• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سب سے پہلے تو ہماری دعا ہے کہ مائنس الطاف متحدہ اپنے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں نہ صرف قائم و دائم رہے بلکہ کراچی کے عوام کو امن و سلامتی کے ساتھ دیگر شہری سہولتیں بھی بڑھ چڑھ کر بہم پہنچائے۔ نہ صرف سندھ بلکہ وطن عزیز کی سیاست میں بھی اپنا مثبت رول ادا کرنے کے قابل رہے۔آج ہم جب دو تین دہائیاں قبل کے حالات سے موازنہ کرتے ہیں تو الحمد اللہ کراچی کے حالات بہتر ہی نہیں بہترین دکھائی دیتے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ خود اردو بولنے والی مہاجر کمیونٹی کو جاتا ہے جنہوں نے پاکستان مخالف نعرہ لگانے والوں کو بلاخوف و خطر مسترد کر دیا ہے ۔جنہوں نے ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں نئی امن اور قانون پسند محب وطن ایم کیو ایم تشکیل دی ہے کوئی بھی اجتماعی نظم مشکلات سے گزرنے کے بعد تشکیل پاتا ہے ہماری تمنا ہے کہ اردو بولنے والے مہاجر بھائیوں کا یہ نظم بکھرنے نہ پائے بلکہ وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں سندھیوں اور دیگر علاقائی قومیتوں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے لیکن یہ سب کچھ فلسفہ عدم تشدد کے اصول پر ہونا چاہیے ۔اگر وہ گاندھی جی یا باچا خان سے اپنائیت رکھتے ہیں تب بھی وہ Non Vilenceکے بنیادی اصول پر سختی سے ڈٹ جائیں اور اپنی جدوجہد قانونی و اصولی دائروں میں رہ کر کریں۔
کراچی کی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے گزشتہ دنوں جیو پر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے حوالے سے شاہ زیب خانزادہ کہہ رہے تھے کہ دو تین دہائیاں گزر نے کے باوجود کوئی خاص تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ اس سلسلے میں جب انہوں نے ماضی کے دریچوں سے جھانکا تو ہمیں بھی احساس ہو ا کہ جناب ارشاد حقانی مرحوم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی ماضی کی ایک تحریر پیش کریں جو دو دہائیوں قبل ہفت روزہ ’’ زندگی‘‘ کے شمارہ4 اگست 1995ء میں چھپی تھی جس کا عنوان تھا کراچی کا مسئلہ۔۔۔آغاز اور اختتام۔اس دلچسپ کالم کو پڑھتے ہوئے اہلِ نظر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنی طویل مدت گزرنے کے بعد ایم کیو ایم ، جناب الطاف حسین اور کراچی کی صورتحا ل میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ نیز کراچی کا یہ مسئلہ کیونکر پیدا ہوا اور کس طرح حل ہو گا؟۔
’’کراچی کامسئلہ اس وقت پاکستان کا سیاسی ، معاشی، لسانی یا نسلی ہی نہیں رہا ہے بلکہ ملکی سلامتی کامسئلہ بن چکاہے جس کااختتام مشرقی پاکستان جیسا ہونے کا توخیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جیسا کہ بعض حضرات اظہار خیال فرما رہے ہیں البتہ الطاف بھائی کامیاب رہے تو یہ بیروت ضروربن جائیگا۔ پاکستان کا سب سے بڑا روشنیوں سے جگمگاتا خوبصورت شہرقائد کراچی جوکبھی پاکستان کا سب سے بارونق شہرتھا امن و سکون محبت آزادی اوربھائی چارے کاگہوارہ تھا۔
لیکن آج اس کراچی کی فضا اتنی مردم بیزار ہو گئی ہے کہ گولیوں کی تڑ تڑاہٹ میں لوگ پناہ کیلئے ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں ٗہنستا بستا کراچی آج حیران پریشان اور ویران ہے پررونق پارک ہی نہیں سڑکیں بھی سنسان ہیں کسی کا مال محفوظ ہے نہ جان ، اس خوف میں بچے اسکول جانے سے ڈرتے ہیں تو بڑے اپنے دفاتر جانے سے۔۔۔ ایسی بے یقینی ہے کہ سب ڈررہے ہیں گھر زندہ لوٹیں گے بھی یا نہیں صنعتیں بند ہورہی ہیں کاروبار ٹھپ ہورہے ہیں بدامنی اور دہشت گردی سے متعفن فضا میں سانسیں رک رہی ہیں قلم رک رہے ہیں میٹھی زبانیں رک رہی ہیں مسکراہٹیں چھن چکی ہیں جہاں سب سے زیادہ آزادیاں تھیں وہاں آج سب سے زیادہ خوف ہے جبرہے ٗ ظلم ہے دہشت گرد غنڈے بدمعاش ڈکیت دیدہ دانستہ سربازار سب کچھ کررہے ہیں ۔ لوگ آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں دیکھا کھرے لوگوں کی زبانیں سچائی کیلئے گنگ ہوگئی ہیں جن کی نہیں ہوئیں ان کا انجام تکبیر کے شہید صلاح الدین جیسا ہوتاہے میں خود ہفتہ ڈیڑھ کیلئے کراچی گیاتو میرے عزیزوں نے جو پہلی ہدایت کی وہ یہ تھی کہ دیکھیں یہاں الطاف حسین یا ایم کیو ایم کے متعلق کچھ نہیں بولئے گا۔۔۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہوا؟ کس نے نفرت اورتشدد کی آگ کاالائو بھڑکایا؟ کون اس پر تیل ڈال رہا ہے کون اس آگ کو ہوا دے رہا ہے؟ بہت سے لوگوں کا کہناہے کہ یہ مسئلہ ضیاء الحق کاپیداکردہ ہے جنہوں نے پی پی کو ختم کرنے کیلئے بشمول جی ایم سید مختلف لسانی ،نسلی اور مذہبی دھڑوں کی حوصلہ افزائی کی اورنتیجتا ایم کیو ایم کی پیدائش ہوئی پھرافغان جہاد کی وجہ سے جب اسلحہ کی فراوانی ہوئی تو یہی جنگجو مسلح دہشت گرد بن گئے اس اٹل حقیقت کے بالمقابل دوسرے لوگوں کا کہناہے کہ کراچی کا مسئلہ ذوالفقار علی بھٹو کے کوٹہ سسٹم کاپیداکردہ ہے جس کی بدولت اندرون سندھ کا ایک نااہل نوجوان کراچی شہر کے ایک اہل نوجوان کا حق مارلے جاتا تھا اس طرح اس وقت اور اس کے بعد سندھیوں کی ناجائز حوصلہ افزائی کرنے اور ناحق کو حق دار قرار دینے سے شہری علاقوں میں احساس محرومی پیدا ہوا جس سے حقوق کی ایسی آگ چھڑی جو اندر ہی اندر سلگتے ہوئے بالا ٓخر موجودہ دہشت گردی تک پہنچ گئی۔
یہ بھی واضح ر ہے کہ کراچی میں پی پی کو کبھی بھی اتنی مقبولیت حاصل نہیں رہی کہ جسے ختم کرنے کیلئے کسی نسلی یا لسانی گروہ کو پروان چڑھایا جاتا لیکن حفظِ ماتقدم کے طور پر ایسے کیا گیا واضح رہے کہ یہاں پہلے جماعت اسلامی یا جمعیت علمائے پاکستان کی سیاست ہوا کرتی تھی ان مذہبی تنظیموں کی میٹھی میٹھی باتوں سے اردو بولنے والے اسلام سے سرشار مہاجربزرگ جھومتے رہتے تھے لیکن ان کی اگلی نوجوان نسل نے جب دیکھا کہ میٹھی باتوں سے ثواب توشاید ملتاہے لیکن پیٹ یقینا نہیں بھرتا ، مزید بڑھتی ہوئی آبادی میں کوٹہ سسٹم کے خوفناک نتائج نے انہیں یقین دلا دیا کہ اگلے جہاں کی آگ جو ہوگی سو ہو گی لیکن اس جہان میں پیٹ کی بڑھتی بلکہ بھڑکتی ہوئی آگ انہیں زندہ جلا ڈالے گی کیوں نہ ہم اکٹھے ہو کر منظم ہوکراپنے حقوق کیلئے جدوجہد کریں یہاں تک تو بات فطری تھی جسے نامناسب کہنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں ہے۔
اس کے بعد وہ کیا عوامل تھے کہ جن کی بنا پر اس پڑھی لکھی ،مہذب، محب وطن کمیونٹی کی جائز حقوق کیلئے پرامن جدوجہد ایک بالکل ہی دوسری لائن اختیار کرتے ہوئے مسلح دہشت گردی اورتخریب کاری میں بدل کرفساد فی الارض کی صورت اختیارکرگئی؟تحریک پاکستان میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر قربانیاں دی تھیں وہ اندرونی ہندوستان کے ان علاقوں میں رہتے تھے جن علاقوں نے پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا قیام پاکستان کا اصل فائدہ تو ظاہرہے ان لوگوں کو پہنچنا تھا جو مسلم اکثریتی علاقوں میں آباد تھے ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں جو بیش بہا قربانیاں دیں وہ ان کے اسلام اور پاکستان سے خلوص اور عقیدت ہی کاثبوت نہیں بلکہ ان کے بے غرض، بے لوث اورمادی مفادات سے بلند تر ہو کرسوچنے کی اعلیٰ و ارفع روحانی تمنائوں پربھی دلالت کرتاہے وہ ایسا جذبہ تھا جسے جدید سیاست کے ترازو میں تولا نہیں جا سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ یہ مہاجر لوگ جب پاکستان آئے تو انہیں یہاں جوکچھ ملااس پر مطمئن ہوگئے اگر یہ مفاد پرست لوگ ہوتے تو اتنی قربانیاں کیوں دیتے مفاد پرست شخص توقربانی دینا جانتا ہی نہیں۔اسی لئے مہاجرزیادہ تر دینی جماعتوں میں شامل ہوگئے ا ور اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے لگے لیکن ان کی اگلی جنریشن کی سوچ تو ایسی نہیں تھی اسکامطمع نظرہی اورتھا لہٰذا انہوں نے اپنے حقو ق اور مطالبات کیلئے شور مچانا شروع کردیا۔


.
تازہ ترین