور کو ووٹ دے دیں۔ اس نوجوان اور دیگر لوگوں نے تو بہت سی باتیں کیں لیکن میں سوچ رہا تھا کہ کیا اب بھی ہم ساٹھ یا ستر کی دہائی میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں لوگوں کو محض اس بات پر واجب سزا گردانا جائے کہ ان کی سیاسی وابستگی کچھ اور ہے اور ان پر پانی جیسی بنیادی ضرورت و سہولت کو بند کردیا جائے شایداب بھی’’ کسی کو کسی کا امتحاں مقصود ہے‘‘۔
تازہ ترین