• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
توقع کی جا رہی ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان کے دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ اس طرح کی توقعات تبھی پوری ہوں گی اگر پاکستان افغانستان کے بارے میں پچھلی تین دہائیوں سے اپنائی گئی پالیسیوں کو تبدیل کرتے ہوئے ہر اس عمل سے گریز کرے جس سے دراندازی کا شائبہ ہوتا ہو۔ پاکستان کے لئے لازم ہے کہ وہ افغانستان کو ایک خود مختار ملک کے طور پر لے اور اس طرح کا تاثر نہ دے کہ یہ اس کے گھر کا پچھواڑہ ہے جہاں وہ اپنی مرضی کی حکومت قائم کرکے اسے بھارت کیخلاف جنگ میں استعمال کر سکتا ہے۔جناب اشرف غنی نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے چین کا دورہ کیا اور اس ملک کے ساتھ تیس بلین ڈالر سے زیادہ کے سمجھوتوں پر دستخط کئے۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے پاکستان کے دورے کو ترجیح دی۔ وہ پاکستان ایک بہت بڑے وفد کے ساتھ آئے جس میں تقریباً افغان ریاست کے سب بڑے اداروں کے سربراہان شامل تھے۔ ان میں امور معیشت و تجارت کے چوٹی کے لوگ بھی تھے اور فوج اور افغان خفیہ و سیکورٹی ایجنسیوں کے سربراہان بھی۔ اس سے یہ تاثر لینا غلط نہیں ہوگا کہ صدر اشرف غنی پاکستان کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
صدر غنی کے پیشرو حامد کرزئی ہر پہلو سے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے ہیں اور پاکستان پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین سے افغانستان میں تخریب کاروں یعنی طالبان کو پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ زیادہ تر امریکی حلقوں کی بھی یہی رائے رہی ہے اور اسی کا اظہار پچھلے دنوں پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا۔ پاکستان اس طرح کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے لیکن عالمی حلقوں میں تاثر ہے کہ پاکستان افغانستان میں دراندازی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان افغانستان پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ ملا فضل اللہ جیسے پاکستانی طالبان کو پناہ دئیے ہوئے ہے۔ پاکستان کا یہ بھی الزام ہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے بلوچ علیحدگی پسندوں کی فوجی اعانت کررہا ہے۔ غالباً دونوں ملکوں کے ایک دوسرے پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد نہیں ہیں: پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریخ کے اس باب کو بند کرکے نئی شروعات کی جائے۔تاریخی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان مخاصمانہ فضا پاکستان کی تخلیق کے وقت سے ہی شروع ہو گئی تھی: افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے اقوام متحدہ کا ممبر بننے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ پاکستان کی پہلی دو دہائیوں میں پختونستان کا مسئلہ بھی کافی گمبھیر تھا۔ باچاخان کی رہنمائی میں بہت سے پختون قوم پرست پختونستان کیلئے سرگرم تھے۔ کابل حکومت بھی کھلم کھلا پختونستان کی حمایت کرتی تھی۔ یہاں تک کہ افغان پارلیمنٹ میں پاکستانی پختون نمائندوں کی باقاعدہ سیٹیں رکھی جاتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کا شمالی سرحدی صوبہ (آج کا خیبر پختونخوا) اور آزاد علاقوں کا پاکستانی معیشت کے ساتھ کوئی ربط نہیں تھا۔ لیکن جوں جوں اس علاقے کی معیشت کے پاکستان کے ساتھ رابطے بڑھنے لگے پختونستان کی تحریک دم توڑنے لگی۔ ستر کی دہائی کے اواخر تک پختونستان کےلئے ہمدردیاں رکھنے والی نیشنل عوامی پارٹی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کا حصہ بن چکی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ مرکز پسند پارٹیوں کی صف میں شامل ہو گئی تھی۔ المختصر اب خیبر پختونخوا کی کوئی پارٹی بھی علیحدگی پسند نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ آج کے پاکستان میں سب سے بڑھ کر پختونوں کے مفادات ہیں کیونکہ ان کے کاروبار اور ذرائع روزگار پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اگر افغانستان پاکستان میں پختونستان کی حمایت کرتے ہوئے دراندازی کا ارتکاب کر رہا تھا تو دوسری طرف پاکستان نے بھی ستّر کی دہائی سے افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی شروع کردی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو چاہتے تھے کہ افغانستان کے صدر داؤد ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے کے معاہدے پر دستخط کردیں۔ جب سردار داؤد نے اس سے انکار کیا تو بھٹو صاحب نے گلبدین حکمت یار کے اسلامی گروپ کی فوجی ٹریننگ شروع کروادی تاکہ کابل گورنمنٹ پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔ پھر جب سردار داؤد کا تختہ الٹا گیا اور کابل میں روس نواز سوشلسٹ حکومت کا قیام عمل میں آیااور بالآخرروس نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو پاکستان نے امریکیوں کی مدد سے مجاہدین کے گروپوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کا بیڑا اٹھایا۔اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ جنرل ضیاء الحق امریکی مداخلت سے پہلے ہی افغانستان میں روس کے خلاف مزاحمتی گروہوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ ضیاء الحق خود پاکستان میں قدامت پرست اسلامی نظام کا نفاذ کر رہے تھے، وہ اپنے پڑوس میں ایک سوشلسٹ ملک کا وجود کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ چنانچہ وہ برضا رغبت امریکہ کے افغانستان کو عالمی جہاد کا اکھاڑہ بنانے کیلئے میدان میں کود پڑے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے جس کا سب کو علم ہے۔افغانستان میں پچھلی تین دہائیوں سے خانہ جنگی نے ملک کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ افغان اپنے ملک کی بربادی کا پاکستان کو بھی ذمے دار سمجھتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستان نے اپنے اور امریکی مفادات کے حصول کیلئے افغانستان میں مسلسل دخل اندازی کی ہے۔ اگرچہ اکثر پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک نے افغان پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کرکے افغانوں کے ساتھ عظیم احسان کیا لیکن ایک اوسط درجے کے افغان کے نزدیک افغانوں کو پاکستان کی وجہ سے بے گھر ہونا پڑا۔پاکستان میں کلیدی پالیسی ساز بھی افغانستان کے بارے میں کمال خوش فہمی کاشکار رہے ہیں۔ مجاہدین کے ہاتھوں روس کی شکست سے پاکستان میں یہ گمان پیدا ہو گیا کہ اب وہ کابل میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ مجاہدین بھی پاکستان کے مشوروں پر کان نہیں دھرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود ضیاء الحق کی کوششوں کے افغان مجاہدین کسی بھی طرح کی ایسی حکومت بنانے کے لئے تیار نہ ہوئے جس سے خانہ جنگی سے گریز ممکن ہوتا۔ مجاہدین نے اپنی من مانیاں کرتے ہوئے خانہ جنگی کا بازار گرم کیا جس نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ مجاہدین کی شروع کی ہوئی خانہ جنگی پر قابو پانے کے لئے طالبان کو میدان جنگ میں اتارا گیا۔ اگرچہ پاکستان نے طالبان کی حکومت قائم کروانے کے لئے ہر طرح سے مدد کی لیکن طالبان نے بھی پاکستان کے مشوروں پرعمل کرنے سے انکار کردیا۔غرضیکہ پاکستان کا کابل میں اپنی تابع حکومت قائم کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود پاکستان میں بہت سے عسکری تجزیہ کار افغانستان میں اسٹریٹجک گہرائی حاصل کرنے کے فریب میں مبتلا رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے بارے میں قائم کردہ خوش فہم مفروضوں سے نکل آئے۔ پاکستان ہر پہلو سے افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی بند کردے اور اس ملک کو اپنا راستہ تلاش کرنے دے۔ پاکستان کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ اگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود افغانستان کوکنٹرول نہیں کر سکا تو ہندوستان بھی اس ملک کو اپنے شکنجے میں نہیں لے سکتا۔ پاکستان کو افغانستان کےسلسلے میں ہندوستان پر ایک جغرافیائی برتری حاصل ہے کہ نہ صرف افغان معیشت کا پاکستان کے ساتھ گہرا تعلق ہے بلکہ پاکستان اسے راہداری بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کو برابری کی سطح پر سمجھیں اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات سے مکمل ناطہ منقطع کر لیں تو علاقے میں امن اور خوشحالی کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔
تازہ ترین