• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی شعبہ، کوئی ادارہ، کوئی محکمہ دیکھ لیں ....... ہر جگہ ایک دوسرے کے گٹے کھینچنے کا کلچر عام ہے، جہاں دیکھو گروہ بندی کا گھنائونا پن اپنے عروج پر ہے۔ یہ گھسا پٹا پھٹا پرانا لطیفہ بھی ہماری اسی ’’روشن روایت‘‘ کی عطا ہے کہ جہنم میں آگ سے دہکتے ہر کنویں کے باہر چوکیدار آتشیں گرزلیئے کھڑے تھے تاکہ کوئی جہنمی کنویں سے باہر نکل کر فرار نہ ہو سکے لیکن چند کنوئوں کے باہر کوئی چوکیدار نہ تھا۔ کسی نے جہنم کے داروغہ سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا ....... ’’ان تمام کنوئوں میں پاکستانی اپنی سزا کاٹ رہے ہیں اور یہاں چوکیداروں کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اگر کوئی باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ہم وطن ہی اس کی ٹانگیں کھینچ کر اسے واپس گھسیٹ لیتے ہیں۔‘‘ میرا ذاتی مشاہدہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی ہیں، متحد نہیں بلکہ ہر کسی نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے اور مسلسل ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے یا کاٹتے رہتے ہیں۔ مختلف گروپس ایک دوسرے کو سکینڈلائیز کرتے رہتے ہیںاور ہمیشہ ایک دوسرے کی کردار کشی پر تلے ہوتے ہیں۔مدتوں پہلے جب جنیوئین پاک ٹی ہائوس اپنے عروج پر تھا۔ بڑے نامی گرامی شاعر، ادیب، نقاد اسے رونق بخشا کرتے تھے تو یہ بات زبان زد عام تھی کہ کچھ لوگ پاک ٹی ہائوس کے بند ہونے تک صرف اس لئے وہاں ڈٹے رہتے ہیں کہ اگر پہلے اٹھ کر چلے گئے تو ان کے باقی دوست ان کی غیبت سے لطف اندوز ہوں گے۔ہمارے اس بیمار رویے کی انتہا یہ ہے کہ جس گھر میں ملازموں کی تعداد زیادہ ہو، وہاں بھی ’’پالیٹکس‘‘ اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ ہر کوئی غیبت اور چغل خوری کی لعنت میں مبتلا ایک دوسرے کی برائی میں جتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ گندگی اس طرح ہماری سیکنڈ نیچر بن گئی ہے کہ اعلیٰ ادنی کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں۔ مرد ملازمین تو ایک طرف، ملازمائیں آپس میں رشتہ دار بھی ہوں تو ایک دوسری کو رن ڈائون کرنے اور چونچیں مارنے سے باز نہیں آتیں۔انتہائی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ بیرون ملک سکھ اور ہندو بھی اس حوالہ سے کہیں بہتر ہیں۔ خاص طور پر سکھوں کا تو جواب ہی نہیں جو ایک دوسرے کیلئے ’’آئوٹ آف دی وے‘‘ جانے کو بھی ’’دھرم‘‘ سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو Establish کرنے کیلئے سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ ہندوئوں میں اتنی کشادگی اور فراخدلی تو نہیں کہ ان کا مقابلہ سکھوں کے ساتھ کیا جاسکے لیکن ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بیسیوں ملکوں میں بغور اپنے اوراپنے پڑوسیوں کے رویوں کا بالواسطہ اور بلاواسطہ موازنہ کیا اور ہر بار دکھ اٹھایا کہ ’’چکڑ چوہدری‘‘ بننے کا جو چائو، چسکا اور ٹھرک یا جنون ہمیں ہے ....... ہمارے پڑوسیوں میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں حالانکہ ہماری تعلیمات میں اہم ترین یہ ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہےمسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہو تو سارا جسم درد محسوس کرتاہےمسلمان کا مسلمان کو مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہےکسی مسلمان کیلئے مناسب نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھےلیکن عملی زندگی میں تو ان باتوں کا سایہ تک بھی محسوس نہیں ہوتا۔ پاکستانیوں کا آپس میں سلوک، رویہ، رشتہ تو چھوڑیں، پورے عالم اسلام کا بھی یہی حال ہےیعنی دور دور تک ’’ٹیم ورک‘‘ کا کوئی تصور ہی موجود نہیں حالانکہ بچپن سے ہی ہمیں ’’اتفاق میں برکت‘‘ ٹائپ کہانیاں پڑھائی رٹائی جاتی ہیں۔ "Unity" کی برکتیں بھی سمجھائی جاتی ہیں خصوصاً بابائے قوم کے اک مشہور قول کے حوالے سے حالانکہ ہمیں نہ یونٹی نصیب نہ فیتھ Faith اور ڈسپلن تو ہمارے قریب سے بھی نہیں گزرا۔ ہم "I for myself" ٹائپ خودغرض کیوں ہیں؟ اس کا جواب تو کوئی ماہر نفسیات ہی دے سکتا ہے ....... میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ’’ٹیم ورک‘‘ نہیں تو کوئی قوم قبیلہ الٹا بھی لٹک جائے تو اس کے حالات سیدھے نہیں ہوسکتے اور ٹیم ورک کا تعلق ’’ڈسپلن‘‘ سے لیکر ’’قربانی‘‘ تک ہر اس شے سے ہے جو ہم پاکستانیوں کو ابتک تو کسی قیمت پر قبول نہیں۔ٹیم ورک کی اہمیت کو سمجھنا ہو تو کبھی ہارمونیم کی کالی اور سفید Keys پر غور کریں کہ یہ آپس میں ملتی ہیں تو سنگیت جنم لیتا ہے۔"United we stand, divided we fall"Homer نے کہا تھا"Light is the task when many share the toil"ایک ہسپانوی محاورہ کا ترجمہ"Team work is a joint action whose advantage is that there is always someone you can blame if things go wrong"اور اب آخر پر ایک خوبصورت جملہ ضائع کروں"A lot of people are lonely because they build walls instead of bridges.
تازہ ترین