• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دن، ہفتے، مہینے اور سال بن کر اُڑتے جا رہے ہیں جبکہ ہمارے قومی رویے جمود اور انحطاط کا شکار نظر آتے ہیں۔جمود اور انحطاط کے حقیقی اسباب پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے کیونکہ ہمارے محققین کے پاس ’’بے کار‘‘ موضوعات پر کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں۔ وقت اِس لیے نہیں کہ عزت واحترام اب علم و فضل کے بجائے دولت اور شان وشوکت سے وابستہ ہے اور انہی کی پرستش ہو رہی ہے اور انہی کے ذریعے اقتدار اور اختیار کا حصول ممکن ہے۔ اقتدار کی بات چل نکلی ہے ، تو لامحالہ خیال اربابِ اقتدار کی طرف جاتا ہے۔ گزشتہ سال کے انتخابی نتائج کے مطابق مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بڑی پارٹیاں قرار پائیں اور یہ سب کی سب مرکز یا صوبوں میں اپنی اپنی حکومتیں قائم کیے ہوئے ہیں ، مگر قومی سطح پر جناب نوازشریف ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں اور مملکتِ خداداد پاکستان کے وزیراعظم ہیں ، اِس لیے اُن کے ذہنی اور سیاسی رویے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، مگر اُن کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ اِس لیے نہیں کہ وہ ایک جابر حکمران ہیں ، بلکہ اِس لیے کہ وہ شرمیلے بہت ہیں اور بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر شرما جاتے ہیںیا دل میں گرہ لگا لیتے ہیں۔ عمران خاں اِس طرزِ عمل کو بادشاہت کا نام دیتے ہیں، حالانکہ بادشاہت تو خاں صاحب کے حصے میں آئی ہے کہ وہ جس کی چاہیں عزت خاک میں ملا دیں اور جب چاہیں دستوری عمل کو چلنے سے روک دیں۔ اُن کی دشنام طرازی اور بدزبانی سے خلقِ خدا دہشت زدہ ہے اور ہر معزز اور باوقار جج چیف الیکشن کمشنر بن جانے کے تصور سے تھر تھر کانپ رہا ہے۔
وزیراعظم کے بہت ساری خوبیوں کے مالک ہونے کے باوجود یہ تاثر ہے کہ وہ کانوں کے کچے ہیں، کیونکہ وہ مشاورت کے ایک معروف نظام کے تحت کام کرنے کے عادی نہیں ، چنانچہ کوئی صاحب اُن کے کان میں چپکے سے کوئی بات کہہ دیں، تو وہ اِس پر یقین کر لیتے ہیں اور اِس پر عمل بھی کر گزرتے ہیں۔ وہ جب 2013ء کے وسط میں برسرِ اقتدار آئے ، تو کسی صاحب نے کاناپھوسی کی کہ اخبار والوں سے بچ کر رہیں اور اُنہیں منہ نہ لگائیں، چنانچہ یہ طے پایا کہ جب وزیراعظم بیرونی دورے پر جائیں گے ، تو کسی صحافی کو اپنے طیارے پر لے کر نہیں جائیں گے، البتہ جو اصحاب ساتھ جانا چاہیں ، وہ اپنے اخراجات خود برداشت کریں۔ اِس انوکھی بات کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ جب صحافی اپنے خرچ پر کمرشل فلائٹ میں گئے ، تو اُنہیں عجب عجب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بعض اوقات اُن کے دورے کی ٹھیک طور پر کوریج ہی نہ کر سکے اور اہلِ وطن کو بہت کم اِس بات کا علم ہو سکا کہ اِس دورے سے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچا ہے اور وزیراعظم نے کتنی مہارت اور قابلیت سے اپنے ملک کا موقف پیش کیا ہے۔ سابقہ حکومتوں میں وزیراعظم کے ہمراہ جانے والے ایڈیٹروں ، رپورٹروں اور کالم نگاروں کا انتخاب وزارتِ اطلاعات و نشریات کرتی اور اِس امر کا خیال رکھتی تھی کہ بڑے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی نمائندگی کے علاوہ علاقائی پریس کو بھی اہمیت دی جائے۔ یہ لوگ وزیراعظم کے طیارے میں سفر کرتے اور اعلیٰ حکام کے علاوہ عام طور پر وزیراعظم سے براہِ راست استفادہ بھی کرتے اور گہرائی کے ساتھ رپورٹنگ کرتے اور کالم لکھتے۔ اِس طرح دورے کے اہم پہلو بھی اُجاگر ہوتے اور حکومت کی کارکردگی بھی دلچسپ انداز میں سامنے آتی۔ اب جب سے اپنے خرچ پر جانے کی حکمت ِ عملی اپنائی گئی ہے ، تو اخبارات اور چینلز کے مالکان جو اپنی مطبوعات کے چیف ایڈیٹر بھی بن بیٹھے ہیں، وہ اپنے تعلقات بڑھانے کے لیے یا خود جاتے ہیں یا اپنے بیٹوں کو بھیج دیتے ہیں جن کو ٹھیک طور پر لکھنا اور بات کرنا بھی نہیں آتا۔ پچھلے دنوں ہمارے وزیراعظم تین اہم ملکوں کے دورے پر گئے ، لیکن قوم کو صحیح طور پر معلوم ہی نہ ہو سکا کہ وہ کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے کر آئے ہیں۔ سرکاری پریس نوٹ سے وہ فضا پیدا نہیں ہوتی جو آزاد ذرائع سے اُبھرتی ہے اور حقیقتوں میں خوبصورت رنگ جلوہ دکھاتے ہیں۔ واپسی پر بھی وزیراعظم نے میڈیا سے تفصیلی بات چیت نہیں کی اور جب حاسدین کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ چین کے دورے پر معاہدے ہوئے ہیں نہ سرمایہ کاری کی ضمانت دی گئی ہے ، تو چینی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو وضاحت کرنا پڑی کہ 45ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے 19معاہدے ہوئے ہیں اور چین اور پاکستان ’’آئرن برادرز‘‘ ہیں۔
پچھلے چند مہینے حکومت پر بڑے سخت گزرے۔ عمران خاں اور طاہر القادری ہر شب ٹی وی پر چار چار گھنٹے ’’انقلابی‘‘ تقریریں کرتے اور حکومت کے گر جانے کی صبح و شام ’’نوید‘‘ سناتے رہے۔ وہ یہ غلط تاثر بھی دیتے کہ فوج کے بعض طاقت ور عناصر اُن کی پشت پر ہیں۔ ایک عجب طرح کا ہیجان برپا تھا۔ پاکستان سیکرٹریٹ عملاً ایک ہفتے بند پڑا رہا۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی حفاظتی دیوار توڑی جا چکی تھی اور بلوائیوں نے پاکستان ٹی وی پر قبضہ کر لیا تھا۔عام تاثر یہ تھا کہ حکومت کے قدم ڈگمگا رہے ہیں اور صرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے اُسے کسی قدر سہارا دے رکھا ہے۔ ایسے مواقع پر اربابِ حکومت کو یہ تجویز دی گئی کہ وزیراعظم ہفتہ وار قوم سے خطاب کریں اور اہلِ وطن کو حقیقی صورتِ حال سے باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ جھوٹے پروپیگنڈے کو بھی دلائل اور اعدادوشمار کی روشنی میں بے نقاب کر سکیں گے۔ بلند ایوانوں سے اُڑتی سی خبر آئی کہ تجویز تو بہت اچھی ہے، مگر وزیراعظم بات کرنے میں بڑے شرمیلے ہیں۔ جواب حیرت ناک تھا۔ حقائق عوام تک پہنچانے میں بھلا شرمانے کی کیا بات ہے؟ امریکی صدر ہر ہفتے اپنی قوم سے خطاب کرتا ہے۔جب صدر زرداری نے پنجاب میں گورنر راج لگایا ، تو یہ دونوں بھائی عوام کے لب و لہجے میں خطاب کرتے اور ذہنوں کو مسخر کر لیتے تھے۔ جناب وزیراعظم کو فرنٹ لائن پر آنا اور قوم کو مسلسل اعتماد میں لینا ہو گا۔ عوام تک پہنچنے کا سب سے مؤثر ذریعہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہے۔ اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اُسے غیر معمولی اہمیت دینا ہو گی۔ حکومت کی اچھی کارکردگی کے سرکاری دعوے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ میڈیا آپ کی اچھی حکمرانی کی ازخود عکاسی کرے۔ حکومت کو اِس وقت قدم قدم پر ایک ناخوشگوار صورتِ حال کا سامنا ہے ، اِس کی بڑی وجہ ایک مؤثر میڈیا پالیسی کا فقدان ہے۔
ڈیڑھ سال بعد اربابِ حکومت نے انگڑائی لی ہے اور شاید یہ خیال آیا ہے کہ عوامی حمایت اور سیاسی طاقت کو بروئے کار لائے بغیر صرف انتظامی اور اقتصادی اقدامات سے حالات میں بہتری کا احساس نہیں دلایا جا سکتا۔پٹرول کی مصنوعات میں دس روپے کی کمی ہوئی، مگر اِس کا اثر بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں ظاہر نہیں ہو رہا۔ اِس کا بڑا سبب حکمران سیاسی جماعت اور انتظامی افسروں کی سہل انگاری ، بے عملی اور نالائقی ہے۔ اِسے معاشرے کے مختلف طبقات سے رابطہ کر کے اُنہیں قیمتیں کم کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے، مگر وہ تو کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ وزیراعظم اِس کے مرکزی صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب صوبے کے صدر ہیں۔ انہیں منصبی فرائض اور بیرونی دوروں سے فرصت نہیں، اِس لیے سیاسی جماعت بے یارومددگار اور اِس کے سیکرٹری جنرل بھی فعال نظر نہیں آتے۔ عمران خاں نے جذبات کا جو ایک طوفان اُٹھا رکھا ہے ، اِس کا صحیح مقابلہ سیاسی طریقوں ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کی رِٹ ضرور قائم ہونی چاہیے اور کسی کو قانونی حکومت کو غیر قانونی ذرائع سے گرانے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے ، لیکن رِٹ کو نافذ کرنے کے لیے ایک فعال عوامی حمایت درکار ہے۔ اِسے متحرک اور اثر انگیز بنانے کے لیے ضلع کی سطح پر سیاسی کارکنوں کے کنونشن منعقد کیے جائیں اور اِن کے مشوروں سے اُبھرنے والے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ اِسی طرح سیاسی اور عسکری قیادت میں زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ افغانستان اور امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کا ایک روشن باب کھل رہا ہے جس میں عسکری قیادت بڑے تدبر اور تحمل کے ساتھ مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔ اِس نے آئی ڈی پیز کا بار بھی اُٹھا رکھا ہے اور وہ شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کا قلع قمع بھی کر چکی ہے ، لیکن ہمارے وزیراعظم اُن کے ساتھ پُرجوش تعلقات قائم کرنے سے شرماتے رہے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ اب اچھے تعلقات کے بندِ قبا کھلتے جا رہے ہیں۔
تازہ ترین