• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی پارلیمان کے اندر ایک دستور پاکستان کے نام سے کونا یا ایک پتلی سی گلی بنائی گئی ہے جس میں دستور پاکستان کے حوالہ سے تحریریں، تصاویر اور تاریخ ترتیب دی گئی ہے۔ مقام شکر ہے کہ اس شورش زدہ دورمیں کوئی تو ایسا فارغ شخص یا ادارہ ہے جس کو اتنی فرصت ملی کہ وہ ملی خدمات سے فارغ ہو کر دستور پاکستان کی تاریخ مرتب کرسکے اور پھر اتمام حجت کے لئے سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی کو مدعو کرے۔ حیرانی کی بات ہے کہ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے ناخدا آصف علی زرداری نے رضا ربانی پر غیر معمولی اعتماد کا اظہار کیا پیپلز پارٹی میں وہ دستور پسند حلقے کی ترجمانی کرتے ہیں جبکہ ان کو دستور شناسی کے معاملہ میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ دنوں اسمبلی میں ایک بل کی منظوری کے موقع پر ان کا بیان کہ انہوں نے پارٹی کی خاطر اصول اور نظریہ کو نظر انداز کر کے ووٹ دیا تھا اور اس کیفیت پر ان کے چہرہ پر اشکوں کا سیلاب تھا۔ اب یہ نہیں معلوم کہ وہ ندامت کے آنسو تھے یا ملامت کے۔
پاکستان میں دستورکی تاریخ مرتب کرنے والے بہت۔ مگر دستور پر عمل کرنے والوں کی بہت کمی ہے۔ اب حالیہ دور میں ہی دیکھ لیں دستور کو پارلیمان میں کتنی اہمیت ملتی ہے دستور انصاف اور قانون کے لئے جو تحفظ دیتا ہے کیا ہماری سرکار اس تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ دستور میں اہم ترین فریق عوام اور ادارے ہیں۔ اس وقت جو اداروں کا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ پھر عوام کے بارے میں سرکار کی پالیسی مبہم اور غیر واضح ہے۔ عوام کو مراعات اور حوصلہ دینا تو دور کی بات ہے۔ اس وقت تو وہ عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں۔ دستور پر عملدرآمد کے بارے میں سیاسی جماعتوں کا کردار عوام کو اپنے بارے میں مزید مشکوک بناتا ہے۔ کسی سیاسی جماعت نے کبھی اپنے دستور پر عمل کیا ہو؟ مگر جمہوریت کی راگنی کے لئے دستور کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جو دستور کو نظرانداز کر کے جمہوریت کو مضبوط بنانے میں لگی ہے۔ ابھی چند دن پہلے چترال میں وزیراعظم پاکستان نے عظیم الشان جلسہ کیا جہاں خوب نعرے لگے کہ ’’دیکھو دیکھو کون آیا‘‘ مگر عام لوگوں کو اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ مسلم لیگ نواز کے زرخیز دماغوں نے کیا خوب نعرہ گھڑا ہے۔ شکر ہے میاں نوازشریف نے خواص سے نہیں پوچھا کہ یہ دیکھو دیکھو کیا ہے یہاں اگر اشرافیہ سے پوچھ لیا جاتا تو ان کا جواب ہوتا کہ جناب آپ کے ہوتے ہوئے کوئی کسی دوسری طرف کیوں دیکھے۔ اس لئے تو کہتے ہیںدیکھو دیکھو بس ہماری جمہوریت میں ایک ہی نعرہ ہے کہ دیکھو دیکھو۔ مگر کیا دیکھیں جبکہ ایسی جمہوریت میں تو نظر آنا ویسے ہی بند ہو جاتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف جمہوریت کے سپاہی ہیں۔ مگر اس دفعہ یوم دفاع کے موقع پر جمہوریت پسندوں کا کردار نظر نہیں آیا۔ ملک کی اشرافیہ، پارلیمان کے ممبران، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور نوکر شاہی کے اہم لوگ دفاع پاکستان کی اہم تقریبات میں جوش اور جذبے کے ساتھ نظر نہیں آئے۔ ایک تو دہشت گردی کی وجہ سے اشرافیہ، عوامی نمائندے اور اعلیٰ نوکر شاہی بہت ہی محتاط ہو چکی ہے پھر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خوف بھی معاشرے میں نمایاں ہے۔
اس سال دہشت گردوں نے اپنا ہدف خیبرپختونخوا اور بلوچستان بنا رکھا ہے۔ پنجاب اور سندھ نسبتاً محفوظ نظر آتے ہیں۔ کراچی میں دہشت گردی کے بعد جودوسرا بڑا مسئلہ ہے وہ بددیانتی ہے۔ صوبہ سندھ میں نوکر شاہی نے نیب کےساتھ مبینہ طور پر مک مکا کر رکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں اعلیٰ عدالت کو مداخلت کرنی پڑی کہ نیب نے کس حیثیت میں بددیانت لوگوں کو تحفظ دیا ہے۔ دستور کے مطابق جرم ثابت ہونے پر سزا ضروری ہے مگر نیب نے سزا کی بجائے اپنے طور جزا دینے کا قاعدہ بنا رکھا ہے۔ نیب کا قانون سابق جنرل مشرف کے دور میں بنایا گیا تھا۔ سابق فوجی گورنر خالد مقبول نے بارگیننگ کا اصول رائج کروایا۔ یعنی اگر لوٹ مار کے مال میں سے کچھ رضا کارانہ طور پر واپس کردیا جائے تو جرم ختم ہوسکتا ہے اور اس پر آج بھی عمل ہورہا ہے اور قانونی تحفظ دیا جارہا ہے۔
پاکستان میں رائج جمہوریت نے قانون اور اصول کے طور طریقے ہی بدل دیئے ہیں اور ملک میں کرپشن کا شور ہونے کے باوجود کوئی بھی شخص یہ نعرہ مستانہ نہیں لگاتا کہ دیکھو دیکھو کون آیا ہے۔ اصل میں عوام کو نظر بھی نہیں آتا۔ ان کی آنکھوں میں جمہوریت کا موتیا ایسا اترا ہے کہ اس کا علاج بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ عوام کو (بددیانتی) کرپشن سے کوئی تکلیف نہیں۔ پھر مہنگائی اوربجلی کی کمی بھی اب عوام کو پریشان نہیں کرتی۔ اگر کوئی چیز سستی ہو بھی جائے تو پریشانی ہونے لگتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ دنیا بھر میں پٹرول اور گیس کی قیمتیں کم ہورہی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں قیمت برقرار رکھنے کے لئے ٹیکس پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ یہ بھی جمہوریت کو مضبوط کرنے کا ایک ٹوٹکہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹوٹکوں والی جمہوریت پاکستان کے دستور کو بے نور نہ کردے۔ کوئی یہ کہنے والا نہ آجائے
ایسے دستور کو
صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا


.
تازہ ترین