• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تو کیا جعلی پو لیس مقابلوں سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ سارے دہشت گرد اس طرح ختم ہو جائیں گے؟ دہشت گردی سے جان چھوٹ جائے گی؟ جو کچھ کیا جا رہا ہے، کیا یہ کوئی مہذب طریقہ ہے؟ پہلے لوگوں کو گھروں سے اٹھائو، پھر پولیس مقابلہ کہہ کر ہلاک کردو۔ قانون کا احترام کرنے والے کسی ملک میں ایسا ہوتا ہے؟ مقدمہ چلائے بغیر، کسی عدالت میں جرم ثابت کئے بغیر، کیا کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ کیا دہشت گردی ریاستی دہشت گردی سے ختم ہو سکتی ہے؟
کسی بھی سوال کا جواب اثبات میں ممکن نہیں۔ ماضی کے تجربات بھی یہی بتاتے ہیں۔ پولیس نے سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے، یہ 95۔96 کی بات ہے۔ نصیراللہ بابر وفاقی وزیرِ داخلہ تھے، رحمٰن ملک ان کے دستِ راست۔ مہاجر(بعد میں متحدہ) قومی موومنٹ کے خلاف آپریشن جاری تھا۔ آئے دن ایم کیو ایم کے کارکن ’’ـپولیس مقابلیـ‘‘ میں ہلاک کئے جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ کو تو جیل سے نکال کر مارا گیا۔ غالباً فہیم نام تھا، پولیس اُسے گرفتار کر چکی تھی، مگر خصوصی ریمانڈ پر ’’پوچھ گچھ‘‘ کے لئے جیل سے اسے لایا گیا۔ جیل سے کسی ملزم کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے وقت ایک دستاویز پر متعلقہ افسر کو یہ یقین دہانی کرانی پڑتی ہے کہ ملزم کو اسی حالت میں واپس کیا جائیگا۔ فہیم کے ساتھ مگر یہ نہیں ہوا۔ نصیراللہ بابر تقریباً روزانہ ہی پریس کانفرنس کرتے تھے، اپنی کامیابیوں کی تفصیلات بتاتے ۔ اکثر ان سے جھگڑا رہتا، وہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کی حمایت کرتے، صحافی شدّومد سے مخالفت۔ کبھی کبھی تلخی بھی ہو جاتی، مگر مرحوم میں بڑی قوتِ برداشت تھی۔ اکثر و بیشتر انتہائی سخت باتیں بھی برداشت کر لیتے۔ سینیر صحافی شمیم الرحمٰن نے ذرا تلخ بات کی، نصیراللہ بابر نے کہا آپ کس زبان میں بات کررہے ہیں۔ شمیم بھائی مرحوم لکھنئو کے تھے تو نہیں مگر وہاں کے بانکوں کا سا انداز تھا، تڑخ کر (انگریزی میں) کہا ’’میں اُسی زبان میں بات کر رہا ہوں جو آپ کی سمجھ میں آتی ہے۔ ‘‘ بابر مرحوم نے کسی ردِّعمل کا اظہار نہیں کیا، کسی اور صحافی کے سوال کا جواب دینے لگے۔ ایسی ہی ایک پریس کانفرنس کے دوران فہیم کی ’’پولیس مقابلے‘‘ میں ہلاکت کی اطلاع ملی۔ کہا گیا کہ پولیس اسے تحقیقات کے لئے ناظم آباد میں ایک جگہ لے گئی تھی، وہاں اُس کے ساتھیوں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی، جس پر پولیس مقابلہ ہوا اور فہیم مارا گیا۔ آتش نسبتاًجوان تھا، اور ابھی رپورٹنگ جائے واردات پر جا کر کی جاتی تھی۔ کچھ ساتھیوں کے ساتھ ناظم آباد کی اس گلی میں جا پہنچے۔ وہ ایک پتلی سی گلی تھی، جس میں بیک وقت صرف دو گاڑیاں کھڑا کرنے کی گنجائش تھی۔ جس مکان میں یہ نام نہاد پولیس مقابلہ ہوا اس کے سامنے گولیوں سے چھلنی ایک سوزوکی ہائی روف کھڑی تھی۔ مکان کی پہلی منزل پہ اُس وقت بھی خون پڑا ہوا تھا، جو سارا جما نہیں تھا ، خون میں اور خون سے باہر گولیوں کے خول پڑے تھے۔ پہلی منزل پر پولیس مقابلہ؟ عقل نے اُس وقت تسلیم کیا نہ اب ماننے کو تیار ہے کہ ایک گھر میں اوپر جاکر کوئی کسی کو پولیس سے چھڑانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اتنے اوپر مقابلے کے امکانات اُس وقت تھے، نہ اب ہو سکتے ہیں۔ نصیراللہ بابر مگر بضد تھے۔ پولیس کو اُن کی اشیرباد حاصل تھی۔ متعدد لوگ ہلاک کئے گئے، کبھی کسی تھانے کے اندر ہی ’پولیس مقابلہ‘ کردیا، کبھی کسی کو چھت سے پھینک کر ہلاک کردیا۔ایم کیوایم اُس وقت ماورائے عدالت قتل کے خلاف تھی اور اس کی سنتاکون تھا۔ عوامی حلقے بھی احتجاج کہاں کرتے تھے؟ یاد نہیں پڑتا کہ انسانی حقوق کمیشن نے اس پرکبھی شور مچایا ہو، جیسے وہ اکثر مچاتا ہے۔ کچھ اخبار نویس تھے کہ اس کے خلاف آواز بلند کرتے تھے، بی بی سی سے خبریں نشر کیں، ہیرالڈ میں مضامین لکھے۔ ان کا اثر کیا ہونا تھا۔ پولیس کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی اور قانون کی خلاف ورزی پر انہیں مکمل تحفظ حاصل تھا۔ اور جب پولیس سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو بلکہ اسے تھپکی دی جارہی ہو، تو وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ایسی ہی ایک شام، وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو ان کے گھر 70کلفٹن سے چند سو گز کے فاصلے پر’’پویس مقابلے‘‘ میں ان کے کئی اور ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا گیا۔جب اپنے بھائی کی لاش کے سرہانے ، بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنی،وزیراعظم بے نظیر رات گئے ننگے پیر کھڑی تھیں تو ان کا دکھ وہاں موجود صحافیوں نے بھی محسوس کیا۔ یہ کہنے کا وہ موقع نہیں تھا کہ ماورائے عدالت قتل کی اجازت تو آپ ہی نے دی تھی، پولیس کو جب یہ اجازت مل گئی تو پھر روک ٹوک کیسی۔ چند ہی ماہ بعد بے نظیر کی حکومت بر طرف کردی گئی بدعنوانیوں کے علاوہ ماورائے عدالت قتل ان کی حکومت کی برطرفی کی پہلی وجہ بیان کی گئی۔ آج 18 برس بعد بھی مرتضیٰ بھٹو سمیت ، ماورائے عدالت، نام نہاد پولیس مقابلوں میں ہلاک کئے جانے والوں کی روحیںانصاف کی متلاشی ہیں۔
اتنے پولیس مقابلوں کے بعد کیا مسائل حل ہو گئے؟ ہو نہیں سکتے۔ امن و امان صرف قانون کی بالادستی سے قائم ہوسکتا ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ ساری مہذب دنیا انصاف اور عدالتی نظام پر یقین رکھتی ہے، اسے مستحکم کرتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ پولیس کا کام تحقیق او رتفتیش ہے جس کی بنیاد پر مقدمہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اگر تحقیق میں نقص ہو، تفتیش میں خامی ہو اور مقدمہ میں شواہد کی کمی ہو تو عدالت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ استغاثہ کی خواہش کے مطابق ملزم کو سزا سنا دے گی۔ عدلیہ آج تک اس اصول پر عمل کرتی ہے، اور یہ انصاف کا بنیادی اصول ہے، کہ سو گنہگار چھوٹ جائیں مگر ایک بیگناہ کو سزا نہیں ہونی چاہئے۔ اسی لئے شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جا تا ہے۔ یہ عدالتوں کے فرائض کی بات ہے، جو حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ پولیس کو تو کسی کو قتل کرنے کا اختیار ہے ہی نہیں۔ پورے ملک میں یوں لگتا ہے، پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں پولیس نے کوئی چھ سو لوگ نام نہاد مقابلوں میں ہلاک کئے ہیں، رینجرز کی کارروائیاں الگ ہیں۔ ان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن اور عہدیدار بھی شامل ہیں۔ ابھی چند دن پہلے، جمعیت علمائے اسلام کے ایک عہدیدار مفتی سیف اللہ کو نام نہاد پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا۔ انہیں ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا، ان کی گرفتاری کے خلاف عدالت میں ایک پیٹیشن بھی دائر کی گئی تھی۔ جمعیت نے اس پر احتجاج بھی کیا اور اب پولیس کے اعلیٰ حکام نے تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم بھی اپنے کئی کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کا الزام پولیس پر عائد کر چکی ہے، اہلِ سنّت والجماعت نے بھی احتجاج کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے، ہمیشہ، کہ ان پولیس مقابلوں کی باقاعدہ عدالتی تحقیق کی جائی۔ایسا تھا کہ پولیس اگر لاٹھی چارج بھی کرتی تو اس کی بھی عدالتی تحقیقات ہوتی تھی۔اب اگر لوگ قتل کردیئے جاتے ہیں تو یہ تو دیکھا جائے کہ واقعی پولیس مقابلہ ہوا تھا یا کسی بہت شاطر پولیس افسر نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا ہے۔ا علیٰ حکام جان لیں، قرآن حکیم عدل کی ہدایت کرتا ہے۔ کسی کو جرم ثابت کئے بغیر قتل کرنا عدل کے خلاف ہے۔ صورتحال اس طرح ٹھیک نہیں ہو گی۔ ماورائے قانون اقدامات غیر اخلاقی اور غیر آئینی ہیں،، اور غیر اخلاقی اور غیر آئینی اقدامات سے مثبت نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ ساری دنیا یہ بات جانتی ہے، یہاں بھی کرتا دھرتا لوگ جان لیں۔ یہی ان کے لئے بہتر ہے اور یہی ملک اور معاشرے کے لئے بھی۔عدل اور انصاف ہوگا، پولیس اپنا کام ٹھیک سے کرے گی، اپنی صفیں کالی بھیڑ وں سے پاک کرے گی ، عدلیہ بھی یہی ذمہ داری نبھائے گی، تب ہی معاملات حل ہونگے۔
تازہ ترین