• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حبیب بینک میں اہم ذِمہ داریاں ادا کر کے پاجی نسیم نے دیگر کئی بینک اور مضاربے قائم کئے یا اُن میں اہم ذِمہ داریاں ادا کیں۔ 76 سال کی عمر میں وہ جوانوں سے بڑھ کر تندرست و مستعد ہیں ۔زندگی کی تلخیاں اور مُصروفیت آڑے نہ آئے تو محبت کے اِس پیکر سے روزانہ ملنے کو جی چاہتا ہے ۔ مہینے میں ایک دو بار ملاقات تو ہو جاتی تھی مگر ناسازئ طبعیت اور غیر معمولی مصروفیات نے اس بار دورانیہ کچھ زیادہ بڑھا دیا ۔ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تو کہنے لگے یار ترابی تم کہاں ہو ؟ میرے ابا جی مجھے چھوڑ کر اﷲ کے پاس چلے گئے ۔ میں نے کہا پاجی آپ کہاں ہیں ؟ آج ہی دو ہفتے بعد بینک میں حاضر ہوا ہوں۔ پاجی کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُن کے لڑکپن کے ساتھی اُن کے پاس موجود تھے ۔ پاجی پھوٹ پھوٹ کے رو رہے تھے ۔ کہنے لگے یار بہت دفعہ سنا تھا ’’ خوبصورتی دیکھنے والی آنکھ میں ہوتی ہے ‘‘ مگر مُجھے سمجھ آج آئی ۔ میرے ابا جی کتنے خوبصورت تھے ۔ پاجی کے والد صاحب حاجی محمد قاسم97 برس کی عمر میں بھی چاق و چوبند تھے ، کچھ سال قبل پاجی نے آبائی گھر بنی راولپنڈی سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ہاؤسنگ میں نیا گھر تعمیر کیا تھا ۔ کوشش کی کہ ابا جی بھی نئے گھر منتقل ہوجائیں مگر آبائی گھرکی محبت میں اباجی نے وہ گھر نہ چھوڑا ۔ ملازمت کے اوقات سے فارغ ہو کر روزانہ کئی گھنٹے اباجی کی خدمت گزاری ، لان میں اُن کے ساتھ شام کی چہل قدمی اور گپ شپ پاجی کا معمول تھا ۔ ان کی پسند کی چیزیں اپنے بچوں کے ہاتھوں منگوانے کی بجائے پاجی خود لاتے ۔ کھانے کی کوئی مرغوب چیز لاتے تو حاجی صاحب کھا کے پاجی کو سینے سے لگاتے اور کہتے نسیم یار مزہ آگیا۔ پاجی نسیم بتاتے ہیں کہ بارہا ایسا ہوا کہ کئی گھنٹے اباجی کے ساتھ گزار کے میں اپنے گھر جا رہا ہوتا تو دل کرتا کہ دوبارہ اباجی کو دیکھ آؤں ۔ گھر داخل ہوتا تو پوچھتے نسیم واپس کیوں آ گئے ہو ؟ کہا اباجی آپ کی محبت واپس کھینچ لائی ۔ حاجی صاحب نے کہا نسیم تمہارے بیوی بچوں کا بھی حق ہے اُٹھو اور ان کے پاس جاؤ ۔ پاجی کی باتیں سن کر شرکاء محفل کی آنکھیں کئی بار نم ہوئیں ۔ پاجی کہنے لگے میں ایک طویل عرصہ سے یہ دعا مانگتا رہا کہ یا اﷲ مجھے اپنے والدین کی جدائی کے صدمے سے قبل اِس جہاں سے لے جانا ۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ نسیم تُو کتنا خود غرض ہے ۔ ماں باپ کی جدائی کا دکھ نہیں دیکھنا چاہتا اُن کو اپنا دکھ دے کے جانا چاہتا ہے ؟پاکستانی معاشرے اور لوگوں کی ہر وقت برائیاں بیان کرنا اور کیڑے نکالنا ہم نے معمول بنا لیا ہے جس سے مایوسیاں بڑھ رہی ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ پاجی نسیم جیسے بے شمار کردار ہمارے ہاں موجود ہیں ، جو نہ صرف اپنی آخرت کا بہترین سامان جمع کر رہے ہیں بلکہ معاشرے میں خیر بھی بکھیر رہے ہیں ۔ ہم اولاد کو بہترین چیزیں دے کر انہیں خوش کرنا چاہتے ہیں جبکہ ماہرین نفسیات کا یہ کہنا ہے کہ بہترین چیز کی بجائے بہترین وقت اپنی اولاد کو دے کر ہم انہیں کئی گنا زیادہ خوش کر سکتے ہیں ۔ پاجی نے کیا خوبصورت بات کی کہ میں اپنی امی اور ابا کے آگے تو کجا کبھی پہلو میں بھی نہیں چلتا تھا ۔ ہمیشہ ان کا پلو پکڑ کر پیچھے چلتا تھا مجھے یقین ہے کہ میرے والدین جنتی ہیں اور روز قیامت میں ان کا پلو پکڑ کر جنت میں داخل ہوں گا ۔ پاجی کے لہجے میں یقین کی انتہا تھی تب مجھے اپنا رحمٰن رب یاد آیا جس نے سورہ بنی اسرائیل میں کہا کہ ’’ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو تم انہیں اُف تک نہ کہو ، نہ انہیں جھڑکیاں دو ۔ ‘‘
پیغمبر مہربان ؐ نے فرمایا ’’ وہ آدمی ذلیل ہو ، پھر ذلیل ، پھر ذلیل ہو ‘‘ لوگوں نے پوچھا اے خُدا کے رسول ؐ کون آدمی ؟ آپ ؐنے فرمایا ’’ وہ آدمی جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی حالت میں پایا ، دونوں یا کسی ایک کو اور پھر (اُن کی خدمت کر کے ) جنت میں داخل نہ ہوا ( مُسلم ) ۔ ایک آدمی نے نبی کریم ؐ سے پوچھا اے اﷲ کے رسولﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپؐ نے فرمایا ’’ تیری ماں ‘‘ اُس نے کہا پھر کون ؟ فرمایا ’’ تیری ماں ‘‘ آدمی نے کہا پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایا ’’ تیری ماں ‘‘ ، اُس نے کہا پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایا ’’ تیرا باپ ‘‘ ایک اور آدمی کِسی اور روز نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتا ہے اے خدا کے مہربان پیغمبر ماں باپ کے وفات پاجانے کے بعد اُن کا کوئی حق باقی رہ جاتا ہے جسے میں ادا کروں ؟ آپ ؐ نے جواب دیا ’’ ہاں اِن کے لئے دعا اور استغفار کرو اور جو جائز وصیت وہ کر گئے ہیں اس کو پورا کرو اور والدین سے جن لوگوں کا رشتے داری کا تعلق ہے ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو اور ماں باپ کے دوست اور سہیلیوں کی عزت اور خاطر داری کرو ۔ ‘‘
مغرب کا معاشرہ جس کے ہم گرویدہ اور جس کی تعریف میں ہر لمحے رطب اللِسان رہتے ہیں ، استثنیٰ کو چھوڑ کر مجموعی طور پر ان خوبیوں سے محروم ہے جو اِسلام نے ہمیں سکھائیں ۔ مغرب کی اکثریت اپنے عیش و عشرت کی خاطر اولادوں کو Babysisters کے حوالے کر دیتی ہے ۔ وہاں کے بچوں کو والدین کی محبت حاصل ہے،تربیت اور نہ ہی مکمل نگہداشت ۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے گزشتہ کل جن والدین نے اولادوں سے بے اعتنائی برتی تھی ان کے بچے ادھیڑ عمری میں ان سے الگ ہو جاتے ہیں یا Old Homes میں انہیں چھوڑ آتے ہیں ۔ فعال اور ذِمہ دار حکومتی نگہداشت کے باوجود بھی کئی بوڑھوں کی لاشیں کئی دن بعد لوکل کونسل کو ملیں اور انہیں دفنایا گیا ۔ مغرب پر زیادہ نکتی چینی کی بجائے ہمیں اپنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں پر بھی توجہ دینا ہوگی ۔ ہماری نوجوان نسل اسلام آباد کے ڈی چوک یا دیگرشہروں کے جلسوں اور دھرنوں میں تہذیب و شائستگی کا درس حاصل کر رہی ہے یا ’’ ہمارے رہنما ‘‘ انہیں اوئے اوئے اور اوئے نواز شریف سِکھا رہے ہیں ؟ یہ لمحہ فکریہ ہے نئی نسل سے بڑھ کر مربیان ملت کے لیے ، اِس کے ساتھ ساتھ وہ جن کی زبانیں قال اﷲ و قال رسول اﷲ کہہ کہہ کر سوکھ گئی ہیں ، جو دوسروں کے بعض اعمال کو بدعت قرار دے کر انہیں جہنمی قرار دیتے ہیں سے بھی ایک سوال ہے کہ آپ تو یہ کہتے تھے کہ مغرب نے والدین کے ادارے کو ختم کر دیا ہے ۔ آج آپ نے بعض نوجوانوں کو کسی اور راہ پر ڈال کر کیا انہیں والدین کا نافرمان نہیں بنا دیا ؟ ہادی برحق ، مجاہد اعظم محمد رسول اﷲکی خدمت میں ایک صحابیؓ حاضر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں میں آپؐ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کے لئے بیعت کرتا ہوں اور خدا سے اس کا اجر چاہتا ہوں ۔ آپ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں دونوں زندہ ہیں ۔ آپ نے فرمایا تو کیا تم واقعی خدا سے اپنی ہجرت اور جہاد کا بدلہ چاہتے ہو ؟ اس نے کہا جی ہاں میں خدا سے اجر چاہتا ہوں ۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا تو جاؤ اپنے ماں باپ کی خدمت میں رہ کر ان کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔ ایک اور صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر جہاد میں شرکت کی خواہش ظاہر کرتے ہیں ، آپ نے اُن سے پوچھا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ انہوں نے کہا جی ہاں تب آپ نے فرمایا جاؤ ان کی خدمت کرتے رہو یہی جہاد ہے ۔ اﷲ اور اس کے رسول ؐ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اور والدین سے حسن سلوک کا رویہ ترک کر کے کیا ہم جنت کی خوشبو تک پا سکیں گے؟ ہرگز نہیں۔
تازہ ترین